سید امتیاز الدین
جب کسی اہم شخصیت کی تعریف کرنی ہو تو ایک مختصر سا جملہ کہا جاتا ہے کہ ’’ان کا تو کہنا ہی کیا ہے ۔ وہ تو اسم بامسمّی ہیں‘‘ ۔ ہم کو آج تک کسی کے بارے میں ایسا جملہ کہنے کی ضرورت نہیں پڑی تھی کیونکہ اب تک کسی ایسی شخصیت سے ملے ہی نہیں تھے جسے اسم بامسمّی کہا جائے ۔ ’حیدرآباد جو کل تھا‘ کے سلسلے میں ہماری ملاقات ایک ایسے صاحب سے ہوئی جو اسم بامسمّی نکلے ۔ اس اجمال کی تفصیل یوں ہے کہ حال ہی میں ہماری ملاقات ڈاکٹر ایچ راجندر پرساد سے ہوئی جو چیف پوسٹ ماسٹر جنرل آندھرا پردیش سرکل کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں ۔ ہم نے ان کا پورا نام پوچھا تو انہوں نے نام بھی بتایا اور اس کی تفصیل بھی سنائی ۔ راجندر پرساد صاحب کے جدامجد ابتداء میں مرہٹواڑہ کے کسی علاقے سے آئے تھے اور گولکنڈہ کے قطب شاہی حکمرانوں کے دربار سے وابستہ ہوگئے تھے ۔ دوران ملازمت انھوں نے کوئی ایسا کارنامہ سر انجام دیا کہ بادشاہ نے ان کو جاگیر سے نوازا اور ساتھ ہی خطاب دیا ’ہرکارہ‘ جس کے معنی ہوتے ہیں ’خطوط رساں‘ یا ’پوسٹ مین‘ ۔ اس تاریخ سے ان کے خاندان کے ہر فرد کے نام کے ساتھ ’ہرکارہ‘ لگا ہوا ہے ۔ چنانچہ راجندر پرساد صاحب بھی ہرکارہ راجندر پرساد کہلائے جاتے ہیں ۔ قدرت کی کارفرمائی ملاحظہ ہو کہ راجندر پرساد نے اعلی تعلیم حاصل کی حکومت ہند کے مسابقتی امتحان میں منتخب ہوئے اور چیف پوسٹ ماسٹر جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے اور اس طرح ملک کے معزز ترین ہرکارے کہلائے ۔
راجندر پرساد صاحب نے ورنگل میں اردو ذریعہ تعلیم سے میٹریکولیشن کامیاب کیا ۔ کالج کے زمانے میں بھی اردو کو بحیثیت اختیاری زبان برقرار رکھا جسکا نتیجہ یہ ہے کہ اردو ان کی مادری زبان لگتی ہے ۔ ویسے تلگو ان کی مادری زبان ہے ۔ انگریزی ادب کے ایم اے ہیں اور طالب علمی کی تکمیل انھوں نے انگریزی ادب میں پی ایچ ڈی سے کی ۔ یونین پبلک سرویس کمیشن کے مسابقتی امتحان میں منتخب ہوئے اور اعلی خدمات انجام دیں ۔ آپ کی والدہ کو بھی اردو زبان و ادب سے بہت شغف تھا ۔
عثمانیہ یونیورسٹی میں اپنے تعلیمی دور کام ذکر کرتے ہوئے انھوںنے بتایا کہ اس زمانے میں ان کو نہایت قابل اساتذہ سے فیض اٹھانے کا موقع ملا تھا جن میں پروفیسر دورے سوامی ، ڈاکٹر شہانے ، پروفیسر نعیم الدین صدیقی ، پروفیسر سراج الدین اور پروفیسر بی این جوشی قابل ذکر ہیں ۔ جب راجندر پرساد ایڈمنسٹریٹو سرویس کے لئے منتخب ہوئے تو ان کی ابتدائی ٹریننگ مسوری میں ہوئی جہاں اور ساتھیوں کے علاوہ حامد انصاری صاحب بھی ان کے بیاچ میں تھے جو ان د نوں ہمارے نائب صدر جمہوریہ ہیں ۔
جب ہم نے روزنامہ سیاست کے لئے ان کا انٹرویو لینا شروع کیا تو انھوں نے ایک دلچسپ بات یہ سنائی کہ خود وہ ایک بار ٹی وی کے لئے جناب عابد علی خان صاحب مرحوم بانیٔ سیاست کا انٹرویو لے چکے ہیں ۔ ’سیاست‘ سے اپنی گہری وابستگی کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے جناب زاہد علی خاں صاحب اور مجتبیٰ حسین صاحب سے اپنے دوستانہ مراسم کا ذکر کیا ۔
راجندر پرساد صاحب سے ملئے تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بنیادی طور پر ایک انٹلکچول ہیں ۔ ان کو پڑھنے لکھنے سے فطری دلچسپی ہے ۔ انھوں نے بتایا کہ ویسے تو ان کا تعلق سنٹرل گورنمنٹ سے تھا لیکن انھوں نے ایک بار چیف منسٹر ایم چناریڈی سے درخواست کی کہ وہ ریاستی حکومت کے لئے بھی اپنی خدمات حوالے کرنا چاہتے ہیں ۔ چناریڈی صاحب نے کہا کہ ریاست کے عہدہ دار سنٹر جانا چاہتے ہیں اور آپ مرکز سے ریاست کو آنا چاہتے ہیں یہ عجیب بات ہے ۔ بہرحال ان کی خواہش کی تکمیل اس طرح ہوئی کہ راجندر پرساد کو بحیثیت کمشنر اسٹیٹ آرکائیوز مقرر کیا گیا ۔ انھوں نے بتایا کہ نیشنل آرکائیوز دہلی کے بعد اگر سارے ملک میں تاریخی مواد کا غیر معمولی ذخیرہ کہیں ہے تو ریاست حیدرآباد کا یہ محکمہ ہے ۔ یہاں پر لاکھوں کی تعداد میں مخطوطات ، سرکاری ریکارڈ اورفرامین موجود ہیں ۔ فارسی ادب ، تلگو اور انگریزی زبانوں میں نہایت بیش قیمت ریکارڈ موجود ہے جس سے عہد گزشتہ کے کئی واقعات کا علم ہوتا ہے ۔ کئی آصف جاہی فرامین موجود ہیں جن پر بے شمار اسکالرس ریسرچ کرچکے ہیں ۔ خود راجندر پرساد نے ایک اور پی ایچ ڈی کی تکمیل انہی مخطوطات کی مدد سے کی ہے ۔ ان کی ریسرچ کا موضوع تھا ’’آصف سابع میر عثمان علی خاں کا دورِ حکومت 1914 سے 1919 تک‘‘ ۔ انہوں نے بتایا کہ آصف سابع کے دور کا یہ انتہائی زرین باب تھا جس میں فرماں روائے سلطنت نے ایک لحاظ سے خود حکومت کی ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جب 1911 ء میں میر عثمان علی خاں تخت نشین ہوئے تو مہاراجہ کشن پرشاد یمین السلطنت تھے ۔ سال دیڑھ سال کے بعد سر سالار جنگ نے ان کی جگہ لی ۔ 1914 کے آس پاس انھوں نے بھی عہدے سے دستبرداری اختیار کرلی ۔ 1914 سے 1919 تک میر عثمان علی خاں خود امور سلطنت دیکھتے رہے ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب انگریزی حکومت پہلی جنگ عظیم میں الجھی ہوئی تھی اور اسے ریاست حیدرآباد کے معاملات میں زیادہ دخل اندازی کی فرصت نہیں تھی ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ خود ریاست کی مالی حالت مستحکم نہیں تھی ۔ حیدرآباد مقروض بھی تھا ۔ میر عثمان علی خاں نے ریاست کی آمدنی کے ذرائع بڑھائے ۔ کسانوں کی حالت سدھارنے کے لئے آب پاشی کی اسکیمات کی منصوبہ بندی کی ۔ عثمان ساگر ، حمایت ساگر وغیرہ کی تعمیر سے بہت فائدہ پہنچا ۔ سرویشویشوریا اور علی نواز جنگ جیسے ماہر انجینئرس کی بیش بہا خدمات سے ریاست کو بڑی مدد ملی ۔ خود عثمانیہ یونیورسٹی کا خواب انہی دنوں شرمندہ تعبیر ہوا ۔ جامعہ عثمانیہ ملک کی ایک نمائندہ اور بے مثال یونیورسٹی بن کر ملک کے تعلیمی افق پر ابھری ۔ 1908 کی طغیانی کے بعد کئی قدیم مکانات کو نقصان پہنچا تھا ۔ نئے محلے وجود میں آئے ۔ محکمہ آرائش بلدہ کے زیر اہتمام نئے مکانات کی تعمیر اور کئی نئے محلوں کی منصوبہ بندی کی گئی ۔ ریلوے لائن کو وسعت دی گئی ۔ نظامس گیارنٹیڈ ریلوے کی داغ بیل پڑی جس کے لئے مالیہ کی ضرورت تھی ۔ سرمایہ کی فراہمی کے لئے لندن میں کمپنی کے حصص بازار میں فروخت ہوئے ۔ ابتداء میں ریاست کی ریلوے حیدرآباد سے واڑی تک اور قاضی پیٹ تک تھیں ۔ پھر اورنگ آباد تک توسیع ہوئی ۔ سراکبر حیدری کے وزارت عظمی کے زمانے میں نظامس گیارنٹیڈ ریلوے ، نظامس اسٹیٹ ریلوے کے طور پر وجود میں آئی ۔ انگریزوں سے بہترین تعلقات قائم رکھنے کے لئے میر عثمان علی خاں نے جنگ کی تیاریوں میں بھی ان کی مدد کی ۔ فوجوں کے لئے غلے اور رسد سے مدد کی ۔ انگریزوں نے انھیں ہزاگزالٹیڈ ہائی نس (HEH) کے خطاب سے نوازا ۔ پورے ملک میں کسی فرماں روا کو یہ خطاب نہیں دیا گیا تھا ۔ راجندر پرساد نے نواب میر عثمان علی خان کے اس زرین دور پر ریسرچ کی اور اپنے شاندار تعلیمی ریکارڈ میں ایک اور پی ایچ ڈی کا اضافہ کیا ۔ ان کی تھیسس یعنی پی ایچ ڈی کے مقالے کا عنوان ہے Sunshine and Shadows ۔ اجالا اور سائے ۔ پتہ نہیں مجھے یہ بات لکھنی بھی چاہئے یا نہیں لیکن راجندر پرساد نے بھی بتایا کہ میر عثمان علی خان ریاست کے لئے اپنے کارہائے نمایاں انجام دے رہے تھے کہ انگریزوں نے اپنا دبدبہ قائم رکھنے کے لئے سر علی امام کو ایک لحاظ سے اپنا نمائندہ اور نگرانکار بنا کربھیجا جو تین سال تک یہاں رہے ۔
قدیم حیدرآباد کی قابل قدر شخصیتوں کا ذکر کرتے ہوئے راجندر پرساد صاحب نے نہایت احترام سے سرنظامت جنگ کا نام لیا ۔ نظامت جنگ نے انگلینڈ سے بارایٹ لا کیا تھا ۔ وہ سروجنی نائیڈو کے تقریباً ہم عمر تھے ۔ دونوں میں بہت اچھے مراسم تھے ۔ انھوں نے سروجنی نائیڈؤ کے والد رگھور ناتھ چٹوپادھیائے سے خانگی طور پر ٹیوشن بھی لیا ۔ انگلینڈ سے واپسی پر وہ منصف مجسٹریٹ مقرر ہوئے تھے اس کے بعد چیف سٹی مجسٹرین ، رجسٹرار ہائی کورٹ ، جج اور بالآخر چیف جسٹس کے اعلی ترین عہدے پر فائز ہوئے ۔ان کی انگریزی کی قابلیت اتنی اعلی پائے کی تھی کہ انگریز بھی معترف تھے ۔ اعلی حضرت میر عثمان علی خاں سے بھی وہ قریب تھے ۔ حضور نظام کو کبھی ریذیڈنٹ کو کوئی بات کہلوانی ہوتی تو وہ سرنظامت جنگ کو روانہ کرتے ۔ سرنظامت جنگ کی شاعری کی انگلستان میں بھی بہت قدر ومنزلت ہوئی ۔ ظہیر احمد صاحب کے زیر اہتمام نظامت جنگ کا شعری مجموعہ ریاست حیدرآباد کے پرنٹنگ پریس سے شائع ہوا ۔ حضور نظام کے پاس اس کتاب کے کئی نسخے تھے ۔ اعلی حضرت سے ملاقات کے لئے جب کوئی اہم شخصیت آتی تو وہ اسے نظامت جنگ کی کتاب عنایت فرماتے ۔ جب نظامت جنگ انگلستان میں تعلیم حاصل کررہے تھے تو ان کی صحت ٹھیک نہیں رہتی تھی ۔ ڈاکٹروں نے انھیں مشورہ دیا کہ وہ کسی بلند مقام پر اپنا گھر بنائیں اور وہیں سکونت اختیار کریں ۔ چنانچہ انگلستان سے واپسی پر انھوں نے نوبت پہاڑ پر اپنے لئے ہلِ فورٹ تعمیر کروایا ۔ جب وظیفے کے بعد سرنظامت جنگ حج بیت اللہ کے لئے گئے تو واپسی پر اُن کو دنیوی زندگی سے دلچسپی نہیں رہی اور وہ زیادہ تر یاد الہی میں مشغول رہنے لگے ۔ انھوں نے بل فورٹ فروخت کردینے کا ارادہ کیا تو حضور نظام نے شہزادہ معظم جاہ کے لئے اسے نظامت جنگ سے خرید لیا ۔ راجندر پرساد صاحب نے یہ بھی بتایا کہ پولیس ایکشن کے بعد جب جواہر لعل نہرو حیدرآباد آئے تھے تو انھوں نے سرنظامت جنگ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تھی ۔ انھیں بتایا گیا کہ نظامت جنگ گوشہ نشین ہوگئے ہیں اور کہیں آتے جاتے نہیں ہیں ۔ راجندر پرساد صاحب نے کہا کہ شاید پنڈت جی خود ان سے ملنے کے لئے گئے تھے ۔قدیم حیدرآباد میں انگریز ریذیڈنٹ کی بیوی نے تحریک کی تھی کہ حیدرآباد پوئٹری سوسائٹی قائم کی جائے ۔ اس Poetry Society کے پہلے صدر سرنظامت جنگ تھے ۔ یہ سوسائٹی ابھی بھی کارکرد ہے اور بیگم پیٹ کے قریب اس کی ماہانہ نشستیں ہوتی ہیں ۔ انگریزوں کے زمانے سے ہی موسم گرما کے دو مہینوں کے سوا سال میں دس ماہانہ میٹنگس ہوا کرتی تھیں ۔ اب تک اس سوسائٹی کی 758 میٹنگ ہوچکی ہیں جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ سوسائٹی تقریباً اسیّ (80) سال سے قائم ہے ۔ اس سوسائٹی کے ماہانہ جلسوں میں سامرسٹ ماہم ، ای ایم فاسٹر اور ڈاکٹر کرن سنگھ شرکت کرچکے ہیں ۔ اس کے کئی اراکین ضعیف ہوچکے ہیں ۔ راجندر پرساد صاحب بھی اس کے ممبر ہیں ۔
قدیم ریاست حیدرآباد کے ڈاک کے نظام کے بارے میں راجندر پرساد نے بتایا کہ ریاست کا اپنا محکمہ ڈاک تھا ۔ اپنے ڈاک ٹکٹ ہوتے تھے ۔ ایک ریاستی سسٹم تھا اور دوسرا برٹش سسٹم ۔ بلارم میں برٹش پوسٹ آفس تھا ۔ حیدرآباد کی اپنی کرنسی تھی ۔ حالی سکہّ کا چلن تھا ۔
حیدرآباد کے کلچر کے بارے میں انھوں نے بتایا کہ اس زمانے میں مروت اور خوش اخلاقی بہت تھی ۔ اختلاف میں بھی ایک طرح کا تحمل اور رکھ رکھاؤ ہوتا تھا ۔ انھوں نے ایک واقعہ سنایا ۔ کوئی صاحب باسط خاں تھے جن سے کسی جائیداد کے سلسلے میں راجندر پرساد صاحب کے انکل سے تنازعہ ہوگیا اور بات مقدمہ بازی تک پہنچ گئی تھی ۔ ابھی مقدمہ چل ہی رہا تھا کہ ان کے انکل کے انتقال ہوگیا ۔ اختلافات کے باوجود باسط خاں میتّ میں شریک ہوئے اور پس ماندگان کو پرسہ دیا ۔ ایسی رواداری اب کم دیکھنے میں آتی ہے ۔
ہم جب انٹرویو لینے پہنچے تھے تو دن کے تین بجے تھے ۔ جب بات چیت ختم ہوئی تو رات کے سات بجے تھے ۔اس وقفے میں راجندر پرساد صاحب نے دو مرتبہ چائے پلائی ۔ ہم نے سمجھا کہ شاید یہ سوچ کر دو مرتبہ چائے پلارہے ہوں کہ ہم اگر پہلی چائے سے نہیں گئے تو دوسری چائے کے بعد رخصت ہوجائیں گے ۔ لیکن یہ ہماری غلط فہمی تھی ۔ راجندر پرساد قدیم حیدرآبادی تہذیب کا نمونہ ہیں اور خوش اخلاقی ان کے مزاج میں داخل ہے ۔ آپ بھی ان سے ملیں گے تو خوش ہوں گے ۔