حیدرآباد کی برقی سپلائی ونٹیلیٹر پر

سید محمد افتخار مشرف
تلنگانہ ریاست ملک کی 29 ویں ریاست بن گئی۔ عوام نے ٹی آر ایس کو اقتدار سونپا تاکہ تلنگانہ ریاست میں ترقی ہو، خوشحالی ہو ،کیونکہ عوام گزشتہ حکومت سے بیزار ہوچکے تھے، مگر افسوس کہ جیسے ہی تلنگانہ ریاست وجود میں آئی۔ تلنگانہ اور خاص کر حیدرآباد کی برقی سپلائی ونٹیلیٹر پر آگئی۔ عوام پہلے ہی گرمی کی شدت سے پریشان تھے۔ اس پر کئی گھنٹے برقی سپلائی کی کٹوتی عوام کے لئے ایک عذاب سے کم نہیں۔ ہمارے چیف منسٹر شری کے چندر شیکھر راؤ تلنگانہ کو سنہرا تلنگانہ بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں، مگر یہاں کے عوام کو بنیادی ضرورتیں تک مہیا نہیں ہیں جن میں ایک بنیادی ضرورت برقی ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ ہمارے ملک کو آزاد ہوئے چھ دہے سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا مگر ابھی بھی اس ملک کے عوام کو بنیادی ضرورتیں میسر نہیں ہیں۔ شہر حیدرآباد میں برقی کٹوتی کا کوئی وقت مقرر نہیں، خاص کر پرانے شہر میں تو برقی اپنی مرضی سے آتی ہے اور چلی جاتی ہے بلکہ ہوتا یوں ہے کہ اگر آسمان پر بادل چھا گئے یا ہلکی ہوائیں چلنے لگیں یا بارش کی چار بوندیں گرنا شروع ہوئیں یا کہیں بجلی چمکی تو فوری برقی چلی جاتی ہے، اس کے واپس آنے کا کوئی وقت نہیں۔ یہ سب برقی کے تمام اداروں کی نااہلی، کاہلی اور عدم دلچسپی کا نتیجہ ہے جس کو عوام بُھگت رہے ہیں۔ یہ بڑی تعجب کی بات ہے

کہ برقی اعلیٰ عہدیداروں سے لے کر لائن میان تک کا عملہ موجود رہنے کے باوجود ہر چھوٹے یا بڑے کاموں کے لئے کنٹراکٹرس کا سہارا لیا جاتا ہے اور برقی کی سپلائی کا سارا دارومدار اسی کنٹراکٹرس کے رحم و کرم پر ہوتا ہے، جبکہ برقی عہدیدار معقول تنخواہیں حاصل کرتے ہیں۔ اپنی ڈیوٹی انجام دینے کے لئے مگر کام ان کنٹراکٹرس کے لوگوں پر چھوڑ دیتے ہیں، کیونکہ یہ لوگ ان عہدیداروں کو ہر وقت ’’لفافے‘‘ دیتے رہتے ہیں۔ میٹر ریڈنگ دیکھ کر بل بنانے والوں سے لے کر پول پر کام کرنے والے عملہ تک کنٹراکٹرس کے لوگ ہوتے ہیں جو اپنی من مانی کرتے ہیں اور اعلیٰ عہدیدار ان کی من مانیوں کو نظرانداز کرتے ہیں، کیونکہ یہ لوگ ان لوگوں سے ’’لفافے‘‘ جو لیتے ہیں جس سے تکلیف عوام کو ہی ہوتی ہے۔ برقی کے ان اداروں کے اس سسٹم کو بدلنا ضروری ہے۔ اعلیٰ عہدیداروں کو ذمہ دار اور جوابدہ بنانا چاہئے۔ ریاست کی تقسیم کے بعد برقی سربراہی میں بے قاعدگیوں کا مسئلہ شدت اختیار کرگیا ہے۔ برقی کٹوتی کا اثر معیشت کے علاوہ آئی ٹی شعبہ اور صنعتی پیداوار میں بھی پڑسکتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ دو سال سے آندھرا اور تلنگانہ علاقوں میں شدید برقی بحران ہے۔ ریاست کے برقی پلانٹس کو عصری اور برقی پیداوار بڑھانے کی جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ ریاست میں کام کرنے والے تھرمل برقی پلانٹس تقریباً 45 سال پرانے ہیں۔ شاید ان پلانٹس کا حد سے زیادہ استعمال بھی برقی شٹ ڈاؤن کی بڑی وجہ ہے۔ اب تلنگانہ کی نئی حکومت کو اپنے منصوبوں اور انتخابی وعدوں کی تکمیل کے لئے برقی کی ضرورت ہوگی۔

آئی ٹی شعبہ کے لئے بلارکاوٹ برقی سربراہی سے ہی پیداوار میں اضافہ ہوگا۔ اس اہم مسئلہ پر نئی حکومت کو فوری توجہ دینا ہوگا۔ تقسیم کے بعد آندھرا پردیش کی نئی حکومت نے اپنے پہلے کابینی اجلاس میں چیف منسٹر چندرا بابو نائیڈو نے آندھرا پردیش میں 24 گھنٹے برقی سربراہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اب دونوں ریاستوں کی نئی حکومتوں کو اس مسئلہ پر جنگی خطوط پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ تلنگانہ میں برقی بحران کو دُور کرنے کے لئے حکومت کو منصوبہ جاتی اقدامات کرنے ہوں گے۔ تلنگانہ ریاست میں حکومت کو اب نئے تجربے کرنے کا وقت نہیں ہے بلکہ موجودہ برقی پلانٹس کو عصری بنانے پر توجہ دینا ہوگا۔ تلنگانہ کے عوام چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ سے بہت سے توقعات وابستہ کئے ہیں۔ عوام کے توقعات کو پورا کرنا ہے۔ چیف منسٹر کو کئی چیالنجس کا سامنا ہے۔ سب سے پہلا چیلنج پانی اور برقی ہے۔ اس کے علاوہ صنعتی شعبوں کی بحالی اور نئی صنعتیں قائم کرنا اور تلنگانہ کے نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ اگر برقی بحران پر جنگی خطوط پر توجہ نہیں دی گئی تو اس کا اثر ریاست کی معیشت پر پڑے گا۔ صنعتی و تجارتی سرگرمیاں ٹھپ ہوجائیں گی تو سرمایہ کاری پر اثر پڑے گا۔ سرمایہ کاری نہیں ہوگی تو ریاست کیسے ترقی کرے گی۔ اگر چیف منسٹر صاحب تلنگانہ کو ’’سنہرا تلنگانہ‘‘ بنانے کی بات کرتے ہیں تو سب سے پہلے تلنگانہ کے اندھیرے کو دُور کریں پھر سنہرا بنائیں۔