عابد صدیقی
حیدرآبادی تہذیب کے زیر اثر جن شخصیتوں نے اپنی اعلی صلاحیتوں اور نمایاںکارناموں کے ذریعہ شہرت و مقبولیت حاصل کی ان میں کیپٹن ایل پانڈو رنگاریڈی بھی نمایاں حیثیت رکھتے ہیں ، وہ تعلقہ جنگاؤں ، ضلع ورنگل کے بنروملا گاؤں میں 18 اپریل 1943 ء کو پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم جنگاؤں میں ہوئی ، عثمانیہ یونیورسٹی سے گریجویشن کی تکمیل کی اور پھر اسی یونیورسٹی سے تاریخ میں ایم اے کیا ۔ گریجویشن کے بعد فوج میں شامل ہوگئے ۔ ان کے دادا لکشماریڈی بھی فوج میں تھے اور والد کی خواہش تھی کہ پانڈو رنگاریڈی بھی فوج میں شامل ہو کر مادر وطن کی خدمت کریں ۔ فوج میں ترقی کرتے ہوئے کیپٹن کے عہدے پر فائز ہوئے ۔
انھیں 1965 اور 1971 میں ہند پاک جنگ میں اپنی شجاعت و بہادری کے جوہر دکھانے کا موقع ملا ۔ 1969 ء کے تلنگانہ ایجی ٹیشن کے وقت وہ فوج میں گورکھا رائفلس کی قیادت کررہے تھے ۔ اسی زمانہ میں پانڈو رنگاریڈی علحدہ تلنگانہ ریاست کے زبردست حامی بن گئے ۔ ایم اے ہسٹری میں ان کی امتیازی کامیابی پر انھیں گولڈ میڈل عطا کیا گیا اور پھر وہ انملائی یونیورسٹی سے ایم فل کی ڈگری فرسٹ کلاس کے ساتھ حاصل کی ۔ وہ نظام حیدرآباد کی حکمرانی سے اس قدر متاثر رہے کہ انہوں نے اپنا مقالہ بھی پولیس ایکشن کے پس پردہ محرکات اور ریاست حیدرآباد پر تحریر کیا ، چنانچہ انہوں نے ان حالات سے متاثر ہو کر ریاستوںکی تنظیم جدید آندھرا پردیش کے تناظر میں پی ایچ ڈی کے لئے مقالہ لکھا ۔ شعبہ تاریخ عثمانیہ یونیوسٹی نے انھیں پی ایچ ڈی کی ڈگری دینے کی سفارش بھی کی اور یونیورسٹی کے 79 ویں جلسہ تقسیم اسناد میں انھیں پی ایچ ڈی ڈگری لینے کے لئے نام کا اعلان کیا گیا ۔ لیکن پانڈو رنگاریڈی نے علحدہ تلنگانہ ریاست کی عدم تکمیل پر بطور احتجاج ڈگری لینے سے انکار کردیا وہ شہ نشین تک آئے اور انہوں نے کانوکیشن کے پُرہجوم جلسہ میں جئے تلنگانہ کا نعرہ لگاتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ وہ تب تک پی ایچ ڈی کی ڈگری قبول نہ کریں گے جب تک کہ علحدہ تلنگانہ ریاست تشکیل نہ پائے ۔ انہوںنے عثمانیہ یونیورسٹی کے لوگو پر قرآنی آیت کے حذف کرنے پر بھی شدید احتجاج کیا تھا اور اس طرز عمل کو نظام حیدرآباد کے خلاف غداری سے تعبیر کیا ۔
ان کی ایک اور کتاب ’’The Rape of Hyderabad‘‘ اشاعت کے مرحلہ میں ہے ۔ حیدرآباد کے تاریخی پس منظر کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ریاست حیدرآباد کے جملہ 16 اضلاع تھے جن میں تلنگانہ کے 8 ، مرہٹواڑہ کے 5 اور کرناٹک کے 3 ضلع شامل تھے ۔ ریاست حیدرآباد کو ملک کی 16 ریاستوں میں اولین اہمیت حاصل رہی ۔ یہ ریاست میر عثمان علی خان آصف سابع کے دور میں ایک مستحکم اور کامیاب ریاست رہی ، یہ ایک خودمختار سلطنت تھی ،آصف سابع نے اگست 1947 میں یہ اعلان کیا تھا کہ جس طرح ہندوستان و پاکستان آزاد و خود مختار مملکتیں ہیں اسی طرح حیدرآباد بھی ایک آزاد و خود مختار مملکت رہے جو کسی بھی ڈومنین میں شرکت نہیں کرے گا ۔ اس اعلان آزادی کے بعد حکومت ہند کی جانب سے سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا سلسلہ شروع ہوا کیونکہ حکومت چاہتی تھی کہ ریاست حیدرآباد کو انڈین یونین میں شامل کرلیا جائے ۔ حالانکہ اس وقت تک نظام نے حکومت ہند سے یہ معاہدہ کرلیا تھاکہ خارجی امور ، دفاع اور مواصلات حکومت ہند کے تحت رہیں گے اور ریاست حیدرآباد کی خودمختاری کو بھی برقرار رکھا جائے گا ۔ پانڈو رنگاریڈی نے بتایا کہ اسی زمانے میں حکومت ہند نے کے۔ایم۔ منشی کو ایجنٹ جنرل مقرر کیا ۔ انہوں نے اس الزام کو غلط ٹھہرایا کہ پولیس ایکشن کے ذمہ دار رضاکار ہیں جن کی قیادت جناب قاسم رضوی کررہے تھے بلکہ تاریخ گواہ ہے کہ پولیس ایکشن کے اصل ذمہ دار ہندوستانی فوج ، آندھرا کے کمیونسٹ ،آصف سابع کے بعض غدار ملازمین اور فرقہ پرست ہندو تھے جو حکومت ہند کی ایماء پر پروپگنڈہ کررہے تھے کہ ریاست حیدرآباد میں ہندوؤں کو بنیادی حقوق حاصل نہیں ہیں ۔ انہوں نے یہ مشہور کردیا تھا کہ مجلس اتحاد المسلمین ایک عسکری تنظیم ہے ۔
پانڈو رنگاریڈی نے واضح طور پر کہا کہ تاریخی حقائق اس بات کا ثبوت ہیں کہ حیدرآباد ریاست پر پولیس ایکشن نہیں بلکہ فوجی ایکشن کیا گیا ۔ بے شمار ہندوؤں کو رضاکاروں اور عرب چاؤشوں کے بھیس میں مختلف دیہاتوں کو روانہ کیا گیا اور ہندوؤں پر ظلم و زیادتی کی گئی ، ہندوستانی فوج کی جانب سے سرحدی دہشت گردی کا سلسلہ دراز ہوتا رہا۔ اس وقت حکومت ہند کے وزیر داخلہ سردار پٹیل تھے جنہوں نے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ طاقت کے بل بوتے پر آزاد مملکت کی شناخت کو ختم کردیں گے ۔ حکومت ہند کی ایماء پر پولیس اور فوج رضاکاروں کے بھیس میں زیادتیاں کرتی رہیں ، اسٹیٹ کانگریس ، ہندو مہاسبھا ، آریہ سماج ، کمیونسٹ کے علاوہ کانگریس میں موجود فرقہ پرست ذہنیت کے حامل افراد نے بھی رضاکاروں کی وردیاں پہن کر نظام حکومت کے خلاف عوام میں غم و غصہ کی لہر پیدا کردی ۔ انہوں نے حیدرآباد کے ایم رستم جی ڈائرکٹر جنرل پولیس مہاراشٹرا کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کتاب میں رستم جی نے پولیس ایکشن کے موقع پر فوج اور پولیس کے گھناؤنے رول کا انکشاف کیا ہے ۔ رستم جی آج بھی موجود ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ خود نظام حکومت میں ایسے عہدیدار شامل تھے جنہوں نے انڈین یونین سے ساز باز کرکے نظام سے غداری کی تھی ۔ جن میں قابل ذکر نظام کے لیفیننٹ جنرل العیدروس ہیں جنھوں نے ہندوستانی حکومت کے مخبر کی حیثیت سے ہمارے خفیہ رازوں سے واقف کروایا ۔ انہوں نے کہا کہ فوج کی دہشت گرد کارروائیوں کے سامنے حیدرآباد کی پولیس خاموش تماشائی بنی رہی ۔ انہوں نے بتایا کہ پولیس ایکشن 12 ستمبر 1948 ء کو شروع ہوا۔ حیدرآباد نے اس مسئلہ کو سیکورٹی کونسل سے رجوع کیا اور سیکورٹی کونسل کی ایک میٹنگ 17 ستمبر کو منعقد کی گئی لیکن اس سے قبل ہی نظام کو یہ اعلان کرنے پر مجبور کردیا گیا کہ وہ اپنی ریاست کو انڈین یونین میں شامل کرنے کے لئے تیار ہیں چنانچہ اُنھیں دکن ریڈیو سے اپنی 224 سالہ سلطنت آصفیہ کے خاتمہ کا اعلان کرنا پڑا ۔
پانڈو رنگاریڈی نے بتایا کہ حیدرآباد سلاطین آصفیہ کے دور میں ہندوستان کی ملی جلی تہذیب کا ایک واحد مرکز تھا ، ہندو و مسلمانوں میں رواداری ، باہمی میل میلاپ ، کا ایک ایسا ماحول پیدا ہوا تھا کہ جس سے صلح کل پالیسی کا تصور حقیقت بن کر ابھر آیا ۔ انہوں نے بتایا کہ آصف سابع میر عثمان علی خان نے ہندو مسلمانوں کو اپنی دو آنکھوں سے موسوم کرتے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو طبقہ کے مفادات اور ان کے تحفظات کی نگہبانی کا فرض ادا کیا ۔ عثمان علی خان نے حیدرآباد کی گنگا جمنی تہذیب کو پروان چڑھانے اور اسے مستحکم بنانے میں تاریخ ساز رول ادا کیا ہے ۔ اس سے قبل نظام ششم نواب میر محبوب علی خان کی مذہبی رواداری بے مثال تھی ، انہوں نے اپنا وزیراعظم کشن پرشاد کو مقرر کیا چنانچہ ایک مرتبہ کشن پرشاد محبوب علی خان کے سامنے آئے اور ان سے کہا کہ وہ اسلام قبول کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے اعلی حضرت سے اجازت کے طلبگار ہیں ۔ محبوب علی خان نے ان سے کہا کہ ان کے اسلام قبول کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے
لیکن وہ اپنی ریاست کا وزیراعظم ہندو کو ہی بنانا پسند کریں گے ۔ اور کشن پرشاد نے اپنے موقف کو تبدیل کرلیا ۔ اس واقعہ سے سلطنت آصفیہ کے سیکولرازم پر ایقان کا اندازہ ہوتا ہے ۔ انھوں نے ایک اور واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ مکہ مسجد میں ایک ہندو خاتون اپنی لڑکی کے ہمراہ آئیں چوکیدار کے روکنے پر اس نے بتایا کہ اس کی لڑکی کو سانپ نے کاٹ لیا تھا اور جب انہوں نے محبوب علی خان کا نام لیا تو سانپ کا زہر جاتا رہا اور اسی مسرت میں وہ بادشاہ سلامت کے حضور میں مٹھائی لے کر آئی ہے ۔ محبوب علی خان نے حکومت حیدرآباد کے اخراجات پر سروجنی نائیڈو کو اعلی تعلیم کے حصول کے لئے لندن روانہ کیا تھا ، عثمان علی خان کے دور میں مجاہد آزادی گوکھلے سے منسوب اسکالر شپ کا قیام عمل میں آیا جس سے کئی ہندو نوجوانوں نے استفادہ کیا ۔ حیدرآباد میں ہائی کورٹ کی تعمیر کے وقت احاطہ میں ایک مندر واقع تھا لوگ سمجھ رہے تھے کہ شاید اس مندر کو وہاں سے ہٹادیا جائے گا لیکن آصف سابع نے اس مندر کی مزید توسیع کرکے اسے احاطہ میں ہی رہنے دیا ۔ اس سلسلہ میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ حیدرآباد ہائیکورٹ کے پہلے چیف جسٹس تیج بہادر سپرو بنائے گئے ۔ یہ اقدام آصف سابع کی مذہبی رواداری کا ایک بڑا ثبوت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ نظام حیدرآباد اپنی والدہ ماجدہ کا بڑا احترام کیا کرتے تھے چنانچہ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے نمبر پلیٹ پر جو ’’Z‘‘ کندہ ہے وہ ان کی والدہ زہرہ بانو کے پہلے حرف ’’Z‘‘ سے لکھا جاتا ہے وہ قومی یکجہتی کے علمبردار تھے ۔ انہوں نے اپنی دولت فلاحی کاموں کے لئے وقف کردی تھی ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام کے وقت جب سرسید احمد خان نے چندے کی اپیل کی تو نظام حیدرآباد نے 5 لاکھ روپئے کا گرانقدر عطیہ دیا اور دوسری طرف بنارس یونیورسٹی کے قیام کے لئے انہوں نے 10 لاکھ روپئے کے عطیے سے نوازا جس پر بعض امراء نے اعتراض کیا کہ مسلم یونیورسٹی کے لئے تو 5 لاکھ روپئے دیئے گئے اور ہندو یونیورسٹی کے لئے تو نظام نے 10 لاکھ روپئے عطا کئے جس پر نظام نے کہا کہ مسلم آبادی کے مقابلے میں ہندو آبادی زیادہ ہے اسلئے انہوں نے عطیہ کی رقم کو دوگنا کردیا ہے ۔
نظام کی حب الوطنی کا ذکر کرتے ہوئے پانڈو رنگاریڈی نے کہا کہ جب 1962 میں چین نے ہندوستان پر حملہ کیا تو اس وقت نظام حیدرآباد نے 5 ٹن سونا حکومت ہند کو دیا حالانکہ ان کی حیثیت صرف راج پرمکھ کی تھی ۔ نظام نے تمام طبقات سے محبت کی ۔ مہاراشٹرا میں انہوں نے 54 ایکڑ اراضی بی آر امبیڈکر ایجوکیشن سوسائٹی کو دے دی اور اس کے تحت بے شمار کالجس اورنگ آباد میں قائم ہیں ۔ جناب پانڈو رنگاریڈی نے کہا کہ کچھ مفاد پرست لوگ بریانی و شیروانی کو حیدرآباد کی شناخت سمجھتے ہیں حالانکہ حیدرآباد کی شناخت یہاں کی تہذیب ، طرز زندگی اور حیدرآبادی عوام کے کردار سے ہے ۔ انہوں نے حیدرآبادی تہذیب کے پروان چڑھنے میں آندھرائی تہذیب کو سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا ۔ آندھرا کے لوگوں نے تو حیدرآبادی شرافت کا خوب استحصال کیا ، حیدرآبادی عوام کی شرافت اور اعلی کردار کو کمزوری سمجھ کر آندھرا کے لوگوں نے ان کی اراضیات و جائیدادوں پر غیر مجاز قبضے کئے ۔ حیدرآباد پر اڈلی و دوسہ کے کلچر کو مسلط کیا گیا اور وہ تمام انسانی اقدار ختم ہوگئے جو ایک تہذیب کی بقاء کے لئے ناگزیر سمجھے جاتے ہیں ۔ انہوں نے حیدرآباد کی مہمان نوازی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ حیدرآباد کے گھرانوں میں مہمان کی اتنی ضیافت کی جاتی کہ اسے اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا ۔ انہوں نے جذباتی انداز میں کہا کہ اب حیدرآبادی گھرانوں میں پاندان ، اگالدان اور بڑے بڑے دالانوں میں کچا فرش نہیں دکھائی دیتا جس کے لئے آندھرا کے بدتہذیب لوگ ذمہ دار ہیں اور ساتھ ساتھ خود حیدرآبادیوں کو بھی اس کا ذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے ۔ بزرگوں کا ادب اب قصہ پارینہ بن گیا ہے ۔ پولیس ایکشن کے بعد مسلمانوں کی معیشت تباہ کردی گئی تھی اور پھر آندھرا پردیش کی تشکیل کے بعد بھی مسلمانوں کی معیشت میں کوئی بہتری پیدا نہ ہوسکی ۔ مسلم نوجوانوں کے لئے ملازمت کے دروازے بند کردیئے گئے ، کئی مسلمانوں کو غربت و نکبت سے دوچار کردیا گیا لیکن رفتہ رفتہ مسلم نوجوانوں نے خلیجی ملکوں کی راہ لی اور ان کے لئے روزگار کے امکانات پیدا ہوئے ۔
پانڈو رنگاریڈی نے نظام حیدرآباد کے کارناموں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کسی فرمان روا نے عوام سے اس قدر محبت نہیں کی جتنی کہ نظام نے کی ۔ ہندوؤں کے ساتھ ساتھ سکھوں ، عیسائیوں اور پارسیوں پر بھی ان کے احسانات رہے ہیں ۔ انھوں نے کوئی بھید بھاؤ نہیں کیا ۔ عثمانیہ یونیورسٹی کے قیام کے ذریعہ انھوں نے اتحاد و یکجہتی کی مثال قائم کی ۔ عثمانیہ ہسپتال ، نظامس انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس اور بے شمار ادارے ان کے رہین منت ہیں ۔ ان کی ’صلح کل‘ پالیسی نے انھیں تمام طبقات میں مقبول بنایا ۔ آخر میں انھوں نے کہا کہ حیدرآبادی عوام نے نظام حیدرآباد عثمان علی خان کی ان روایتوں کو فراموش کردیا اور اس کا خمیازہ بھی انھیں بھگتنا پڑا ۔ انھوں نے آندھرا کلچر کو حیدرآباد اور تلنگانہ کے عوام کی ترقی میں سب سے بڑی روکاٹ قرار دیا ۔ اس کلچر نے نہ صرف ہماری تہذیبی روایات کو مجروح کیا بلکہ ہمارے اتحاد ، رواداری اور اعلی اقدار کو بھی ٹھیس پہنچائی ۔ انھیں یقین ہے کہ اب علحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے بعد حیدرآباد کے وہ تہذیبی نقوش جو مدھم پڑگئے تھے وہ پھر ایک بار ابھریں گے اور ہمارے تہذیبی ورثہ کی تجدید ہوگی ۔ اسی لئے وہ علحدہ تلنگانہ ریاست کے اٹوٹ حامی رہے ہیں ۔