عابد صدیقی
پروفیسر ایم وی نائیڈو ایک ممتاز عثمانین ، دانشور اور سماجی جہدکار ہیں۔ حیدرآبادی تہذیب کے علمبردار اور اردو زبان ادب کے پرستار ہیں ۔ 1965 سے امریکہ اور کینیڈا میں مقیم ہیں ۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی ، دہلی ، امریکہ کی منی سوٹا یونیورسٹی ، کینڈا کی یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا کے علاوہ دیگر یونیورسٹیوں میں تدریس کا 25 سالہ تجربہ رکھتے ہیں ۔ 30 سے زائد ملکوں میں انھوں نے سیاسیات ، قانون اور عصری عالمی مسائل پر اپنے تحقیقی و تنقیدی مقالات پیش کئے ۔ مہاتما گاندھی کے نظریات اور ان کے فلسفہ حیات پر بھی انہوں نے تحقیقی کام کیا ۔ ان کی کئی کتابیں شائع ہوچکی ہیں جن کی ہندوستان ، یوروپ ، امریکہ اور کینیڈا میں کافی پذیرائی ہوئی ۔ حیات کے اس طویل سفر کو طے کرنے کے بعد بھی پروفیسر نائیڈو کے چہرے اور گفتگو میں تھکن کے آثار دکھائی نہیںدیتے ۔ انھوں نے کہا کہ حیدرآباد ان کے لئے ہرمقام پر سرچشمہ وجدان بنارہا ۔ سورج مشرق سے ابھرتا ہے اور اسکی روشنی ساری کائنات میں پھیل جاتی ہے لیکن اس کا اصل مبدا تو مشرق ہی ہے ۔ اس طرح وہ جہاں بھی گئے انھوں نے خود کو ہندوستانی اور حیدرآبادی کی حیثیت سے پیش کیا ۔ انھیں اپنے حیدرآبادی ہونے پر ہمیشہ فخڑرہا ۔
گزشتہ ماہ پروفیسر ایم وی نائیڈو اپنی اہلیہ پریما نائیڈو کے ہمراہ کینیڈا سے حیدرآباد تشریف لائے ۔ اپنے قیام کے دوران وہ دفتر سیاست بھی آئے ۔ جناب ظہیر الدین علی خان منیجنگ ایڈیٹر سیاست اور پدم شری مجتبیٰ حسین سے انھوں نے ملاقات کی ۔ اس موقع پر مجھے بھی ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ۔ ملاقات کے دوران کافی دیر تک حیدرآباد کی باتیں ، ماضی کے واقعات اس دور کی شخصیتوں کا تذکرہ رہا ۔ پروفیسر نائیڈو نے اردو کے خوبصورت اشعار بھی سنائے ۔ اسی وقت مجتبیٰ حسین صاحب نے مجھے مشورہ دیا کہ ’’حیدرآباد جو کل تھا‘‘ کے تحت میں پروفیسر نائیڈو سے انٹرویو لوں ۔ میں نے پروفیسر نائیڈو سے سیاست کے اس مقبول کالم کے مقصد اور اس کی مقبولیت کا ذکر کرتے ہوئے ان سے خواہش ظاہر کی جس پر وہ راضی ہوگئے اور پھر کچھ دن بعد انٹرویو طے کرلیا گیا ۔ پروفیسر ایم وی نائیڈو اور ان کی اہلیہ ٹھیٹ حیدرآبادی ہیں ۔ نہایت شستہ اردو میں گفتگو کرتے ہیں تاہم ان کی آواز کم اور لہجہ مدھم سا ہوگیا ہے لیکن انداز تکلم حیدرآبادی ہے ۔ یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ چالیس برس اس شہر سے دور رہے ہیں ۔
پروفیسر نائیڈو 1929 میں پیدا ہوئے۔ انکا آبائی مکان معظم جاہی مارکٹ کے قریب واقع تھا ۔ ان دنوں ان کے پڑوسیوں میں سابق چیف منسٹر بی رام کرشنا راؤ ، ماڈاپتی ہنمنت راؤ اور چند ایک مسلم خاندان تھے ۔ ان کی ابتدائی تعلیم چادر گھاٹ ہائی اسکول میں ہوئی ۔ انھوں نے نظام کالج سے بی اے اور پھر عثمانیہ یونیورسٹی سے ایم اے (پولیٹکل سائنس) میں کیا ۔ اس دور کے اساتذہ میں پی کے گھوش اور فضل الرحمن وائس پرنسپل تھے اس کے علاوہ پی وی راجگوپال ، آغا حیدر حسن جیسے نامور اساتذہ تھے ۔ آغا حیدر حسن اردو پڑھاتے تھے ۔ بڑے شگفتہ مزاج اور پرمزاح شخص تھے ان کی وضع قطع اور لباس بڑا خاص ہوتا ۔ پروفیسر صاحب کے ساتھیوں میں پروفیسر علی محمد خسرو سابق وائس چانسلر علی گڑھ یونیورسٹی ، پروفیسر رشید الدین ، عابد حسین ، سی این رامن ، آصف حسین اور کئی باصلاحیت ساتھی تھے جو بعد میں ملک گیر شہرت کے حامل ہوئے ۔ نظام کالج کا مدراس یونیورسٹی سے الحاق تھا ۔ تعلیم کے علاوہ زائد از نصاب سرگرمیوں کے لئے بھی کافی مشہور رہا ۔ کالج سے انگریزی میں ایک رسالہ ٹارچ شائع ہوتا تھا ۔ پروفیسر نائیڈو اسکے ایڈیٹر رہے ۔ نظام کالج میں ان دنوں حیدرآباد کے متمول اور اعلی گھرانے سے تعلق رکھنے والے طلباء زیر تعلیم تھے ۔ اکثر طلبا نہایت عمدہ لباس پہن کر کالج آتے صرف وہ اور عابد حسین کھادی کے کپڑے پہن کر سائیکل پر کالج آتے تھے ۔ انھوں نے عابد حسین کی اعلی صلاحیتوں کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ وہ بڑے اچھے مقرر اور نہایت ذہین تھے انھوں نے پاکستان کے قیام کے سلسہ میں بڑی عمدہ بات کہی تھی کہ محمد علی جناح پاکستان کی تشکیل کے ذریعہ تاریخ بنانا چاہتے تھے لیکن وہ صرف جغرافیہ تبدیل کرسکے ۔ انھوں نے بتایا کہ نظام کالج کے پہلے ہندوستانی پرنسپل ڈاکٹر چٹوپادھیائے تھے جو نہایت پابند ڈسپلن اور ماہر ایڈمنسٹریٹر رہے ۔ نظام کالج میں ان دنوں تقریری مقابلے مذاکرے اور علمی مباحثے ہوتے ۔ شعری محفلیں ہوتیں ، بعض طلباء بیت بازی میں حصہ لیتے ۔ پروفیسر نائیڈو کے والد محکمہ پولیس میں امین تھے اور ان کی والدہ کی خواہش تھی کہ ایم وی نائیڈو سیول سرویس سے وابستہ ہوجائیں ۔ لیکن انھیں سیول سرویس سے دلچسپی نہیںتھی ۔
پروفیسر ایم وی نائیڈو جنہوں نے عثمانیہ یونیورسٹی سے ایل ایل بی و ایل ایل ایم کی ڈگری حاصل کی بتایا کہ جن دنوں وہ لاء کالج میں پڑھا کرتے تھے ان کے پرنسپل ممتاز دانشور و ماہر تعلیم پروفیسر وحید اللہ خان تھے وہ نہایت ہی قابل اور شریف النفس شخصیت کے حامل تھے ۔ ان کا مضمون ’’مسلم لاء‘‘ تھا اس لئے وحید اللہ خان انھیں بعض علمائے کرام اور مفتیاں سے انھیں متعارف کرواتے تھے چنانچہ ایک بار حیدرآباد کے ایک مفتی و عالم دین سے ایم وی نائیڈو کی ملاقات کروائی گئی ۔ عالم دین نے رمضان کے روزے کی روحانی اہمیت کا ذکر کیا جس پر پروفیسر نائیڈو نے کہا کہ پیغمبر اسلام حضرت محمدؐ ایک عظیم پیغمبر ہونے کے ساتھ ساتھ ماہر معاشیات بھی تھے چنانچہ روزہ نہ صرف انسان کے نفس کی تربیت کرتا ہے بلکہ اس کے ذریعہ بھوکوں و ناقہ کشوں کی مجبوریوں کا احساس بھی پیدا ہوتا ہے ، پیغمبر اسلام نے رمضان میں زکوۃ کی اہمیت واضح کی وہ بھی معاشیات کا ایک روشن پہلو ہے کہ ہم اللہ کی عبادت کے ساتھ ساتھ مخلوق کی ضرورتوں کی تکمیل کریں۔ پروفیسر نائیڈو نے کہا کہ ریگستانی علاقوں میں بسنے والے مسلمانوں کی دشواریوں اور پانی کے میسر نہ ہونے پر اسلام نے تیمم کا مشورہ دیا ہے ۔ اس سے بھی انسانی ہمدردی کے وسیع تصور کا احساس ہوتا ہے جس پر عالم دین نے ان کی خوب ستائش کی۔ انہوں نے حیدرآباد کو قومی یکجہتی ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا ایک بڑا مرکز قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس شہر میں لوگ شیر وشکر کی طرح زندگی گذارتے رہے ہیں خود ان کے خاندان کے مسلمانوں سے گہرے مراسم رہے ہیں ۔ ان کی والدہ کے پوجا کے کمرہ میں مکہ و مدینہ کی تصاویر بھی موجود رہتی تھیں ۔ اولیاء اللہ کی بارگاہوں میں حاضری دینا ان کا معمول تھا ۔ پروفیسر ایم وی نائیڈو نے حیدرآباد کی ملی جلی تہذیب کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ حیدرآباد کا محرم دنیا بھر میں مشہور رہا اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ محرم کے تعزیئے اکثر ہندو اٹھایا کرتے تھے ۔ مسلمانوں کی کوئی بھی تقریب ہو اس میں غیر مسلم اصحاب وخواتین کی بڑی تعداد شریک رہتی ۔ انھوں نے حیدرآباد کی بعض اہم شخصیتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ بیرسٹر سردار علی خان ، عالم خوندمیری ، فیض النساء (بیرسٹر اکبر علی خان کی دختر) اور پروفیسر حسن عسکری کے ساتھ ان کے دوستانہ تعلقات رہے ۔ محترمہ فیض النساء ان کی ہم جماعت تھیں جن کے والد بیرسٹر اکبر علی خان گورنر اڑیسہ نے انھیں بھونیشور میں پناہ دی تھی ۔ بیرسٹر اکبر علی خان نہایت قابل ترین ،وضعدار اور سیکولر مزاج کی حامل شخصیت تھے ۔ ان کے کئی مسلم دوستوں سے انہوں نے بہت ساری باتیں سیکھیں خاص طور پر اردو شاعری سے ان کی دلچسپی کا سہرا مسلم دوستوں کے سر جاتا ہے ۔ انہوں نے حیدرآباد میں اپنے قیام کے دوران کچھ عرصہ تک میونسپل آفس میں پی آر او کی حیثیت سے ملازمت بھی کی اور سکندرآباد پر ایک کتاب بھی لکھی ۔ جس میں انہوں نے سکندر جاہ کی عوامی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا ۔ پروفیسر نائیڈو نے بتایا کہ ان کی اہلیہ پریما نائیڈو ایک بہترین رفیق کار ہے جو ان کی علمی سرگرمیوں میں ان کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتی رہتی ہیں ۔ ایم وی نائیڈو کی کامیابیوں کے پس پردہ پریما کا پریم اور ان کی خدمت ہے ۔ ان کی اب تک 15 کتابیں شائع ہو کر منظر عام پر آئی ہیں جن کی یوروپی ممالک کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں بھی کافی پذیرائی ہوئی ۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی صرف ایک ہی لڑکی ہے جو سکھ سے بیاہی گئی ہے ۔ انہوں نے ازراہ مذاق کہا کہ انہوں نے اپنے سردار داماد سے سمجھوتہ کیا ہے کہ وہ انھیں مدراسی کہنا چھوڑدے تو وہ انھیں سردارجی کے جوک سنانا چھوڑدیں گے ۔
انہوں نے بتایا کہ نظام کالج میں ان دنوں سروجنی نائیڈو کی بڑی شہرت تھی ۔ سروجنی نائیڈو سے ان کی رشتہ داری تھی اس زمانہ میں سروجنی نائیڈو اپنی شاعرانہ صلاحیتوں اور مجاہدانہ سرگرمیوں کے باعث حیدرآباد میں کافی شہرت رکھتی تھیں ۔ ان کی قیامگاہ گولڈن تھرشولڈ پر ملک کی کئی نامور شخصیتوں کا آنا جانا رہتا ۔ ان کی تین لڑکیاں پدماجا نائیڈؤ کانگریس کے دور میں گورنر رہ چکی تھیں اور نہرو خاندان سے ان کے گہرے مراسم رہے ، ان کی دوسری صاحبزادی لیلا نائیڈو تھیں اس کے علاوہ ایک اور دختر مینا نائیڈو فارسی کی اسکالر تھیں ۔ انہوں نے بتایا کہ سروجنی نائیڈو کا خاندان حیدرآبادی تہذیب کا نمونہ تھا ۔
ایم وی نائیڈو نے کہاکہ اُن دنوں عثمانیہ یونیورسٹی میں اسٹوڈنٹس یونین نہایت فعال اور متحرک تھی ، وہ خود یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے صدر منتخب ہوئے تھے ۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر علی یاور جنگ تھے جو انتہائی قابل ترین شخصیت کی حیثیت سے ملک بھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ۔ وہ طلباء میں کافی مقبول بھی رہے ۔ نواب خاندان کے ہونے کے باوجود وہ عصر حاضر کے تقاضوں کو محسوس کرتے ، اسٹوڈنٹس یونین کی جانب سے احتجاجی پروگرام ہوا کرتے تھے لیکن پرتشدد احتجاج سے گریز کیا جاتا ، اسٹوڈنٹس یونین نظام حیدرآباد کے خلاف رامانند تیرتھ کی زیر قیادت جاری تحریک میں شامل ہوگئی جس میں ان کے کئی ساتھیوں اور ان کی دو بہنوں کو بھی ستیہ گرہ کرنے کے الزام میں زیر حراست لے لیا گیا ۔ نظام حکومت کے خلاف جد وجہد کے دوران طلباء کا ایک وفد سابق وزیراعظم جواہر لال نہرو سے ملاقات کے لئے دہلی گیا جس میں بیرسٹر سردار علی خان بھی شامل تھے ،جہاں ہم نے نہرو کے سامنے اپنے موقف کا اظہار کیا ۔ اس وقت انہوں نے محسوس کیا کہ جواہر لعل نہرو کے دل میں نظام حیدرآباد کے لئے نرم گوشہ تھا جبکہ سردار پٹیل آزاد ریاست حیدرآباد کے سخت ترین مخالف تھے ، ایم وی نائیڈو نے بتایا کہ سوائے حیدرآباد و کشمیر کے ملک کی تمام 600 ریاستیں ہندوستان میں انضمام کی حامی تھیں ، حیدرآباد ریاست کے موقف کے بارے میں تین نقطہ نظر پیش کئے گئے تھے جن میں ایک پاکستان میں انضمام ، دوسرا آزاد ریاست حیدرآباد اور تیسرا ہندوستان میں شامل ہونے کا حامی تھا ۔ نظام حیدرآباد خود آزاد مملکت چاہتے تھے ، حیدرآباد کے مسئلے پر ممبئی میں کنونشن منعقد کیا گیا جس میں جواہر لعل نہرو ، جئے پرکاش نارائن ، رابندر ناتھ ٹیگور اور حیدرآباد اسٹوڈنٹس یونین کے قائدین نے بھی شرکت کی ۔ حیدرآباد واپس ہونے کے بعد اسٹوڈنٹس یونین کے کئی قائدین کو گرفتار کرلیا گیا اور ایم وی نائیڈو کو کئی مہینوں تک روپوش ہونا پڑا ، اس وقت ان کے دوست اور نامور ادیب و صحافی ابراہیم جلیس نے انھیں پناہ دی تھی ۔ ان کے خلوص اور بے لوث محبت کو وہ کبھی فراموش نہیں کرسکتے ۔ ابراہیم جلیس ان کے خاص دوست رہے ابتداء میں تو وہ نظام حکومت کے مخالف رہے لیکن بعد میں قاسم رضوی کے زیر اثر آزاد حیدرآباد کے حامیوں میں شامل ہوگئے ۔ انجمن ترقی پسند مصنفین جو کمیونسٹوں کے زیر اثر تھی وہ بھی آزاد حیدرآباد کی تحریک میں حصہ لینے لگی ۔ ابراہیم جلیس ، اختر حسن اور کئی مارکسٹس ، ادیب ، صحافی و شاعروں نے خود کو مخالف نظام تحریک سے الگ کرلیا ۔ ریاستی کانگریس پارٹی کے قائدین رامانند تیرتھ کے زیر اثر تحریک میں ایک ایک کرکے شامل ہوگئے ۔ جن میں بی رام کرشنا راؤ ، این کے راؤ ، ماڈاپتی رامچندر راؤ ، رعّیت کے ایڈیٹر نرسنگ راؤ اور دیگر کئی قائدین نے عوام میں نظام حکومت کے خلاف مخالفانہ جذبات کی حوصلہ افزائی کی ۔ ان دنوں سابق وزیراعظم پی وی نرسمہاراؤ رامانند تیرتھ کے پاس منشی کی حیثیت سے کام کیا کرتے تھے ۔
پروفیسر ایم وی نائیڈو نے پولیس ایکشن کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے کہا کہ حیدرآباد ، مرہٹواڑہ اور کرناٹک کے بعض علاقوں میں جو مظالم ہوئے ہیں وہ نہایت افسوسناک رہے ، پولیس ایکشن کے باعث نہ صرف مسلمانوں کو جانی و مالی نقصان ہوا بلکہ کئی علاقوں میں تو ہندوؤں کے ساتھ بھی ظلم و زیادتیاں کی گئی ، مجھے اس بات کا دکھ ہے کہ پولیس ایکشن کے بعد بھی حیدرآباد کی مسلم قیادت نے مسلمانوں کو ’’شاہ عثمان زندہ باد‘‘ اور ’’حیدرآباد پائندہ باد‘‘ کی خوش فہمیوں کے حصار میں بند رکھا ۔ ان میں خود اعتمادی ، خود انحصاری اور ترقی کی امنگ پیدا کرنے میں مسلم قیادت نے کچھ نہیں کیا ۔ رضاکاروں نے حیدرآباد کے مسلمانوں میں ڈر و خوف کے ساتھ ساتھ حکومت ہند کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا کئے ۔ جس سے دوسرے طبقات کے مقابلہ میں مسلمانوں کو کافی نقصان اٹھانا پڑا ۔ قاسم رضوی ، لائق علی خان ، ابراہیم جلیس کے علاوہ کئی قائدین پاکستان چلے گئے کیونکہ ان کے پیش نظر مسلمانوں کا مفاد نہیں بلکہ صرف حضور نظام کی حکمرانی کا تحفظ تھا ۔
ایم وی نائیڈو نے کہا کہ حیدرآباد کی تاریخ میں دوسرا بدترین سانحہ ، آندھرا پردیش کی تشکیل کا رہا ، لسانی بنیادوں پر ریاستوں کی تشکیل سے مقامی عوام کے مفادات شدید مجروح ہوئے خود تلنگانہ کے عوام کو تعلیم ، روزگار اور دیگر مراعات سے محروم کردیا گیا ۔ 1956 سے قبل آندھرا ، مدراس میں شامل تھا ،جہاں پر ان کے ساتھ دوسرے درجہ کے شہریوں جیسا سلوک کیا جاتا ، جس کا انتقام اجنہوں نے تلنگانہ کے عوام سے لیا ۔ ایم وی نائیڈو نے کہا کہ تلنگانہ میں ہمیشہ اردو کا چلن تھا اور تلنگانہ عوام پر حیدرآبادی تہذیب و ثقافت کی گہری چھاپ رہی لیکن آندھرا کے حکمرانوں نے نہ صرف حیدرآبادی تہذیب و شناخت کو نقصان پہنچایا بلکہ زندگی کے تمام شعبوں میں تلنگانہ عوام بالخصوص مسلمانوں کے مفادات کو پامال کیا ۔ انہوں نے علحدہ تلنگانہ ریاست کے قیام کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ وہ خود بھی علحدہ تلنگانہ کے کٹر حامی رہے ۔
ایک طویل عرصہ امریکہ میں گذارنے کے بعد پروفیسر نائیڈو حیدرآباد آئے ہیں تو انھیں اس بات کا افسوس ہوا کہ یہ خوبصورت شہر انتہائی گنجان ہوچکا ہے ۔ حیدرآباد سے زیادہ دوسرے شہروں کے لوگ بس گئے ہیں جس سے شہری مسائل میں اضافہ ہی ہوا ہے ۔ آلودگی بڑھ گئی ہے ، کاروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے ، سڑکوں پر گھنٹوں ٹریفک جام رہ رہی ہے ۔ پارکنگ کا مسئلہ بھی تشویش ناک حد اختیار کرگیا ہے ، حکومت کو ان مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ عوامی ٹرانسپورٹ نظام کو زیادہ موثر بنانا چاہئے ، شہری زندگی کی کئی خامیوں نے حیدرآباد کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ وقت کی کمی اور روزگار کے حصول کی دوڑ سے انسانی تعلقات کا پنپنا مشکل ہوتا جارہاہے ۔ ماضی کا حیدرآباد صرف یادوں میں بس گیا ہے اور نیا حیدرآباد Urbanization کا شکار ہوگیا ہے ۔ زندگی کے ہر شعبہ میں کاروباری انداز فکر زیادہ ہوتا جارہا ہے ۔ ان کی خواہش ہے کہ اس ظاہری تبدیلی کے ساتھ ساتھ حیدرآبادی عوام اپنی گم گشتہ تہذیب کی بازیافت کریں تاکہ حیدرآباد کی روح کو زندہ رکھا جاسکے ۔ انھوں نے کہا کہ دنیا کے سارے شہروں میں ایک حیدرآبادی کو پہچاننا زیادہ مشکل نہیں ہے ۔ حیدرآبادیوں نے نہ صرف ایشیا بلکہ یوروپ ، امریکہ بلکہ افریقہ کے کئی ملکوں میں اپنی شناخت بنائی ہے ۔ محبت اور محنت ، حیدرآبادیوں کی پہچان ہے ۔ دیگر شہروں کے لوگ صرف محنت سے مقام بناتے ہیں لیکن ایک حیدرآبادی محنت کے ساتھ ساتھ محبت و شرافت سے دلوں میں جگہ بناتا ہے ۔ دراصل یہ خصوصیات حیدرآبادیوں کو ورثہ میں ملی ہیں ۔ امید کہ نئی نسل اس وراثت کو نسل در نسل جاری رکھنے کی سعی کرتی رہے گی ۔