حیدرآباد میں شادیوں کا موسم

میرا کالم             مجتبیٰ حسین
جیسا کہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ اس بار رمضان کے پورے مہینے میں ہم نے کسی افطار پارٹی میں شرکت نہیں کی ۔ اگرچہ اس فیصلے میں ہماری کچھ شخصی مجبوریاں بھی شامل تھیں لیکن ہم نے اس فیصلے کا سلسلہ تزکیہ نفس ، صبر و تحمل ، توکل اور فقر وغیرہ سے جوڑ لیا ۔ شخصی مجبوریوں کو کوئی اچھا سا عنوان دیا جائے تو اپنی کوتاہیاں بھی پس پشت چلی جاتی ہیں اورلوگ الگ سے خوش ہوتے ہیں کہ چلو ایک گمراہ راہ راست پر آگیا ۔ مگر رمضان کے فوری بعد ہم دس بارہ دنوں کے لئے یوں ہی حیدرآباد چلے گئے تو احساس ہوا کہ وہاں اب بھی افطار پارٹیوں کی سی صورت حال برقرار ہے ۔ اس لئے کہ رمضان کا مہینہ ختم ہوتے ہی حیدرآباد میں شادیوں کا موسم شروع ہوجاتا ہے ۔ یوں لگتا ہے جیسے اس موسم کے اختتام پر حیدرآباد میں کوئی بیچلر باقی نہیں بچے گا ۔ شادیوں کی وہ دھوم تھی کہ گلی گلی میں بینڈ باجے کا شور سنائی دیتا تھا ۔ کہیں بارات جارہی ہے ، کہیں چوتھی کا کھانا ہورہا ہے اور کہیں ولیمے کی دعوت کا اہتمام ہے ۔ کہیں عقد کے چھوارے اچھالے جارہے ہیں ۔ لگتا تھا سارا شہر شادی خانے میں تبدیل ہوگیا ہے ۔ جب احباب کو پتہ چلا کہ ہم حیدرآباد میں ہیں تو شادیوں کے دعوت نامے آنے شروع ہوگئے ۔ بلامبالغہ ایک دن تو ہمیں چار شادیوں میں شرکت کرنا پڑی ۔ پانچویں شادی کی دعوت بھی آئی تھی لیکن ہم یہ عذر پیش کرکے وہاں نہیں گئے کہ شرعی اعتبار سے جب چار سے زیادہ شادیاں کرنے کی اجازت نہیں ہے تو کیوں نہ ہم شادیوں کی تقاریب میں شرکت کے معاملے میں بھی اسی اصول پر عمل کریں ۔
شادیوں کے اس موسم میں جب بیچلر نوجوانوں کی فصل کاٹی جارہی تھی تو ہمیں اپنی شادی کی بھی یاد آئی جو اب ایک قصۂ پارینہ بن چکی ہے ۔ تین برس اور گذر جائیں تو ہماری ازدواجی زندگی پر سے پوری نصف صدی گزر جائے گی ۔ لیکن یقین مانئے جب ہماری شادی  ہوئی تھی تو ہمیں یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ شادی کیوں کی جاتی ہے ۔ خیر اس عمل کے باوجود پچھلے کئی برسوں سے ہمارا شمار شادی شدہ انسانوں میں ہوتا ہے بلکہ کبھی کبھار تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم پیدا ہی شادی شدہ ہوئے تھے ۔

اتنی طویل شادی شدہ زندگی کے آگے ہماری مختصر سی بیچلر زندگی اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر دکھائی دیتی ہے ۔ نہ بینڈ باجے کا شور سنائی دیا ، نہ گھوڑی پر بارات نکلی اور نہ ہی اپنی نئی نویلی دلہن کو اس کے گھر سے اپنے گھر لے آئے کیونکہ ہم دونوں تو پہلے ہی سے ایک ہی گھر میں رہتے تھے  بس گھر کے ایک کمرے سے نکل کر بارات دوسرے کمرے تک چلی گئی ۔ اتنا ضرور یاد ہے کہ ہمارے نکاح کے وقت ایک قاضی بھی موجود تھا جو بے حد گیا گزار اور ازکار رفتہ تھا ۔ نہایت دُبلا پتلا ، مریل اور عمر رسیدہ ۔ اس کا خیال آتا ہے تو ہمیں پطرس بخاری مرحوم یاد آتے ہیں ۔ سنا ہے کہ پطرس بخاری نے اچانک اپنے کسی عزیز کی شادی کرنے کا فیصلہ کیا ۔ لاہور میں ان دنوں شادیوں کا موسم چل رہا تھا ایسے میں کسی مناسب قاضی کا ملنا دشوار تھا ۔ پطرس بخاری کے ماتحتین نے بڑی تلاش و جستجو کے بعد ایک مریل اور عمر رسیدہ قاضی ڈھونڈ نکالا ۔ اس کی حالت بھی ہمارے قاضی کی طرح ناگفتہ بہ تھی  ۔ قاضی کو جب پطرس بخاری کے سامنے پیش کیا گیا تو پطرس بخاری اسے دیکھ کر بے حد خوش ہوئے ۔ فرمایا ’’واہ کیا لاجواب قاضی پکڑ کر لے آئے ہو ۔ اسے تو چھوارے کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے‘‘ ۔ غرض ہماری شادی میں بھی ایسا ہی ایسا قاضی لایا گیا ، چونکہ اونچا سنتا تھا اسی لئے ہمیں چار پانچ مرتبہ بہ آواز بلند ’’قبول کیا میں نے‘‘ کہنا پڑا ۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ قاضی اب بقید حیات نہیں ہوگا ۔ کیونکہ ہماری شادی کے وقت ہی اس کی حالت بتارہی تھی کہ وہ غالباً اپنی زندگی کا آخری اور وداعی نکاح پڑھوارہا ہے ۔ اسے جو بھی فیس دی گئی اسے اس نے بے حیل و حجت قبول کرلیا ۔ اس بات سے احساس ہوا کہ وہ دنیا اور دنیا کی چاہت سے بے نیاز ہوچکا ہے ، اور دنیا سے ترک تعلق کرنے کی منزل میں داخل ہوچکا ہے ۔ جس بے دلی کے ساتھ ہم نے شادی کی تھی کم و بیش اتنی ہی بے دلی کے ساتھ مندرجۂ بالا قاضی نے ہمارا نکاح بھی پڑھوایا تھا ۔ گویا ہماری شادی ایک بے لوث سی سرگرمی تھی اور غالباً اسی کا فیض ہے کہ آج ہم ایک خوشحال زندگی گزار رہے ہیں ۔ جولوگ بڑی توقعات اور ارمانوں کے ساتھ شادی کرتے ہیں ان کا انجام عموماً اچھا نہیں ہوتا ۔ بڑی پرانی بات ہے کہ ہمارے ایک بے تکلف دوست شہاب الدین ہوا کرتے تھے ۔ یونیورسٹی میں ہمارے ہم جماعت تھے ۔ طالب علمی کے زمانے میں ہی شہاب الدین ایک خوش شکل ہم جماعت طالبہ کے عشق میں گرفتار ہوچکے تھے اور بعد میں اس سے شادی بھی کرلی ۔ شادی کے بہت عرصہ بعد ایک دن بیگم شہاب الدین اچانک ہمیں مل گئیں ، تو ہم نے شہاب الدین کا حال پوچھا ۔ نہایت سنجیدگی اور متانت کے ساتھ بولیں ’’ایک زمانہ تھا جب شادی سے پہلے میں آدھی آدھی رات تک جاگ کر اس انتظار میں رہتی تھی کہ شہاب ہمارے گھر سے اپنے گھر کب واپس جائے گا ، اور آج میں آدھی رات تک جاگ کر اس انتظار میں رہتی ہوں کہ شہاب کب اپنے گھر واپس آئے گا‘‘ ۔

حیدرآباد میں شادیوں کے حالیہ موسم کا ذکر کرنے بیٹھے تو ہمیں پچھلی کئی باتیں یاد آگئیں ۔ حیدرآباد میں شادیاں اب بڑے طمطراق اور شان و شوکت کے ساتھ ہونے لگی ہیں ۔ براتی بھی اب ایسی سج دھج کے ساتھ آتے ہیں کہ بعض اوقات براتی اور دولہا میں فرق کرنا دشوار بن جاتا ہے ۔ ایک بات ہم نے محسوس کی کہ قاضی صاحبان بھی اب وہ نہیں رہے جو پہلے کبھی ہوا کرتے تھے ۔ کافی حد تک ماڈرن بن گئے ہیں ۔ ماڈرن بننے کا مطلب یہ نہیں کہ سوٹ بوٹ یا جینس پہن کر آنے لگے ہیں ۔ وہ ایسا لباس پہن ہی نہیں سکتے کیونکہ قاضی صاحبان کا ایک یونیفارم ہوتا ہے ۔ تاہم اب یہ اپنی بڑھتی ہوئی مصروفیات کا اندراج کمپیوٹر میں کرنے لگے ہیں ۔ حیدرآباد کے اسی حالیہ دورے میں ہم نے ایک شادی میں دیکھا کہ اول تو قاضی صاحب دیر سے تشریف لائے اور آتے ہی جلدی واپس جانے کی خواہش کا اظہار کرنے لگے اور اس اثنا میں ان کا موبائل فون بھی بجنے لگا ، ظاہر ہے کہ کسی اور شادی میں ان کا بے چینی سے انتظار ہورہا تھا ۔ آپ یقین کریں کہ وہ بمشکل تمام آدھا گھنٹہ شادی کی تقریب میں موجود رہے لیکن اس عرصے میں ان کے موبائل فون کی گھنٹی تین مرتبہ بجی ۔ اس سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ شادیوں کے حالیہ موسم میں قاضی صاحبان کتنے مصروف رہے ۔ یوں بھی بیچلروں کی فصل کاٹنے کی ذمے داری انہی پر تو عائد ہوتی ہے  بہت عرصے بعد حیدرآباد کی شادیوں میں شرکت کرکے ہمیں احساس ہوا کہ اب ضیافتوں کے لوازمات بھی تبدیل ہوگئے ہیں ۔

ایک زمانے میں شادیوں کے دسترخوان پر حیدرآبادی لقمی کو وہی حیثیت حاصل رہتی تھی جو شادیوں میں قاضی صاحبان کی ہوتی ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ ہم نے جملہ چار شادیوں میں شرکت کی اور ہمیں کہیں بھی لقمی دستیاب نہ ہوسکی ۔ اس کی جگہ اب مرگ اور رومالی روٹی نے لے لی ہے ۔ ڈبل کا میٹھا بھی پس پشت چلا گیا ہے ۔ اس خلاء کو آئس کریم اور خوبانی کے میٹھے سے پُر کیا جارہا ہے ۔ ترقی اچھی چیز ہے لیکن روایات کی پاسداری بھی تو ضروری ہے ۔ کسی نے بتایا کہ شادیوں کے موسم میں اب شادی خانوں کی قلت بھی بُری طرح محسوس کی جانے لگی ہے ۔ کئی کئی مہینے پہلے سے شادی خانوں کو بُک کرانا پڑتا ہے ۔شادی خانوں پر ہمیں یاد آیا کہ آٹھ دس برس پہلے ہمارے بزرگ دوست واسدیو پلے نے ملک پیٹ میں واقع اپنے وسیع و عریض گھر کوشادی خانے کے طور پر چلانے کا منصوبہ بنایا تھا ۔ گھر تو ان کا خاصا بڑا تھا لیکن وہاں گاڑیوں کی پارکنگ کی مناسب گنجائش نہیں تھی ۔ اس لئے کم لوگوں کے آنے کا اندیشہ تھا ۔ انھوں نے اس سلسلے میں ہم سے مشورہ کیا تو ہم نے مذاق میں یہ تجویز پیش کی کہ زمانہ چونکہ تخصیص یعنی Specialisation کا آچکا ہے اس لئے آپ اپنے شادی خانے کو مخصوص شادیوں کے لئے مختص کردیں ۔ پوچھا یہ مخصوص شادیاں کیا ہوتی ہیں۔ ہم نے کہا آپ اپنے شادی خانے کو ’عقد ثانی کا شادی خانہ‘ بنادیں ۔ اس لئے کہ بعض لوگوں کا عقد ثانی بھی تو ہوتا ہے ۔ پھر پہلی شادی اور عقد ثانی میں وہی فرق ہوتا ہے جو پہلے دن دکھائی جانے والی فلم اور مارننگ شو میں دکھائی جانے والی فلم میں ہوتا ہے ۔ عقد ثانی میں لوگ کم آتے ہیں ۔ یوں پارکنگ کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا اور آپ کا شادی خانہ خوب چل نکلے گا ۔ ہم نے تو یہ تجویز مذاق میں پیش کی تھی ، بعد میں ہمارے اسی دوست نے جب حیدرآباد سے فون پر اطلاع دی کہ وہ ہماری تجویز کو عملی جامہ پہنانے کے بارے میں سنجیدہ ہیں تو ہم نے بمشکل تمام انھیں ایسا کرنے سے روکا، ورنہ آج حیدرآباد میں عقدثانی کا بھی ایک شادی خانہ موجود ہوتا ۔ بہرحال جب شادیوں کے دعوت نامے ہمارے نام دھڑادھڑ آنے لگے تو ہم نے چار شادیوں میں شرکت کرنے کے بعد دہلی واپس چلے جانا ضروری جانا ۔ (ایک پرانی تحریر)