’’ حیدرآباد جو کل تھا ‘‘

سید قمر حسن
محبوب خان اصغرؔ
اہل علم جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں صحافت کا آغاز 29جنوری 1780ء میں ہوا ۔ ایک فرنگی جیمس آگسٹس نے اس کی نیو رکھی تھی ۔ اُس نے بنگال گزٹ شروع کیا تھا ۔ اس طرح صحافت کا آغاز سرزمین بنگال سے ہوتا ہے ۔ اردو صحافت کی ابتداء بھی بنگال ہی سے شروع ہوئی ۔ 1822ء میں فارسی اخبار ’’ جام جہاں نما ‘‘ پہلی بار اردو زبان میں شائع ہوا ۔ منشی سدا سکھ کو اردو صحافت کے ابوالبشر یعنی باوا آدم کہا جاسکتا ہے ۔ ملک کی تقسیم سے جہاں ناقابل تلافی نقصانات ہوئے وہیں ایک خسارہ یہ ہوا کہ اردو صحافت بھی متاثر ہوئی ۔ مفسدپردازی کے سبب متعدد اخبارات مسدود ہوگئے ۔ اہل علم و ادب ، ذہین افراد کے ساتھ کئی صحافیوں نے پاکستان کا رُخ کیا جس کے بعد اور صحافی مفقود ہوگئے ، قارئین کی قلت ہوگئی ۔ مگر کسی بھی شعبہ میں خلاء تادیر نہیں رہ سکتا ، چنانچہ ملٹری ایکشن کے بعد ’’ رہبر دکن ‘‘ ’’ رہنمائے دکن ‘‘ کی شکل میں نمودار ہوا ۔ شعیب اللہ خان ’’ امروز ‘‘ کے مدیر تھے ۔ رضاکاروں کے ہاتھوں ان کی ہلاکت کے بعد اس وقت کی فوجی حکومت نے سید انیس الرحمان کو بطور قرض ایک لاکھ روپئے دیئے تاکہ ’’ امروز ‘‘ کا احیاء ہوسکے ۔ اس زمانے میں ایک لاکھ بڑی رقم تھی ۔ انیس الرحمان بمشکل دو سال تک ’’ امروز ‘‘ کو جاری رکھ سکے ۔ اخبار ’’سیاست‘‘ اُسی وقت کی پیداوار ہے جو آفسٹ پر چھپتا تھا ۔ یہ اخبار ’’سیاست‘‘ کی خوش بختی ہے کہ اُسے دو ایسے اعلیٰ دماغ انسان میسر آئے جنہوں نے اخبار کے ارتقاء ، بقاء اور فروغ کیلئے شبانہ روز محنت کی ۔ اردو صحافت کی مصنویت کا گہرا شعور رکھنے والے ایک جناب عابد علی خان تھے اور دوسرے جناب محبوب حسین جگر تھے ۔ دونوں صحافتی زبان و بیان کے ادراک کے ساتھ زبردست تخلیقی قوت کے حامل تھے ۔ سرخیوں ، خبروں اور متن کی اہمیت و افادیت سے خوب آگہی حاصل تھی ۔ زبان کی دلکشی کو اہم گردانتے تھے ۔ الفاظ کی نشست برخواست اور جملوں کی ترتیب کا خاص خیال رکھا جاتا تھا ۔ تذکیر تانیث اور واحد جمع کی فروگذشت کو تلاش کرنا بھی وقت کا زیاں تھا ۔ صحافت سے متعلق مذکورہ باتیں ہماری دماغی پیداوار نہیں بلکہ جناب سید قمر حسن نے بتائی ہیں ۔ وہ ہماری دعوت پر روزنامہ ’’سیاست ‘‘ کے اسٹوڈیو میں تشریف لائے تھے اور ’’ حیدرآباد جو کل تھا ‘‘ کے عنوان پر ہم سے ہمکلام تھے ۔

جناب سید قمر حسن 18اپریل 1945 میں پیدا ہوئے ۔ اس وقت ان کے والد بزرگوار سید خورشید حسن فصیح جنگ گلی میں رہا کرتے تھے ۔ ابتدائی تعلیم سینٹ جارج گرامر اسکول میں ہوئی ۔ ان کی آمد و رفت کا سلسلہ اپنے بزرگوں کی نگرانی میں جاری رہا ۔ والدین تعلیم یافتہ ہونے کے سبب ان کے تعلیمی سلسلہ پر کڑی نگاہ رکھتے تھے ۔ نتیجتاً اچھے نمبرات سے کامیاب ہوتے تھے ۔ عثمانیہ آرٹس کالج سے بی کام کیا اور آگے بڑھتے ہوئے جرنلزم سے پوسٹ گریجویشن کی سند حاصل کی ۔ اس وقت وہ سن شعورکو پہنچ چکے تھے ۔ انہوں نے 1967ء کے حوالے سے بتایا کہ آج ذہنی اضطراب کے جس نازک دور سے ہمارا گذر ہورہا ہے وہ اتنا کڑا وقت نہیں تھا ، تمام فرقے کے لوگ اپنے اپنے عقائد کی پاسداری میں آزاد تھے ۔ مذہب کی بنیاد پر تفرقے نہیں تھے ۔ مسلمان ہو کہ ہندو یا کوئی اور سب کی تحریکوں میں اصلاح کی کوشش نظر آتی تھی ۔ چراغ اور رہگذر کا تصور سب کیلئے اہمیت کا حامل تھا ، اسی لئے ہر طرف روشنی اور اُجالے تھے ۔ روشن خیالی اور روشن ضمیری کی ایسی مثالیں ملنا اب مشکل ہے ۔ انہوں نے ریاست حیدرآباد کی تہذیب کے حوالے سے سلسلہ کلام جاری رکھا اور کہا کہ جب ریاست کے حکمراں آصف سابع نواب میرعثمان علی خان مسند نشین ہوئے تو ان کی عمر 27برس تھی ۔ 38 برس حکومت کی اور 1967 یعنی اکاسی برس کی عمر میں ان کا وصال ہوگیا ۔ اعلیٰ حضرت نے اپنے دور اقتدار میں وقت اور کام کو اہم جانا ۔ اُمور سلطنت کا گہرا شعور رکھتے تھے ، علمائے دین ، اعلیٰ عہدیداروں ، ادیبوں اور شاعروں کے حالات زندگی سے خوب واقفیت رکھتے تھے ۔ ریاست کے علاوہ ملک کے سیاسی حالات اور عالمی سطح پر وقوع پذیر ہونے والے واقعات سے نہ صرف باخبر رہتے تھے بلکہ بڑی عمدگی کے ساتھ ان کا تجزیہ کرتے تھے ۔ انہوں نے ہندو مسلم کو اپنی دو آنکھیں کہا تھا ۔ دونوں کی خوشحالی انہیں عزیز تھی ، دونوں کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے تھے ۔ اپنی رعایا میں اس قدر یکساں مقبولیت کسی اور لیڈر یا منسٹر کو حاصل ہونا مشکل ہے ۔ انہوں نے اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ میتھوڈسٹ اسکول عابد شاپ کے قریب وسیع و عریض جگہ تھی جہاں ایک لڑکا بکریاں چروایا کرتا تھا ، روزآنہ کئی بکریاں ذبح کی جاتی تھیں ۔ اعلیٰ حضرت کا مطبخ آباد تھا ، غرباء اور مساکین میں کھانا تقسیم کیا جاتا تھا ۔

انہوں نے پرانی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے اس بات پر اظہار تاسف کیا کہ آج سڑکوں پر کھانے کا لوگوں کو ایک ہوکا سا ہوگیا ہے ۔ ہوٹلیں بھی آباد ہیں ، قدیم ریاستی تہذیب میں سڑک پر یا ہوٹل میں کھانے پینے کو معیوب سمجھا جاتا تھا ۔ شائستہ خاندان کے افراد ہی چائے نوشی کیلئے ہوٹل کا رُخ کرتے تھے ۔ مرغ کا گوشت بازار سے خرید کر لانے کو بھی پسند نہیں کیا جاتا تھا بلکہ مرغ گھروں میں ذبح کئے جاتے تھے ۔ اپنے سے بڑوں کو نام لیکر پکارنے سے بھی احتراز کیا جاتا تھا ۔ انہوں نے موجودہ عہد کی رنگین معاشرت پر حُرف رکھا اور کہا کہ ہمارے اقتصادی اور معاشی حالات ماضی میں بھی درست تھے مگر زندگی اپنی ڈگر پر تھی ۔ مگر آج زندگی کے ہر شعبہ میں بگاڑ پیدا ہوچکا ہے ۔ خلوص ، چاہت اور وفا دیانت کی جگہ ذاتی بغض و عناد ، مکاریاں ، جعلسازیاں ہماری رگ و ریشے میں سرائیت کرچکی ہیں ۔
معزز مہمان نے دلی کے انڈین کافی ہاؤس کے حوالے سے اورینٹ ہوٹل کی یادوں کو تازہ کیا اور بتایا کہ موسیقار، شاعر ، ادیب اور دوسرے شعبوں سے وابستہ مشہور شخصیتیں اورینٹ آیا کرتی تھیں ۔ ٹی انجیا ، وٹھل راؤ ، حسن عسکری ، مغنی تبسم ، ایم ایم ہاشم ، شاذ ، مخدوم ، رحمت علی ، سالار ، اریب اور مجتبیٰ حسین وغیرہ کو انہوں نے وہیں دیکھا جہاں سورج ڈھلنے کے بعد زندگی سانس لیتی ہوئی نظر آتی تھی ۔انہوں نے ایک اور ہوٹل (Beryes) کا بھی ذکر کیا جو عابد شاپ سے نامپلی اسٹیشن جانے والی سڑک پر واقع تھی ۔ اس میں زیادہ تر طلبہ ، دادا قسم کے لوگ آیا جایا کرتے تھے ۔ اس کے برخلاف اورینٹ دانشوروں کا اڈہ تھی جہاں ادبی ، سیاسی اور سماجی موضوعات پر گفتگو کی جاتی تھی ، حتی کہ ایک دوسرے کا تمسخر بھی اڑایا جاتا تھا اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششیں کی جاتی تھیں ۔

قمر صاحب نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز ’’ ٹائمز آف انڈیا ‘‘ سے کیا ۔ مگر زیادہ عرصہ اس سے منسلک نہ رہ سکے ۔ دلی سے حیدرآباد آئے اور اے پی نیوز ایجنسی میں کام شروع کیا ۔ انڈین ہیرالڈ میں ملازمت کی ۔ ٹھاکر ہری پرشاد اس کے مالک تھے ۔ اس دوران ایرانی کونسلیٹ جو کہ حیدرآباد میں پہلا سفارتی ادارہ تھا اس کے اعلیٰ عہدیداروں سے مضبوط روابط کے سبب ایران کا ویزا حاصل کیا ۔ ایران میں نامہ نگار کی حیثیت سے کام کیا ۔ وہاں کے باشندوں کو انگریزی زبان سکھائی اور اس کے عوض میں انہوں نے ایرانیوں سے فارسی زبان سیکھی ۔ پھر لندن جانے کے اسباب پیدا ہوئے ، وہاں کچھ برس گذارے ، انگریزی صحافت میں اہم رول ادا کیا اور وہاں لندن انسٹی ٹیوٹ آف پبلیکیشن سے صحافت کی ڈگری حاصل کی ۔ مسقط اور متحدہ عرب امارات میں روزگار سے منسلک ہوئے ۔ خلیج ٹائمز اور گلف نیوز کے علاوہ دوسرے اخبارات میں اپنے جوہر دکھائے اور صحافتی خدمات انجام دیتے رہے ۔
صحافت میں شفافیت سے متعلق کئے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس مقدس پیشہ میں میل کچیل آگیا ہے ، دیانتداری نہیں رہی ، آزادی صحافت کا مقصد فوت ہوگیا ہے ۔ بے باکانہ اظہار کرنے والوں کو اپنی جان سے ہاتھ بھی دھونا پڑتا ہے ، ان کا تحفظ نہیں کیا جاتا ۔ سردست انہوں نے بے نظیر بھٹو سے لئے گئے انٹرویو کی تفصیلات بیان کیں جس کا دوران دیڑھ گھنٹہ تھا ۔ انٹرویو شائع ہوا تو صرف ایک کالم کا تھا جو شاید پانچ چھ انچ کا رہا ہوگا ۔ اخبار کو نواز شریف حکومت کا خوف تھا چنانچہ اس کا بیشتر حصہ القط کردیا گیا ۔ انہوں نے بریکنگ نیوز کوو حالات کے بگڑنے کا سبب بتلایا اور کہا کہ یہ لوگ بریکنگ نیوز کی آڑ میں ایک مخصوص طبقہ کو رسواء کررہے ہیں ، فرقوں میں دوریاں اور فاصلے پیدا کررہے ہیں ۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ صحافت آزادیٔ اظہار کا نام ہے ۔ صحافی کا سیاسی پارٹی سے وابستہ ہونا اپنی آزادی کو سلب کرنے کے مترادف ہے ۔ انہوں نے ایم جے اکبر کی مثال یپش کی جنہوں نے کانگریس پارٹی میں رہ کر بہت کام کیا پھر بی جے پی سے دوستی کرلی ۔ خشونت سنگھ کے اخبار ILLUSTRATED WEEKLY سے وابستہ رہے ۔ آخر کار انہیں بدنام ہونا پڑا ۔
انہوں نے مختلف ممالک کے دورے کئے اور اس کی روشنی میں بتایا کہ ہرملک کی تہذیبی اور معاشرتی زندگی بدل گئی ہے ۔ برطانیہ میں دانت دکھاکر ہنسنا اور بغیر ٹائی کے گھر سے نکلنے کو معیوب سمجھا جاتا تھا لیکن آج اس ملک میں لباس ، تہذیب اور معاشرتی زندگی میں بدلاؤ آگیا ہے ۔ ہمارے ملک کی تہذیب سے متعلق انہوں نے بتایا کہ ساری دنیا میں مثالی تہذیب تھی ۔ ہماری تہذیب پر بہیمنی تہذیب ، مغلیہ تہذیب اور قطب شاہی تہذیب کے اثرات گہرے ہیں ۔ ان تمام تہذیب کے سنگم سے گنگا جمنی تہذیب وجود میں آئی ہے جس کے اثرات تلنگانہ تہذیب پر بھی دکھائی دیتے ہیں ۔

قمر صاحب نے اپنی زندگی کا کچھ حصہ اسرائیل میں بھی گذارا ہے ، ہم نے اسرائیل اور فلسطین سے متعلق جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے موضوع سے غیر متعلق کہہ کر ٹالنے کی کوشش کی تاہم ہمارے اصرار پر انہوں نے بتایا کہ فلسطین پر ظلم کی انتہا ہوگئی ہے ۔ بیت المقدس پر اسرائیل قابض ہے اور متواتر اس کی بے حرمتی ہورہی ہے ۔ خواتین کے ساتھ بدتمیزی کا ایک سلسلہ ہے ۔ یروشلم میں غربت کا تناسب بڑھ گیا ہے ۔ بی بی مریم جہاں مقیم تھیں اس حصے کو نقصان پہنچایا گیا ہے ۔ ہیکل سلیمانی کی باقیات میں دیوار گریہ ہے اس کے تحفظ کیلئے ان کا احتجاج جاری ہے مگر دوسری باقیات کو ملیامیٹ کرنے کے درپے ہیں ۔
1952ء کی بابت انہوں نے بتایا کہ ان کے والد بزرگوار نے نواب مہدی نواز جنگ کے مقابل انتخابات لڑے تھے جس میں مہدی نواز جنگ کو فتح حاصل ہوئی تھی ۔ ان کے والد پی ڈی ایف ( پیپلز ڈیموکریٹک فرنٹ ) سے وابستہ تھے جبکہ مہدی نواز جنگ کانگریسی تھے ۔ غالباً ملٹری ایکشن کے بعد ریاست حیدرآباد کے یہ پہلے انتخابات تھے ۔ اس زمانے میں پی ڈی ایف سے نامور کمیونسٹ مخدوم محی الدین بھی وابستہ رہے ۔ انہوں نے قدیم تہذیب کے روشن پہلو کو اُجاگر کرتے ہوئے کہا کہ ہر آدمی ، ہر خاندان شریف ہوا کرتا تھا عسرت اور مفلسی اس زمانے میں بھی رہی لیکن مسائل اور مفلسی کے سبب لوگ ایسی صورتحال پیدا ہونے ہی نہیں دیتے تھے جو عام طور پر انحطاط اور زوال کے زمانے میں اکثر لوگوں میں پیدا ہوجاتی ہے ۔ زندگی سے فرار کے راستے تلاش نہیں کئے جاتے تھے بلکہ صبر اور تحمل کا دامن تھام لیا جاتا تھا ۔ مذہب اور اقتدار کے زیر اثر ذات خدا پر شاکر ہوجایا کرتے تھے ۔
انہوں نے موجودہ شعر و ادب کی صورتحال سے متعلق بتایا کہ کئی بڑے شعراء اور ادیبوں نے اپنی اپنی بساط سخن سمیٹ لی ہے ۔ شعرا ادب کے دیرینہ بادہ کش اٹھتے جارہے ہیں ۔ کاش ہمارے پاس آب بقائے دوام ہوتا تو ادب میں وہ سناٹا ہرگز بھی نہیں ہوتا جو ان دنوں دکھائی دے رہا ہے ۔ انہوں نے آصف جاہی سلاطین اور ان کی رعایا کو یاد کیا اور کہا کہ ریاست حیدرآباد کو ایک پُرامن خطہ بنانے میں مذہبی رواداری اور امن و چین کی برقراری میں ان کے انہاک اور ان کی دلچسپی کا بڑا دخل رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس نازک دور میں ایکد وسرے کے جذبات ، احساسات اور مفادات کا پاس و لحاظ کرنا ازحد ضروری ہے تاکہ حیدرآباد کی بھائی چارگی اور خلوص بھری تہذیب باقی رہے ۔