حیدرآباد جو کل تھا پروفیسر احمد اللہ خان

محبوب خان اصغر
ساری دنیامیں اس وقت تغیرات کی تیز آندھی چل رہی ہے اور اس کے اثرات تمام ریاستوں اور اس کے شہروں میں محسوس کئے جارہے ہیں۔ بالخصوص عصری تعلیم نے جہاں انسانی ارتقاء کیلئے راہیں ہموار کی ہیں وہیں پر نئی نسل کو اپنے ماضی سے متنفر کردیا ہے ۔ آج کے حالات متقاضی ہیں کہ نئی نسل کو اسلاف و اخلاف سے مربوط کرنے کے لئے کل کے حیدرآباد کی ایک سچی تصویر پیش کی جائے ۔ اس ضمن میں ماہر تعلیم پروفیسر احمد اللہ خان نے ہماری دعوت کو درخور اعتنا سمجھا ۔ آپ سابق ڈین شعبہ قانون جامعہ عثمانیہ ہیں ۔ سلطان العلوم میں ڈائرکٹر پوسٹ گریجویشن اسٹیڈیز ان لاء بھی ہیں ۔ شاداں تعلیمی ادارہ جات کے وائس چیرمین کمیٹی بھی ہیں ۔ دائرۃ المعارف کے بھی ڈائرکٹر رہے ۔ اسلامی تعلیمات سے از حد دلچسپی اور قانون کی تعلیم کے درک کے سبب انہوں نے بتوسط روزنامہ سیاست قارئین میں شعور بیدار کرنے کیلئے ’’لیگل گائیڈنس‘‘ کے نام سے کالم شروع کیا تھا جو خوب پذیرائی کے باعث طویل عرصہ تک جاری رہا ۔ اس کے علاوہ ایک لیگل سیل کے بھی یہ نگراں رہے ۔ کل کے حیدرآباد سے متعلق ان سے ہوئی بات چیت ان ہی کی زبانی پیش خدمت ہے ۔

میں اگر اپنے پیشے سے متعلق اپنی بات آغاز کروں تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ میں قانون داں ہوں ۔ قانون پڑھاتا ہوں ۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ میرے والد بزرگوار پروفیسر وحید اللہ خان صاحب مرحوم جامعہ عثمانیہ میں شعبہ قانون کے پہلے طالبعلم تھے جنہوں نے اردو زبان میں قانون پاس کیا تھا ۔ اس عہد میں ایل ایل بی کا مقالہ اردو زبان میں لکھا جاتا تھا ۔ اس زمانے میں عالمی شہرت یافتہ پروفیسر حمید اللہ صاحب بھی حیات تھے ۔ انہوں نے جامعہ عثمانیہ سے ایم اے کیا تھا اور بعد میں اسلامک اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کرکے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی تھی ۔ والد ان ہی کے تلمیذ تھے اور مجھ پر بھی ان کی کرم فرمائیاں رہیں ۔ بعد میں میرے والد نے ان کے ساتھ بحیثیت ریڈر بھی کام کیا اس طرح ایک اچھے استاد کی معیت میں میرے والد محترم کو زندگی گذارنے کا ایسے مستقیم انداز ملا جو آگے چل کر میرے لئے بھی بہت ہی کارآمد ثابت ہوا ۔
اگر میں شعبہ قانون سے متعلق ابتدائی حالات کا ذکر کروں تو زیادہ مناسب ہوگا اور اکثریت کو اس عہد کے حالات سے آگہی ہوجائے گی ۔ حیدرآباد کن میں ایک زمانہ یوں بھی گذرا ہے کہ کوئی بھی شخص قانون کامیاب کرکے عدالتی کام انجام دے سکتا تھا ۔ اس کے لئے باضابطہ قدیم حیدرآباد کے سکریٹریٹ میں لاء کلاس کے نام سے قانون پڑھایا جاتا تھا جس سے بہت سوں نے فیض پایا ۔ کئی قدیم وکلاء لاء کلاس پاس تھے لیکن جامعہ عثمانیہ بننے کے بعد لاء کلاس کو لاء کالج کی شکل دی گئی اور ترقی کرتے ہوئے پوسٹ گریجویشن آف لاء جامعہ عثمانیہ کا قیام عمل میں آیا ۔ اگر ہندوستان کے نامور وکلاء اور جج صاحبان سپریم کورٹ تک رسائی حاصل کرسکے ہیں تو یہ جامعہ عثمانیہ کی دین ہے ۔

ماضی میں شعبہ قانون سے منسلک ہونے کیلئے لاء کلاس میں شرکت کا جو طریقہ کار رہا تھا اس میں 1913 میں خوشگوار تبدیلیاں رونما ہوئیں اور 1928ء میں نئے طرز کے قواعد جاری کئے گئے ۔ بیرسٹروں اور قانون کی ڈگری کے حامل افراد ہی کو عدالتی خدمات کیلئے مقرر کیا جانے لگا اور ایک تحریری امتحان میں شرکت اور اس میں کامیابی کو لازم قرار دیا گیا ۔ 1935 میں عدالتی خدمات کو بلند کرنے کیلئے معیار قابلیت کو پیش نظر رکھا گیا اور ایفیشنسی بار کے قواعد مرتب کئے گئے جس کے تحت عدالت کے مختلف عہدوں پر وہی لوگ ترقی پاسکتے تھے جو جامعات کی قانوی ڈگریاں رکھتے تھے ۔ قانون کی تعلیم کے ضمن میں حیدرآباد کے علاوہ گلبرگہ اور اورنگ آباد میں بھی متذکرہ جماعتوں کا عمدہ نظم تھا تاہم کچھ عرصہ بعد اسے برخواست کرکے صرف حیدرآباد ہی کو قانونی تعلیم کا مرکز ٹھہرایا گیا ۔ بلدہ میں قانون کی جماعت کی ذمہ داری قابل وکلا کے سپرد تھی جس میں شعبہ قانون سے دلچسپی رکھنے والوں کی خاصی تعداد شریک ہوا کرتی تھی اور بعد کو جامعہ عثمانیہ میں اس شعبہ کی کشادگی عمل میں آتے ہی باضابطہ قانون کی تعلیم اور تربیت کیلئے وہاں مستقل پروفیسروں کا تقرر عمل میں آیا جن میں انگلستان کی ڈگریوں کے حامل اساتذہ بھی شامل تھے ۔

حیدرآباد دکن کا ماضی بڑا ہی زرین ہے ۔ نظام الملک میر قمر الدین آصف جاہ اول نے ریاست حیدرآباد کا قیام عمل میں لایا ۔ دانشمندی اور بردباری کے ساتھ اس ریاست پر متمکن رہے اور ریاست مذکورہ کو آزاد ریاست کا درجہ دیا ۔ 1748 میں وہ اس دارفانی سے کوچ کرگئے جس کے بعد یہاں انکی جانشینی کا مسئلہ بہت ہی سنگین ہوگیا تھا ۔ دعویدار باہم گتھم گتھا ہوگئے ایسے میں حالات کا ابتر ہوجانا فطری بات تھی اور اسکا بڑا فائدہ انگریزوں کو ہوا ۔ آصف جاہی عہد میں دکن میں اردو زبان کے فروغ کے ضمن میں بشیرالدولہ نے کافی مساعی کی ۔ اردو زبان کو عدالتوں میں رائج کیا حالانکہ اس وقت مادری زبان یعنی اردو جاننے والوں کی تعداد بھی قلیل تھی لیکن دوسری اقوام کے لوگ اردو سمجھتے تھے اور نوشت و خواند سے بھی کماحقہ واقف تھے ۔ بالآخر عدالتی کارروائیوں کیلئے اردو ہی ذریعہ بنی ، اردو کا مکمل نفاذ عمل میں آیا جسے اردو کی فتح کہا جاسکتا ہے ۔

ہمارے ہاں عدل و انصاف اور اس پر عمل آوری کو ایک قیمتی میراث کے طور پر قبول کیا گیاہے اور عدلیہ کو ایک اہم مقام سے سرفراز کیا گیا ہے۔ اس کے باوجود آج کے حالات میں تمام وکلا کا اتفاق ہے کہ یہ نظام قانون ہر اعتبار سے مکمل نہیں ہے اور اس کمی کو دور کرنے کیلئے ماہرین کی ضرورت ہے ۔ انصاف میں تاخیر پر قوت برداشت جواب دے جاتی ہے ۔ سینکڑوں مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اور یہ صورتحال نہ صرف ماتحت عدالتوں میں ہے بلکہ عدالت العالیہ تک میں زیر سماعت مقدمات کی ایک بڑی تعداد ہے جس سے عوام کو مشکلات کا سامنا درپیش ہے ۔
ریاست حیدرآباد میں پولیس ایکشن سے قبل سات نظاموں نے حکومت کی اور کسی بھی حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا کلیدی ذریعہ وہاں کا نظام عدل ہوتاہے ۔ عدلیہ اگر بہتر ہو تو انصاف رسانی میں دشواریاں حائل نہیں ہوتیں ۔ کمزور ترین لوگوں میں بھی یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ انصاف مل رہا ہے اور وہ خود کو طاقتور محسوس کرتے ہیں ۔ انصاف کو مشکل بنایا جائے تو عوام میں احساس کمتری پیدا ہوتا ہے ۔ ہر ملک میں عدالیہ پر عوام کا ایقان ہوتا ہے اور ان کے دلوں میں عدلیہ کا احترام پایا جاتا ہے ۔ سلاطین آصفیہ نے عدل پروری میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا تھا اور عدالتیں عدل گستری کا مظاہرہ کرتی تھیں ۔
اس موضوع کے وسیلے میں قارئین سیاست کیلئے یہ بتادینا بھی ضروری ہے کہ آصف جاہ چہارم کے عہد میں ’’عدالت شاہی‘‘ کے نام سے قائم کی گئی عدالت میں سوائے سزائے موت اور حبس دوام کے تمام مقدمات کی سماعت کی جاتی تھی اور غیر محدود اختیارات کی روشنی میں فیصلے جاری کئے جاتے تھے۔ آصف جاہ پنجم کے دور حکمرانی میں بعض اضلاع میں ’’دیوانی عدالتیں‘‘ قائم کی گئی تھیں ۔ عہدیداران مال کو ان عدالتوں کے اختیارات حاصل تھے اور جہاں باقاعدہ عدالتیں قائم نہیں تھیں وہاں عدالت دیوانی کے متعلقہ عہدیداران اختیارات حاصلہ کو بروئے کار لاتے تھے ۔ آصف جاہ ششم کے زمانے میں یہ اختیارات محکمہ مال کے عہدیداروں سے لے لئے گئے ۔ اعلی حضرت میر عثمان علی خان آصف سابع کا قیاس تھا کہ عدالت ہائے تحت کی جو عدالتیں تھیں وہ انصاف رسانی میں مانع ہورہی ہیں ۔ مثلاً انہوں نے سب سے بڑے نقص کی نشاندہی کی تھی کہ ایک تحصیلدار یا ڈسٹرکٹ کلکٹر محکمہ پولیس کا ڈائرکٹر بھی ہے ۔ جج بھی ہے پولیس کی حیثیت سے کیس اندراج کرتا ہے اور انتظامی حیثیت سے عدالت سے رجوع ہوتا ہے اور جج کی حیثیت سے کیس کی سنوائی بھی ہورہی ہے اس سے عجیب و عریب صورتحال پیدا ہوتی تھی ۔ بحیثیت جج فیصلہ کرتے ہوئے وہ خالی الذہن نہیں ہوتا اور عدالتی فرائض کے مقابلے میں اپنے محکمے کو مقدم رکھنے پر مجبور ہوتا تھا جس کے باعث عدالتی کام متاثر ہوتے تھے اور جج پر سے عوام کا اعتماد اٹھ رہا تھا اسی وجہ سے عدالت بزرگ اور عدالت دیوانی اور اس طرح کی دوسری عدالتوں کو ضم کرکے عدالت العالیہ قائم کی گئی اور دیگر تمام شعبوں سے عدالت کو علحدہ کردیا گیا اور 28 فبروری 1928 کو فرمان شاہی برائے قیام عدالت العالیہ (High Court of Hyderabad) جاری ہوا ۔ اعلی حضرت کی ایک دیرینہ آرزو یہی تھی کہ انصاف رسانی کے طریقے کو اتنا آسان کردیا جائے کہ امیر غریب ، اعلی ادنی ، خواندہ ناخواندہ ، بلاتخصیص عمر و جنس و مذہب عدلیہ پر سب کو یکساں ایقان و اعتماد ہو ۔ اس سے ریاست کی تہذیب جھلکتی ہے اور عدل و انصاف کی اعلی روایتوں کی تکمیل ہوتی ہے ۔ اس سے بہت قبل اسلامی قوانین رائج تھے ۔ مگر حالات کے پیش نظر لچکدار قوانین وضع کئے گئے اور عدالتی امور کی درستگی کی حتی المقدور کوشش کی گئی ۔ نظام قانون اور نظام عدالت میں بہتری کیلئے غور و خوض کیا جانے لگا ، اسی عرصہ میں ایک مجلس بھی قائم کی گئی جو قوانین وضع کرتی تھی اسے مجلس وضع قوانین Law Drafting Committee کہا جاتا تھا ۔ جملہ سترہ قوانین بنائے گئے ’’سمندر کو کوزے میں بند کرنا‘‘ کے مصداق سترہ قوانین سماجی اور معاشرتی زندگی کا بھرپور احاطہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ ان سترہ قوانین کو ’’رائل چارٹر‘‘ یعنی شاہی فرمان بھی کہا جاتا ہے جسے ہائیکورٹ کے باب الداخلہ پر آویزاں بھی کیا گیا تھا مگر ان دنوں وہ فرمان وہاں نظر نہیں آتا مگر قانون کی تصانیف میں محفوظ ہے ۔ غلام صمدانی گوہر کی کتاب میں بھی دستیاب ہے ۔ باسط علی خان صاحب کا شمار مدراس کے مشہور وکلا میں ہوتا ہے ۔ حیدرآباد میں قانون کی سطح پر ان کی بے مثال خدمات رہی ہیں ۔ نظام عدلیہ آصفیہ کے نام سے انہوں نے ایک معرکتہ الآرا کتاب بھی لکھی ہے ۔ میر عالم علی خان نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے بیرسٹر کی ڈگری حاصل کی تھی انہیں حکومت کی جانب سے مدراس روانہ کیا گیا تھا تاکہ نظام عدلیہ کے طور طریقوں ، خوبیوں اور خامیوں کا جائزہ لے سکیں ۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب دہم پاس خال خال ہی نظر آتے تھے بیرسٹر تو ناپید تھے ۔ متذکرہ سترہ قوانین میں دفعہ سولہ کا ذکر ناگزیر لگتا ہے جس میں نجی معاملات سے متعلق مسائل کا حل پیش کیا گیا ہے ۔ شرعی قوانین کی روشنی میں مسلمانوں کے مسائل کو حل کرنے کی گنجائش فراہم کی گئی ہے ۔ اور ہنود کیلئے دھرم شاستر کو لاگو کیا گیا ہے جس کی وجہ سے مذہبی معاملات میں ذخیل ہونے کے راستے ہی بند ہوگئے ۔

1304 سے 1310 فصلی کے درمیان 36 قوانین بنائے گئے ۔ اور ان کو نافذ کیا گیا ۔ مثلاً قانون تعزیرات ، قانون شہادت ، ایڈوکیٹس ایکٹ ، اسٹمپس ایکٹ ، معاہدات ، مالگزاری سے متعلق قوانین ، زمین کے ناپ کے اصول ، آرائش بلدہ ، پرنٹنگ کے قانون وضع کئے گئے ۔ کاپی رائٹ کا قانون بھی رائج کیا گیا ۔ ساری دنیا میں اور ہندوستان میں کاپی رائٹ قانون بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔کسی کی بھی تحریر اور تصنیف سے بلا اجازت استفادہ کرنا قانوناً جرم سمجھا گیا ۔ قدیم زمانے میں کتابیں شائع ہو کر منظر عام پر آتی تھیں تو صفحہ اول پر ہی یہ لکھا ہوتا تھا کہ ’’جس کتاب پر مصنف کی قلمی دستخط نہ ہو وہ مسروقہ سمجھی جائے گی‘‘۔

دارالطبع کے تحت کتابوں کی اشاعت میں آسانی ہوئی ۔ اور تحفظ کے راستے بھی مہیا ہوئے ۔ مندرجہ بالا گفتگو سے اس بات کااظہار ہوتا ہے کہ ریاست حیدرآباد میں بلکہ پورے ہندوستان میں قانون کی تشکیل اور اس کے ارتقائی منازل کیا ہیں ؟ اور انسان کے حقوق اقدار کی حفاظت میں یہ کس حد تک معاونت کرتا ہے ۔ چونکہ یہ میرا میدان ہے اس لئے میں نے ’’حیدرآباد جو کل تھا‘‘ کے حوالے سے قانون اور اس پیشے سے جڑی بہت ساری باتیں قارئین کے سامنے رکھ دی ہیں ۔ اب رہی بات میری ابتدائی تعلیم کی تو میں اپنے معزز قارئین کو یہ بتانا چاہوں گا کہ میری تعلیم کا آغاز اردو شریف اسکول سے ہوا جو اقبال الدولہ کی دیوڑھی میں ہوا کرتا تھا ۔ قدیم حیدرآباد کی خصوصیت یہ تھی کہ سارا محلہ ایک گھر جیسا ہوتا تھا ۔ لوگ ایک دوسرے کو قریب سے جانتے تھے ۔ لوگوں کو دوسروں کی طبیعتوں کا ادراک ہوتا تھا ۔ بلاتفریق مذہب بہم اٹھتے بیٹھتے تھے ۔ آٹھویں تا دہم سٹی کالج میں پڑھائی کی ۔ انور العلوم کالج سے پی یو سی کیا ۔ اور سیف آباد کالج سے گریجویشن کرنے کے بعد ایل ایل بی کی ڈگری جامعہ عثمانیہ سے حاصل کی ۔ مجھے اس بات کا فخر حاصل ہے کہ میں شعبہ قانون سے پی ایچ ڈی کرنے والا پہلا شخص ہوں اور کوئی بھی تعلیمی شعبہ ایسا نہیں رہا جس پر میں فائز نہ رہا ہوں ۔ اللہ تعالی نے مجھے ایسے اساتذہ مرحمت فرمائے جو نہ صرف میری کردار سازی میں معاون رہے بلکہ اسباق اور مواد کی مدد سے میری بھرپور رہنمائی کرکے آگے بڑھنے کے راستے ہموار کئے ۔ قدیم زمانے میں ارتباط کی ایک خوشگوار فضا قائم تھی ۔ ارزانی تھی ۔ کثیر العیالی میں بھی لوگ خوشحال رہا کرتے تھے ۔ میل کچیل سے پاک و صاف قلوب ہی درحقیقت فارغ البالی کی اہم وجہ تھی ۔ تہواروں کے موقعوں پر لوگ ایک دوسرے پر وارے نیارے ہوتے تھے۔ رشتہ داریاں اتنی مستحکم ہوا کرتی تھیں کہ بعض حاسدوں کی سازشوں کے باوجود ان میں بال نہیں آتا تھا ۔ بونوں کے دست و پا سے الجھ کر وقت کا زیان نہیں کیا جاتا تھا بلکہ وقت کی قدر و قیمت ہوا کرتی تھی ۔ دوسرے مذاہب اور مسالک کے بزرگوں کو چاچا وغیرہ کے القاب سے نہ صرف پکارا جاتا تھا بلکہ اس رشتے کے تقدس کو ہر دم ملحوظ بھی رکھا جاتا تھا ۔ مصائب و آلام کے لمحوں میں متاثرین کے ساتھ دوسرے لوگ بھی ایک اضطراب آمیز سکون سے گذرتے تھے ۔ کسی کے ہاں میت ہوجاتی تو سارا محلہ اداس اور ملول ہوجاتا تھا ۔ میری دادی جان کا انتقال ہوا تھا تو اطراف و اکناف کے گھروں میں تین دن تک ریڈیو نہیں بجایا گیا ۔ حالانکہ وہ دور صرف ریڈیو ہی کا تھا اور بڑے ہی ذوق و شوق سے سماعت کیا جاتا تھا ۔ آج کے حالات کل سے بھی مختلف ہیں ۔ مشغولیت نے پڑوسیوں کی خبر گیری سے ہمیں دور کردیا ہے ۔ مشفقانہ جذبات ناپید ہوگئے ہیں ۔ کردار مشکوک ہوگئے ہیں ۔ منفی سوچ اور فکر نے فضاء کو پراگندہ کردیا ہے ۔