تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
حیدرآباد کرناٹک کی تاریخ کو مسخ کر کے پیش کرنے کی کوشش میں کود پڑنے والوں میں ملک کے وزیراعظم نریندر مودی بھی شامل ہوگئے ہیں ۔ کرناٹک اسمبلی انتخابات کے لیے چلائی گئی انتخابی مہم اور جلسوں سے خطاب کے دوران وزیراعظم مودی نے جہاں جنرل کریپا اور جنرل تھمیا کے تعلق سے غلط بیانی سے کام لیا وہیں حضور نظام میر عثمان علی خاں ، رضاکاروں اور آزادی ہند کے بعد کے حالات کے تعلق سے رائے دہندوں کے سامنے من گھڑت باتیں پیش کر کے دستوری جلیل القدر عہدہ پر فائز شخص نے اخلاقی کوتاہیوں اور بددیانتی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ حیدرآباد کرناٹک کے عوام نظام حکمرانی والے علاقوں میں پائی جانے والی دیرینہ سیکولر مزاجی ، بھائی چارہ ، اخوت و محبت سے اچھی طرح واقف ہیں ۔ وزیراعظم مودی نے تقسیم ہند کے بعد میر عثمان علی خاں سے سردار ولبھ بھائی پٹیل کی ملاقات اور انڈین یونین میں حیدرآباد سلطنت کے انضمام کا ذکر متعصبانہ طریقہ سے کر کے جنوبی ہند خاص کر کرناٹک کے عوام کی نظروں میں اپنے اور پارٹی کے وقار کو ملیا میٹ کردیا ۔ 1947-48 کے درمیان چند ایسے اضطراب آمیز ماہ ، دن و رات گذرے ہیں کہ اس سے ہر سیکولر ذہن واقف ہے ۔ اس دوران فرقہ پرست ہندوؤں کے ہاتھوں لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام ہوا لیکن مودی نے رضاکاروں کے ہاتھوں ہندوؤں کے قتل عام کا بیان دے کر فرقہ وارانہ کشیدگی کا ماحول پیدا کرنا چاہا ہے ۔ کرناٹک انتخابات کو خالص ہندو مسلم میں دوری پیدا کرنے کا میدان بناکر مقابلہ کیا جارہا ہے ۔ کرناٹک کے ذریعہ بی جے پی سارے جنوبی ہند خاص کر تلنگانہ میں 1948 کے واقعات کا احیاء کرنا چاہتی ہے ۔ مسلمانوں کو قوم دشمن ثابت کرنے میں وہ کوئی موقع ضائع نہیں کررہی ہے ۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں محمد علی جناح کا پورٹریٹ ہو یا بنگلور میں ٹیپو سلطان کی جنتی منانے کا معاملہ ہو ۔ مسلم ناموں سے مربوط موضوع کو فرقہ وارانہ رنگ یا قوم دشمنی کا الزام دے کر ماحول کو گرمایا جارہا ہے ۔
دہلی کے اکبر روڈ کا نام راتوں رات مہارانا پرتاب روڈ بنانے کی سازش کی گئی ۔ فرقہ پرست حکمرانوں نے سیاسی جلسوں میں ٹی وی چیانلوں کے مباحث میں میڈیا کانکلیو ہو یا کسی خانگی تقریب میں مسلمانوں کی حب الوطنی کو نشانہ بنانے والے کارکنوں کو سرگرم کردیا ہے ۔ میڈیا کے بھتہ خور صحافیوں کی مدد سے ٹی وی مباحث کا انتظام کیا جارہا ہے ۔ جس میں نام نہاد مسلم قائدین مسلم انٹلکچول ، سیاسی و مذہبی لیڈروں کو جمع کر کے ان کے منہ میں اپنے الفاظ ڈال کر یہ بھتہ خور صحافی مسلمانوں کی حب الوطنی کو مشکوک بنائے انہیں قوم دشمنی قرار دینے میں کسی حد تک بھی جاتے دکھائی دیتے ہیں ۔ جس طرح کا ماحول بنایا جارہا ہے ۔ ایسے میں ہندوستان میں رہنے والے مسلمان سچ بولنے کا حوصلہ کھوچکے ہیں ۔ ہندوستان میں آج مسلم قیادت کے فقدان کی وجہ سے ہی فرقہ پرستوں ہندوستانی مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑا کرنے کا حوصلہ حاصل ہوا ہے ۔ اگر ہندوستان کے ٹکڑے نہ ہوئے تو آج برصغیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہوتی پھر ہندوتوا کا سیاسی نظریہ وجود میں ہی نہیں آتا ۔ گذشتہ چار سال سے بی جے پی کے اندر موجود انتہا پسند عناصر ہندو قوم پرستی کا جو واویلا مچا رہے ہیں اس کا جواب تیار کرنے کی مسلمانوں نے کوئی جراتمندی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے ۔ نتیجہ میں یہ انتہا پسند عناصر دن بہ دن قوی ہوتے جارہے ہیں ۔ نام نہاد سیکولر طاقتیں بھی ان عناصر کے خلاف آواز نہیں اٹھا رہی ہیں ۔ ایسے میں تلنگانہ کی حکمراں پارٹی پر الزام عائد ہورہا ہے کہ وہ وفاقی محاذ بنانے کی فراق میں درپردہ طور پر فرقہ پرستوں کے ہاتھ مضبوط کرنے جارہی ہے ۔ قومی سطح سے لے کر ریاستی سطحوں پر خانہ جنگی جیسی فضا پیدا کردی جائے تو پھر ہندوستان کی ترقی میں از خود رکاوٹ پیدا ہوگی ۔ ہندوؤں کے ہجوم کو اکھٹا کر کے انہیں اکسانے والی ہندوتوا طاقتیں اس ہجوم کو مسلمانوں کا قاتل بنا دیں گی ۔ حضور نظام میر عثمان علی خاں ، ٹیپو سلطان یا محمد علی جناح کو بدنام یا توہین کرکے ہندوستانی مسلمانوں کو زچ کرنے والوں کی ان دنوں یہ عادت بن گئی ہے کہ ہندوستان میں حکمرانی کرنے والے مسلم حکمرانوں کو غدار ، حملہ آور ، ظالم قرار دے کر ہندوؤں کی ذہن سازی کی جائے ۔ اسے سماج کے اندر ایک عام بات بنادی گئی ہے ۔
حال ہی میں بی جے پی لیڈر نے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کے خلاف ایک ایف آئی آر درج کروایا تھا ۔ کیوں کہ چیف منسٹر کے سی آر نے حضور نظام کی ستائش کی تھی ۔ اس لیڈر نے یہ بھی کہا تھا کہ حضور نظام کی ستائش کر کے کے سی آر نے ہندو طبقہ کے جذبات کو ٹھیس پہونچائی ہے جب کہ اس ملک کے ماضی اور حال کے حکمراں یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ حضور نظام نے حکومت ہند کی کس حد تک بڑھ چڑھ کر مدد کی ہے ۔ آج کئی نام نہاد قوم پرست پیدا ہو کر اصل قوم پرست حضور نظام اور ان کی رعایا کو قوم دشمن قرار دے رہے ہیں ۔ وزیراعظم ہند لال بہادر شاستری کے 1965 کے دور میں جب حکومت ہند کو مالیہ کی کمی کا سنگین سامنا تھا ۔ ہند چین جنگ کے دوران چینی فوج کے خلاف ہندوستان کی دفاع کرنا مشکل ہوگیا تھا تو ایسے میں حضور نظام نے اپنی سلطنت کے خزانے کھول دئیے تھے ۔ وزیراعظم لال بہادر شاستری نے حیدرآباد کا دورہ کر کے حضور نظام سے رقمی امداد کی درخواست کی تو انہوں نے فوری ملک کی ہر ممکنہ مدد کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے فوری طور پر 5 ٹن سونا عطیہ میں دیا تھا ۔ جو نیشنل ڈیفنس فنڈ آف انڈیا کے تحت حاصل کیا گیا ۔ اس کے علاوہ انہوں نے 75 لاکھ روپئے کا رقمی فنڈ بھی عطا کیا تھا ۔ اگر حضور نظام کی اس فراخدلانہ عطیہ آج کی تاریخ کی کرنسی سے تقابل کیا جائے تو یہ رقم تقریباً 1700 کروڑ روپئے کی ہوتی ہے اور یہ عطیہ ہندوستان میں کسی فرد واحد یا تنظیم کی جانب سے اب تک دیا گیا سب سے بڑا رقمی تعاون ہے اور اس ریکارڈ کو آج تک کسی امبانی ، ادانی نے نہیں توڑا اور نہ ہی ہندوتوا کے نام نہاد قوم پرست توڑ سکے ہیں ۔ وزیراعظم مودی آج جس تاریخی حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں بادی النظر میں یہ اپنے ہم منصب لال بہادر شاستری کی توہین کررہے ہیں ۔ غور طلب امر یہ ہے کہ لال بہادر شاستری نے چین کے حملے کا جواب دینے یا ہندوستان کی حفاظت کے لیے رقمی امداد کی اپیلیں اس وقت کے تمام ہندو راجاؤں اور مہاراجوں کے حکمرانوں سے کی تھیں ۔ لیکن ان میں سے کسی نے بھی کوئی عطیہ نہیں دیا ۔ اسی لیے چیف منسٹر کے سی آر نے حضور نظام کے جذبہ قوم پرستی اور حب الوطنی کو سلام کرتے ہوئے ان کی ستائش کی ہے تو یہ سچائی کو تسلیم کرنے کا ثبوت ہے ۔ ہندو انتہا پسندوں کے عزائم کو ناکام بنانے کے لیے مسلمانوں کو اپنے مضبوط ماضی کے احیاء کی فکر کرنی ضروری ہے ۔ لیکن ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا کیوں کہ آج مسلمان صرف شادی خانوں ، سانچق ، مانجھوں ، پان کی دکانوں اور ہوٹلوں کی زینت بنے دکھائی دیتے ہیں ۔ آج کے مسلمانوں کا حشر بھی عین ممکن ہے کہ ماضی کے منگولوں کے ہاتھوں تباہ مسلمانوں جیسا ہوجائے ۔ آج مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ عرب سے لے کر عجم تک ان کی تحقیق و جستجو اور جدوجہد کا رخ صرف دسترخوان تک رہ گیا ہے ۔۔
Kbaig92@gmai