حیدرآباد جو کل تھا… ممتاز فوٹوگرافر شاہ علی

محمد ریاض احمد
سرزمین دکن نے ہر دور میں ایسے گوہر نایاب پیدا کئے ہیں جن کی آب و تاب سے ایک دور چمک اُٹھا۔ ان کی صلاحیتیں اور ان کا فن صرف ایک فرد یا خاندان تک محدود نہیں رہا بلکہ بِلالحاظ مذہب و ملت ہر کسی نے ان سے استفادہ کیا۔ ہمارے شہر حیدرآباد فرخندہ بنیاد میں بے شمار ایسی ہستیوں نے جنم لیا ہے جن کی پاکیزہ سوچ و فکر، عملی اقدامات، اُصول و ڈسپلن اور اپنے کام سے محبت نے انھیں دنیا بھر میں ممتاز کیا۔ روزنامہ ’سیاست‘ نے نوجوان نسل کو حیدرآباد کی مثالی تہذیب سے واقف کرانے کا بیڑا اُٹھایا ہے۔ ’’حیدرآباد جو کل تھا‘‘ سیریز کے تحت ہم نے ممتاز فوٹوگرافر پورٹریٹ اسپیشلسٹ جناب ایس شاہ علی سے بات کی۔ انھوں نے جہاں قدیم حیدرآباد کی بیش قیمت یادوں کو اپنے کیمروں میں قید کر رکھا ہے، وہیں ساری دُنیا میں مشہور اس تہذیب کو وہ اپنی پینٹنگس میں ڈھال کر خاص و عام کو اس سے واقف کرانے میں مصروف ہیں۔

شاہ علی کی لی گئیں تصاویر ایسا لگتا ہے کہ دیکھنے والوں سے ساری داستان بیان کردیتی ہیں۔ اسی طرح ان کی تیار کردہ پینٹنگس اپنے مختلف رنگوں کے ذریعہ قدیم دور، اُس وقت کے ماحول، تہذیب و تمدن، حکمرانوں کی رعایا پروری، رواداری، ان کی سادگی، شہزادوں کی انکساری، امراء کی وفاداری، عام آدمی کی بے فکری کے بارے میں اچھی طرح واقف کراتی ہیں۔ غرض شاہ علی کی تصاویر اور پینٹنگس اس محاورہ ’’تصویر ہزار لفظ بیان کردیتی ہے‘‘ کے مصداق ہیں۔ بچپن سے ہی محنت و جستجو سے لگاؤ رکھنے والے جناب شاہ علی 78 سال کی عمر میں بھی خود کو اس قدر مصروف رکھتے ہیں کہ انھیں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ ان کی شخصیت ہی نہیں بلکہ ان کا گھر بھی ہمارے لئے باعث حیرت رہا۔ کیمرہ مین نظام الدین لئیق کے ساتھ جب ہم جناب شاہ علی کی قیامگاہ میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ وہ گھر نہیں بلکہ فن کا مسکن ہے۔ انھوں نے سارے گھر کو آرٹ میوزیم میں تبدیل کر رکھا ہے۔ اس گھر کے در و دیوار سے لے کر فرش تک آرٹ جھلک رہا تھا۔

جناب شاہ علی نے بتایا کہ ان کے والد حیدرآباد آرمی میں ایک سپاہی کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے تھے۔ انھیں فوٹوگرافی کا بہت شوق تھا۔ دن میں وہ سپاہی ہوتے اور شام ہوتے ہی فوٹوگرافر بن جاتے۔ انھوں نے نظام اسٹوڈیو کے نام سے ایک فوٹو اسٹوڈیو کھول رکھا تھا۔ چونکہ اس دور میں بہت کم اسٹوڈیوز اور فوٹوگرافر ہوا کرتے تھے۔ اس لئے ان کی بہت مانگ تھی۔ اس زمانے میں بڑے کیمرے اور بڑے بڑے نیگیٹیوز ہوا کرتے تھے۔ کیمروں کا سائز 10×12 اور نیگیٹیوز کا سائز 10×10 ہوا کرتا تھا جب کہ آج کی دُنیا میں ہر چیز سمٹ گئی ہے۔ پن میں تک کیمرہ آگیا ہے۔ نیگیٹیوز اور ریل کی ضرورت ہی نہیں رہی۔

ایک سوال کے جواب میں جناب شاہ علی نے بتایا کہ بڑے گروپ فوٹوز لینے میں ان کے والد جناب ایس محی الدین غیر معمولی مہارت رکھتے تھے۔ نتیجہ میں محکمہ پولیس اور فوج کا سارا کام نظام اسٹوڈیو کو ہی ملا کرتا تھا۔ حیدرآبادی تہذیب کی اس نمائندہ شخصیت کے مطابق اس زمانے میں 7 تا 9 اسٹوڈیوز ہوا کرتے تھے جن میں بیاس آرٹ اسٹوڈیو، اچاریہ بھگوان اسٹوڈیو، ملکی آرٹ اسٹوڈیو، ریگل آرٹ اسٹوڈیو، ہاناگراف اسٹوڈیو، نام اسٹار اسٹوڈیو، سنٹرل اسٹوڈیو، پیالس اسٹوڈیو اور کاردار فوٹو اسٹوڈیو قابل ذکر ہیں۔ زیادہ تر فوٹو اسٹوڈیوز گولی گوڑہ چمن کے قریب ہوا کرتے تھے۔ فوٹوگرافی سے اپنے شوق کے بارے میں جناب شاہ علی نے بتایا ’’والد صاحب کا قائم کردہ نظام اسٹوڈیو بہت مشہور تھا۔ والد صاحب کو کام کرتا دیکھ کر مجھ میں بھی فوٹوگرافی کا شوق پیدا ہوا۔ میں سلائیڈ پکڑکر ٹھہر جاتا۔ جب کیمرہ مین فوکس کرتا، میں سلائیڈ تھامے اس کی مدد کرنے میں مصروف ہوجاتا‘‘۔
اس دور میں کیاب سسٹم تھا۔ سورج کی روشنی وغیرہ کو کیاب سسٹم سے Cover کرلیا جاتا۔ بہ یک وقت جوڈو کراٹے جیسے مارشل آرٹ، گھڑسواری، پولو، تیراکی جیسے فنون میں ماہر شاہ علی دور طالب علمی میں ریاضی میں بہت کمزور تھے۔ اس بارے میں وہ کہتے ہیں ’’میں نے انوارالعلوم اسکول سے تعلیم حاصل کی۔ ریاضی کے مضمون سے مجھے خوف ہوا کرتا تھا۔ اس کے برعکس تاریخ، جغرافیہ اور انگریزی سے بہت دِلچسپی تھی۔ ریاضی کے باعث علی گڑھ میٹرک کیا۔ وہ ایسا دور تھا جس میں اساتذہ کے پڑھانے، طلباء کی رہنمائی کا انداز بڑا ہی نرالا ہوا کرتا تھا۔
اُس وقت پیالس ٹاکیز کے پاس ایم اے او انسٹی ٹیوٹ قائم تھا جہاں جاگیرداروں اور امراء وغیرہ کے بچے حصول علم کے لئے آیا کرتے تھے۔ یوسف خاں صاحب، ڈاکٹر غلام جعفر اور جناب نعمت خان اس پیارے انداز میں پڑھاتے تھے کہ طلباء اپنے سبق کو بھول نہیں سکتے تھے۔ ویسے بھی وہ ایسا زمانہ تھا جس میں تعلیمی معیار بہت اعلیٰ ہوا کرتا تھا۔ علی گڑھ سے میٹرک کامیاب کرنے کے بعد اگرچہ شاہ علی صاحب نے پی یو سی (انٹرمیڈیٹ) میں داخلہ لیا، لیکن بہت زیادہ گاہکوں کے نتیجہ میں ان پر کام کا بوجھ بڑھ گیا۔ ساتھ ہی فوٹوگرافی ان کے ذہن و قلب پر چھائی ہوئی تھی۔ اپنے اس شوق کے بارے میں وہ خود اس طرح بیان کرتے ہیں۔

’’بچپن سے ہی فوٹوگرافی کا شوق جنون کی حد تک تھا اور یہی جنون اس فن میں میری کامیابی کا باعث بنا۔ طبیعت میں بے چینی تھی، کچھ کرنے کی آرزو، کچھ سیکھنے کی تمنا تھی۔ اس لئے سارتھی اسٹوڈیو بھی گیا۔ مشہور فوٹوگرافر جناب یوسف ملجی کے تحت بھی کام کیا۔ وہ ممتاز فلم ساز بمل رائے کے اُستاد تھے۔ مجھ سے بمل رائے کی فیملی بہت متاثر تھی۔ ان لوگوں نے فلموں میں کام کرنے کی پیشکش بھی کی، لیکن میں نے انکار کردیا جس پر ان کی ایک لڑکی نے پرزور انداز میں کہا تھا کہ لوگ فلموں میں کام کرنے کے لئے ترستے ہیں اور آپ اس سنہری موقع کو ٹھکرا رہے ہیں۔ اپنی پیشہ ورانہ مہارت کے بارے میں استفسار پر جناب شاہ علی نے بتایا کہ وہ بہت کچھ کرنا چاہتے تھے اور کر بھی رہے تھے، لیکن زندگی میں جب تک کسی کو ایک اچھا رہنما یا اُستاد نہیں ملتا، تب تک لاکھ صلاحیتوں کے باوجود وہ کچھ نہیں کرسکتا۔اُس وقت شاہ علی کمرشیل کام کررہے تھے۔ اس کے باوجود ان کا پلان ایسا کچھ کرنے کا تھا جس سے معاشرے کے ساتھ ساتھ اپنی ذات کو بھی فائدہ پہنچے۔ وہ کہتے ہیں ’’والد صاحب کا نظریہ کمانے کا اور میرا نظریہ گنوانے کا تھا‘‘۔ اسی لئے میں نے اپنے شوق کی تسکین کے لئے گداگروں وغیرہ کے پکچر بنانے شروع کئے۔ جو کچھ بھی آمدنی ہوتی، اس سے نئے کیمرے خریدا کرتا۔ اسی دوران سکندرآباد کلب میں آنا جانا شروع ہوا۔ وہاں ہم اِنجوائے بھی کرتے اور تصاویر بھی لیتے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ تصاویر کی فروخت سے آمدنی میں اضافہ ہوا اور اس آمدنی کو میں نے یاشیکا، مامیا اور دیگر اڈوانسڈ کیمروں کی خریداری پر خرچ کیا۔

اپنی زندگی کے اہم موڑ سے متعلق سوال پر حیدرآباد کے اس شاہی فوٹوگرافر نے جنھوں نے آصف جاہی خاندان کی اہم تقاریب کو اپنے کیمروں میں قید کرنے کا اعزاز حاصل کیا، بتایا کہ حیرت بدایونی کے فرزند اور افضل محمد کے بھائی ایم حسن ان کے اچھے دوست تھے۔ انھوں نے ایک دن کہا کہ میں آپ کو ایک ایسی شخصیت سے ملاتا ہوں جو نہ صرف آپ کی رہنمائی کرے گی بلکہ آپ کے فن کو ساری دُنیا میں متعارف کرانے کا باعث بھی بنے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور راجہ ترمیک راج بہادر اے آر پی ایس کی شکل میں انھیں ایک ایسا رہنما مل گیا، جو اپنے آپ میں فن فوٹوگرافی کا ایک ادارہ تھے۔ ان کے بھائی آصف جاہی دور میں وزیر کے باوقار عہدہ پر فائز تھے۔ جب راجہ ترمبک راج بہادر کو شاہ علی نے اپنا کام دکھایا، تب وہ ایک کم عمر لڑکے کے اس غیر معمولی کام کو دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ اُسی وقت کہہ دیا کہ آپ (شاہ علی) نے ایسا کام کیا ہے، جس میں بہت کچھ کرنے کی گنجائش ہے۔ اس وقت میکس ملر بھون باغ عامہ میں فوٹوگرافی کا مقابلہ ہورہا تھا۔ اس کے لئے کمسن شاہ علی نے کئی تصاویر لیں، تاہم راجہ صاحب نے صرف چار تصاویر کو منتخب کیا۔یہ وہ تصاویر تھیں جو شاہ علی صاحب نے گداگروں کو ایک دو، تین اور پانچ روپئے ادا کرتے ہوئے بنائی تھیں۔ وہ ان گداگروں کے مختلف موڈ میں تصاویر لیتے۔ بہرحال مقابلہ شروع ہونے سے ایک دن قبل راجہ صاحب نے ایک انتہائی ضعیف خاتون گداگر کی فوٹو منتخب کی اور پھر اسے مقابلہ کے لئے بھیج دیا گیا۔ اُس مقابلہ میں اُس دور کے مانے ہوئے فوٹوگرافرس شریک تھے، لیکن وہاں راجہ ترمبک راج بہادر کی رہنمائی نے کام کیا جس کے نتیجہ میں شاہ علی کی اس تصویر کو اِنعام سے نوازا گیا۔جناب شاہ علی نے جن کی آنکھوں میں زندگی کی کامیابیوں کی ایک چمک دکھائی دے رہی تھی، بتایا کہ اس بوڑھیا کی تصویر نے ان کی زندگی بدل ڈالی اور آسمان فوٹوگرافی پر شاہ علی کے نام سے ایک نیا ستارہ اُبھر آیا جس کی چمک 50، 60 برس گزر جانے کے باوجود ماند نہیں پڑی بلکہ وہ اس شعبہ کے دیگر ستاروں کی رہنمائی کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔ دِلچسپی کی بات یہ ہے کہ شاہ علی کی اس تصویر کو مقابلہ میں HANG کیا گیا تھا جو کسی بھی فوٹوگرافر کے لئے بہت بڑا اعزاز ہوتا ہے۔ شاہ علی کے مطابق انھیں اِنعام میں جو دس روپئے عطا کئے گئے تھے، وہ ان کے لئے دس ہزار سے بھی زیادہ کی اہمیت رکھتے تھے۔ بعد میں اس تصویر کو فوٹوگرافی کے قومی و بین الاقوامی مقابلوں میں بے شمار ایوارڈس ملے۔شہزادہ برکت علی خاں مکرم جاہ بہادر کے شخصی فوٹوگرافر کی حیثیت سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے والے شاہ علی صاحب اپنے ہم عصر فوٹوگرافرس کے ساتھ ساتھ اُنیسویں صدی کے عظیم فوٹوگرافر راجہ دین دیال کی تعریف کرتے نہیں تھکتے۔ ان کے خیال میں راجہ دین دیال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ اپنے کام کو عبادت کی طرح انجام دیتے۔ نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا میں فوٹوگرافرس کی تاریخ راجہ دین دیال کے بغیر نامکمل رہے گی۔ ان کی ہر تصویر فن کا شہ پارہ کہی جاسکتی ہے۔ ہر تصویر میں وہ اپنے فن کو ایسے جذب کردیتے کہ محسوس ہوتا کہ تصویر ساری داستان بیان کررہی ہو۔ وہ نواب محبوب علی خاں بہادر اور ملکہ وکٹوریہ کے دربار میں فوٹوگرافر تھے۔ اپنے معاصر فوٹوگرافرس کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ اُس دور میں رؤف صاحب (بلیک اینڈ وائٹ فوٹوز) کے ماہر تھے جب کہ خود ان کے والد شیخ محی الدین کو گروپ فوٹوگرافی کا سرخیل کہا جاتا تھا۔

اُس زمانے میں عصری ٹکنالوجی سے دُور رہنے کے باوجود ہندوستانی فوٹوگرافی کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے والے شاہ علی کے مطابق انھوں نے جب فوٹوگرافی سیکھی، اُس وقت فوٹو لینے کے لئے شامیانے لے جانے پڑتے تھے۔ بڑے بڑے کیمرے، ان پر ڈالنے کے لئے چادر نما کپڑے لے جانے پڑتے۔حیدرآباد کی قدیم تہذیب اور حضور نظام نواب میر عثمان علی خاں بہادر کی رعایا پروری کے سوال پر جناب شاہ علی نے بتایا کہ وہ انتہائی سادگی پسند تھے۔ ایک مرتبہ حضور نظام کا بیڈروم دیکھنے کا اتفاق ہوا، جہاں ایک معمولی سا پلنگ اور ساز و سامان دیکھ کر وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ دُنیا کا دولت مند ترین شخص اور بادشاہ وقت کس طرح سیدھی سادی زندگی گزارتا ہے جناب شاہ علی کے خیال میں نذری باغ کو حقیقت میں ہیریٹیج کا نام دیا جاسکتا ہے۔ کل کے اور آج کے حیدرآباد میں فرق کے بارے میں سوال پر انھوں نے ایک ٹھنڈی آہ بھرکر جواب دیا ’’جناب عالی! وہ وقت پھر کبھی لوٹ کر نہیں آسکتا۔ ویسے لوگ، ان کی رواداری، تہذیب و پاسداری، شائستگی ڈھونڈنے پر بھی نہیں ملتی۔ سب کچھ بدل گیا ہے‘‘۔

محبت و مروت اُس دور کا خاصا تھا۔ آج لوگ ہمہ منزلہ عمارتیں تعمیر کررہے ہیں، فلیٹس کی زندگی ہوگئی، عمارتیں تو بلند و بالا ہوگئی ہیں، لیکن انسانیت کا قد گھٹ گیا ہے۔ انسانوں کے دِل چھوٹے ہوگئے ہیں۔ ان کی فکر اپنے مفادات تک ہی محدود ہوگئی ہے جب کہ ماضی کے حیدرآباد میں بِلالحاظ مذہب و ملت لوگوں میں پیار و محبت اور خدمت کا جذبہ تھا۔
ماضی کی یادیں، حیدرآبادی تہذیب اور تاریخی آثار ہمارے لئے نعمت ہیں۔ مرزا غالبؔ اور علامہ اقبالؔ کے مداح شاہ علی کو فوٹوگرافی اور مصوری کے ساتھ ساتھ ادب سے بھی گہرا لگاؤ ہے۔ وہ طنز و مزاح سے بھی بڑی دِلچسپی رکھتے ہیں۔ طنز و مزاح کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ یہ حقیقت کو بہتر انداز میں پیش کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ مجتبیٰ حسین، فکر تونسوی، دلیپ سنگھ، خواجہ عبدالغفور، یوسف ناظم، حبیب ضیاء کو وہ پڑھتے رہتے ہیں۔
پورٹریٹ فوٹوگرافی کی دُنیا میں نام پیدا کرنے والے اس سپوت نے ہندوستان کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہرلال نہرو، آنجہانی وزیراعظم شریمتی اندرا گاندھی، سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر ذاکر حسین، فخرالدین علی احمد، شیر کشمیر شیخ عبداللہ، شاعر اِنقلاب مخدوم محی الدین، جناب عابد علی خاں، جناب محبوب حسین جگر، شاذ تمکنت، نریندر لوتھر، علی سردار جعفری، روڈا مستری، صادقین، ساحر لدھیانوی اور مجتبیٰ حسین کے پورٹریٹس بنائے ہیں۔

شاہ علی کے کلکشن میں ایڈیٹر روزنامہ ’سیاست‘ جناب زاہد علی خاں اور نیوز ایڈیٹر جناب عامر علی خاں کے پورٹریٹس بھی شامل ہیں۔ کئی برس قبل انھوں نے جناب عامر علی خاں کا پورٹریٹ بنایا تھا اور اس کے نیچے ’’سیاست کا روشن مستقبل‘‘ تحریر کیا تھا۔ ان کی پیش قیاسی بالکل درست ثابت ہوئی۔

ہندوستان سے لے کر فرانس تک اپنی قابلیت کا لوہا منوانے والے شاہ علی کو دُنیائے فوٹوگرافی نے بے شمار اعزازات سے نوازا، لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو شاہ علی نے خود فوٹوگرافی کے فن کو بہت کچھ دیا ہے۔ اس فوٹوگرافر نے ہارس پولو میں پرنس آف برار کپ جیتا۔ جوڈو نیشنل میں سلور میڈل حاصل کیا۔ انھوں نے اپنے گھر میں قائم کردہ اسٹوڈیو کو اپنی مرحوم اہلیہ مہرالنساء شاہ سے موسوم کیا ہے۔ شاہ علی نے اپنے بچوں کو ’ہر فن مولا‘ بنایا ہے۔ گھڑسواری، فنونِ سپہ گری اور مارشل آرٹ میں وہ ماہر ہیں۔ عصری ٹکنالوجی سے بھرپور استفادہ کرتے ہیں اور انگریزی پر بطور خاص عبور حاصل کیا۔ اپنی اولاد کی تربیت کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے بچوں کو اس بات کی نصیحت کی ہے کہ بیٹے! ہر چیز سیکھو، ہر فن میں مہارت حاصل کرو، لیکن جھوٹ سے خود کو بچائے رکھو۔
یہ محنت کا دور ہے، محنت کے ذریعہ ہی انسان اپنے مستقبل کو سنوار سکتا ہے۔ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ آرٹ کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ انسان اپنے اخلاق اور پاکیزہ اُصولوں سے یاد رکھا جاتا ہے۔ سب کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا، تب ہی ہم کامیابی کی راہ پر گامزن ہوسکتے ہیں۔ اسی لئے ایک خوش حال معاشرے کے لئے مخدومؔ محی الدین نے صحیح کہا تھا… ؎
حیات لے کے چلو، کائنات لے کے چلو
چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو
m