سید امتیاز الدین
پچھلے دنوں حیدرآباد جو کل تھا کہ سلسلے میں ہماری ملاقات ایک ثقہ بزرگ سے ہوئی جن کے بارے میں ہم پہلے سے کچھ جانتے نہ تھے ۔ لیکن جب اُن سے نیاز حاصل ہوا تو پشیمانی ہوئی کہ قدیم حیدرآباد کی تہذیب اور یادوں کے ایک خزانے سے ہم اب تک بے خبر تھے ۔ آج ہم اس ملاقات کا حال لکھنے بیٹھے ہیں تو جی چاہتا ہے کہ ہم اپنا طرز تحریر بدل دیں اور ساری روداد ان کی زبانی رقم ہو ۔ اگلے پیراگراف سے صیغۂ واحد متکلم استعمال ہوگا ۔ گویا ساری باتیں ان کی زبان میں ہوں گی جن کا انٹرویو ہم نے لیا تھا ۔ اب آپ ہیں اور محمد نور الدین خاں صاحب ہیں ۔ ہم کو محض کاتب سمجھئے اور نظر انداز کردیجئے ۔
’’میرا نام محمد نور الدین خاں ہے ۔ میں حیدرآباد میں پیدا ہوا ۔ میری تاریخ پیدائش 19 اپریل 1924 ہے ۔ میں اپنی زندگی کی اکیانوے بہار و خزاں دیکھ چکا ہوں ۔ پہلے خود چلتا تھا اب واکر کی مدد سے چلتا ہوں ۔ ابھی حافظہ سلامت ہے ۔ اپنے روزمرہ کے کام کاج کی ادائی میں اللہ کے فضل و کرم سے کسی کی محتاجی نہیں ، لیکن عمربہرحال عمر ہے ، جس کے آگے سب کو سرتسلیم خم کرنا پڑتا ہے ۔ میرے والد محمد رحیم الدین خاں صاحب منصبدار تھے ۔ دادا محمد فیاض الدین خاں المخاطب نواب مشرف جنگ مددگار معتمد صرف خاص تھے ۔ وہ شاعر بھی تھے اور فیاض تخلص کرتے تھے ۔ حضرت فیاض محمد شمس الدین فیض استاد سخن کے شاگرد رشید تھے ۔ ہر جمعہ کو اپنی دیوڑھی پر مشاعرہ منعقد کرتے تھے ۔ دادا کی دیوڑھی 1319 ھجری میں تعمیر ہوئی ’’مکان فیاض نام آور مادۂ‘‘ تاریخ ہے ۔ زور صاحب کی کتاب ’’مرقع سخن‘‘ میں بھی ان کا ذکر ہے ۔ اپنے استاد حضرت شمس الدین فیضؔ کے انتقال کے بعد دادا ان کے عرس کا اہتمام کرتے تھے ۔ ہندو مسلم یکجہتی کا یہ عالم تھا کہ گردھاری پرشاد باقیؔ اس عرس میں صندل لاتے تھے ۔مشاعرہ ہوتا تھا ۔ حضرت فیض کی درگاہ لال دروازہ میں تھی ۔ داغ بھی اس مشاعرہ میں شریک ہوتے تھے ۔ امیر مینائی رام پور سے غزل بھیجتے تھے ۔ حضرت جلیل مانک پوری نے حیدرآباد آنے کے بعد جس پہلے مشاعرہ میں شرکت کی ، وہ یہی مشاعرہ تھا ۔ طرح تھی۔
ہوتے ہیں فیض یاب اسی بارگاہ سے
ان سالانہ مشاعروں میں شعراء فارسی اور اردو کلام سناتے تھے ۔ کلام کے گلدستے شائع ہوتے تھے ، جو اس کے بعد کے مشاعرے میں یعنی دوسرے سال تقسیم ہوتے تھے ۔ قورمہ روٹی کی ضیافت ہوتی تھی ۔ کسی شاعر نے اسی مناسبت سے شعر کہا تھا۔
قورمہ روٹی ملی اور ملا گلدستہ
ہم نے فیاض کا احسان پہ احساں دیکھا
اس سالانہ عرس اور مشاعرہ کی روایت کو میرے دادا نے 43 سال تک جاری رکھا ۔ ان کے بعد میرے تایا محمد عزیز الدین خاں (نواب عزیز یار جنگ) ناظم عدالت دس سال تک یہ ذمہ داری نبھاتے رہے ۔ ان مشاعروں میں تقریباً دو سو شعراء شریک ہوتے تھے اور کبھی تو دو راتوں تک یہ مشاعرہ چلتا تھا ۔ مہاراجہ کشن پرشاد بھی اپنے کلام اور شرکت سے رونق بخشتے تھے ۔ مجھے کہنے دیجئے کہ ان مشاعروں نے سامعین کی تربیت کی اور شعری ذوق بخشا ۔ نواب عزیز یار جنگ عزیز داغ کے شاگرد تھے ۔ ان کے دو دیوان شائع ہوچکے ہیں ۔ وہ ناظم عدالت تھے ۔
نواب میر عثمان علی خاں کے عہد حکومت میں ریاست حیدرآباد نے بہت ترقی کی ۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ عثمان ساگر (گنڈی پیٹ) اور حمایت ساگر انھوں نے بنائے تھے ، لیکن خاص بات یہ ہے کہ انھوں نے تالاب بنا کر یونہی نہیں چھوڑدیئے ۔ شہر میں نلوں کا جال بچھادیا ۔ نلوں سے آب رسانی کے انتظام کو بہتر بنانے کے لئے پانی کی صفائی کے خصوصی انتظام کئے ۔ ہر وقت نل کھلے رہتے تھے ۔ یہ بات بھی مشہور ہے کہ ابتداء میں پانی کے بل نہیں ہوتے تھے ۔ جب محکمۂ آب رسانی کے اخراجات بڑھنے لگے ، تو آصف سابع کی خدمت میں تجویز پیش کی گئی کہ پانی کی سربراہی کے لئے عوام سے نہایت قلیل چارجس لئے جائیں ۔ اس پر بادشاہ وقت نے ناگواری سے پوچھا کیا میں اپنی رعایا سے پانی جیسی چیز کے پیسے لوں ۔ بالآخر یہ طے پایا کہ محکمۂ آب رسانی نہایت قلیل رقم اس مد میں لے گا ۔ پہلے پہل تو پانی کے میٹر بھی نہیں تھے ۔ اسی طرح کھلی نالیوں کی بجائے ڈرینج کا انتظام کیا گیا ۔ گلیوں میں پتھر تھے ۔ ان کو برما لگا کر زیر زمین نالیاں بنائی گئیں ، جو آج تک کام دے رہی ہیں ۔ اسی طرح آمد و رفت کے لئے پُل بنائے گئے ۔ پرانا پل قطب شاہی بادشاہوں نے بنایا تھا ۔ افضل گنج کا پل افضل الدولہ کے دور میں بنا ۔ مسلم جنگ کا پل مسلم جنگ رئیس کی یادگار ہے ۔ چادر گھاٹ کا پل ناصر الدولہ نے تعمیر کرایا تھا اس کا انجینئر آلیفنٹ نامی انگریز تھا ۔ اس لئے اس کا نام Oliphant Bridge رکھا گیا ۔ چادر گھاٹ پل کے ختم پر بجلی کے دفتر میں اس نام کی تختی نصب تھی ، جو شاید اب بھی ہو ۔ 1908 کی طغیانی میں پرانے پل کے سوا تمام پل گرگئے تھے ، جن کی دوبارہ مرمت کی گئی ۔ سیلاب کے وقت میر محبوب علی خاں آصف جاہ سادس نے اپنے محلات عوام کے لئے کھول دئے تھے ۔ کھانے کا مفت انتظام تھا ۔ انھوں نے اس موقع پر کہا تھا۔
آصف کو جان و مال سے اپنے نہیں دریغ
گر کام آئے خلق کی راحت کے واسطے
عثمان علی خاں کے دور میں کم آمدنی والے طبقے کے لئے محکمہ آرائش بلدہ City Improvement Board کے تحت مکانات تعمیر کئے گئے ۔ ان محلوں کی پلاننگ نہایت عمدہ تھی ۔ بیس پچیس مکانات کے ایک گروپ کے بیچوں بیچ کھیل کے میدان تھے ۔ ہر محلہ میں مارکٹ اور اسکول کی عمارتیں تھیں ۔
جب محکمہ برقی زیادہ وسیع نہیں ہوا تھا تو ہر گلی میں روشنی کے لئے چراغوں کا بندوبست تھا ، جنھیں اِکّے کہا جاتا تھا ۔ سرشام ایک آدمی چراغوں کو صاف کرتا اور تیل ڈالتا تھا ۔ بارش اور ہوا سے بچاؤ کا انتظام تھا تاکہ کبھی چراغ صبح سے پہلے بجھ نہ جائیں ۔ نل سڑکوں پر بھی ہوتے تھے جن کی ٹوٹیاں بڑی ہوتی تھیں ۔ بہشتی معمولی اجرت پر پانی سپلائی کرتے تھے ۔ مٹی کی سڑکوں پر سرشام پانی کا چھڑکاؤ ہوتا تھا تاکہ گرد و غبار سے راہرو محفوظ رہیں ۔ بگھیاں ، جھٹکے اور تانگے چلتے تھے ۔ لید اٹھانے کا خصوصی انتظام تھا ۔ حفظان صحت کے لئے ہر محلے میں دواخانے ہوتے تھے ۔ مچھر کُش دواؤں کا چھڑکاؤ ہوتا تھا ۔گھروں پر چوہے دان اور گھونس دان لاکردئے جاتے تھے ، جس کے بعد دوسرے دن چوہے دان اورگھونس دان میں پھنسے ہوئے چوہوں وغیرہ کو متعلقہ کارندے انھیں ختم کردیتے تھے ۔ چوہے دانوں میں ان موذی جانوروں کے کھانے کی چیزیں بھی رکھی ہوتی تھیں۔
جنگ کے بعد سارے ملک میں اجناس کی قلت ہوگئی تھی ۔ محکمہ راتب بندی قائم کیا گیا ، جس کے ذریعے غلّہ سپلائی ہوتا تھا ۔ تنخواہیں کم تھیں لیکن اخراجات زندگی کم تھے ، اس لئے خیر وبرکت تھی۔ کم سے کم گریڈ تیس تا ساٹھ روپے تھا ۔ سکۂ حالی کا چلن تھا ۔ برطانوی سکّہ کلدار کہلاتا تھا ۔ سات روپے حالی کا زرمبادلہ چھ روپے کلدار تھا ۔ ایک بکرا عام دنوں میں چار روپے میں مل جاتا تھا ۔ عید کے دن پانچ روپے میں فروخت ہوتا تھا ۔ گوشت چھ پیسے یعنی ایک آنے میں پاوسیر فروخت ہوتا تھا ۔استاد کی ٹیوشن فیس زیادہ سے زیادہ چار روپے ہوتی تھی۔ ملگیوں اور دکانات کا کرایہ چار روپے ماہانہ ہوتا تھا ۔
موسیقی کی محفلیں بھی ہوتی تھیں ۔ اس زمانے میں شنکرابائی ایک مشہور مُغنّیہ تھیں ، جو غالب کی غزلیں بھی بڑی عمدگی سے گاتی تھیں ۔ امیر بخش سارنگی نواز کا بھی شہرہ تھا ۔ مدرسوں میں ہندو مسلم طلبہ مل جل کر پڑھتے تھے ۔ منوہر راج سکسینہ ، جگدیش ،ایشور راج وغیرہ میرے ہم جماعت اور قریبی دوست تھے ۔ منوہر راج سکسینہ مشہور ایڈوکیٹ تھے اور اردو زبان و ادب سے گہری دلچسپی رکھتے تھے ۔ محلہ میں ہندو مسلم مل کر رہتے تھے ۔ مندر مسجد آمنے سامنے ہوتے تھے ۔ سوامی پرشاد سررشتہ دار ایک مسجد کا انتظام کرتے تھے ۔رمضان میں وہی مسجد کی آہک پاشی کراتے تھے ۔ امام کی تنخواہ انہی کے ذمے تھی ۔ سوامی پرشاد صاحب کا سب ادب کرتے تھے ۔ ان کے خاندان میں کسی بچے کا مُنڈن ہوا تھا ۔ انھوں نے اردو میں رقعے چھپوائے تھے اور منڈن کے لئے عقیقہ کا لفظ استعمال کیا تھا ۔
میرے والد کے ایک قریبی دوست روشن چند تھے ۔ ان کے بھائی کی شادی کے لئے مکان کی ضرورت تھی ۔ والد نے دیوڑھی کا ایک حصہ دے دیا اور ہم باہر کے حصہ میں آگئے ۔ بیس پچیس دن تک دیوڑھی کا بڑا حصہ روشن چند صاحب کے عزیز و اقارب کی تحویل میں رہا ۔ روشن چند کے نواسے مکیش راج ہارٹ اسپیشلسٹ ہیں ۔ میں اپنے علاج کے سلسلے میں ان کے پاس گیا ۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ کے نانا اور میرے والد قریبی دوست تھے ۔ مکیش راج فوراً مجھ کو اپنی والدہ کے پاس لے گئے ۔ ان کی والدہ مجھے پہچان گئیں اور پرانی باتیں یاد کرکے بہت متاثر ہوئیں ۔ اسی طرح ہمارا خاندان بھی پلیگ کی وباء پھیلی تو ورنگل چلا گیا تھا ۔ والد ہم سب کو لے کر روشن چند کے ہاں مہمان رہے ۔ دوستی اور مروت کا یہ عالم تھا کہ میرے والد نے اپنے ایک ہندو دوست کی ضمانت دے دی تھی ۔ بدقسمتی سے وہ دوست قرض ادا نہ کرسکے ، چنانچہ والد کی آدھی منصب دوست کے قرض کی ادائی میں کٹ جاتی تھی ۔ دوستی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ والد کبھی حرف شکایت زبان پر نہیں لائے بلکہ وہ کہتے تھے یار کچھ بھی ہو یار ہوتا ہے ۔ ہندو اصحاب کے گھر رمضان میں شادی ہوتی تو افطار کا انتظام رہتا تھا ۔ ہولی کا تہوار معین الدولہ کے محل میں دھوم سے منایا جاتا تھا اور پیلے رنگ کے دعوت نامے تقسیم ہوتے تھے ۔ کئی ہندو گھرانوں میں گیارھویں ہوتی تھی ۔ محرم میں کئی ہندو بھائی علم بٹھاتے تھے ۔ راجہ رائے رایاں ابرق کا علم بٹھاتے تھے ۔ ہمارے محلے میں ایک ہندو صاحب پیتل کا علم بٹھاتے تھے ، جس کے دونوں طرف لکڑی کے بنے ہوئے کالے مینڈک ہوتے تھے ۔ یہ علم دس محرم کو اٹھائے جاتے تھے ۔
میں سٹی کالج میں نویں جماعت کا طالب علم تھا ۔ ہمارے اردو کے استاد کسی وجہ سے نہیں آرہے تھے ۔ ان کی بجائے ایک دن ایک نوجوان صاحب اردو کے استاد کے طور پر آئے ۔ یہ مخدوم محی الدین تھے ۔ کچھ بچے ان کو پہلے سے جانتے تھے ۔ انھوں نے مخدوم سے کلام سنانے کی فرمائش کی ۔ مخدوم نے پہلے کلاس کی کھڑکیاں اور دروازے بند کرادیئے ۔ اس کے بعد اپنی دل نشین آواز میں نظم ’’حویلی‘‘ سنائی ۔مخدوم بڑے اچھے استاد تھے ۔ بچوں کی غیر حاضری پسند نہیں کرتے تھے ۔ بعض طلبہ غالب صاحب ، اقبال صاحب کہتے تھے ۔ مخدوم نے کہا کہ کبھی ایسا مت کہو ۔ غالب کو غالب کہنا کافی ہے ۔ اقبال کو اقبال یا زیادہ سے زیادہ علامہ اقبال کہنا چاہئے ۔ ایک مرتبہ مجھے ’’نگار‘‘ کا ایک شمارہ ملا ، جس میں مخدوم پر ایک مضمون تھا ۔ میں نے وہ پرچہ مخدوم کودکھایا ۔ مخدوم نے دلچسپی سے مضمون پڑھا ۔ پھر مجھ سے پوچھا ’کیا میں یہ رسالہ رکھ سکتا ہوں‘ ۔ میں نے خوشی سے وہ پرچہ مخدوم کو دے دیا ، لیکن میں نے یہ نہیں دیکھا تھاکہ وہ مضمون کس نے لکھا تھا ۔ اس واقعہ کے کئی برسوں بعد میں نے اس کا ذکر محبوب حسین جگر صاحب سے کیا تو مجھے جگر صاحب سے ہی معلوم ہوا کہ وہ مضمون خود جگر صاحب کا لکھا ہوا تھا ۔
چلتے چلتے یہ بھی عرض کردوں کہ شاہانِ دکن شعر و ادب کے میدان میں بھی کسی سے کم نہیں تھے ۔ میر محبوب علی خاں آصف جاہ سادس کا یہ شعر سارے ملک میں ابھی تک مشہور ہے ۔
لاؤ تو قتل نامہ مرا میں بھی دیکھ لوں
کس کس کی مُہر ہے سرِ محضر لگی ہوئی
آخر میں شاہی خاندان سے وابستہ ایک واقعہ سنا کر اپنی بات ختم کروں گا ۔ شہزادی نیلوفر جونیر پرنس معظم جاہ بہادر کی اہلیہ تھیں ۔ ایک دفعہ پرنسس نیلوفر اجنٹہ دیکھنے گئیں تو وہاں کے عہدہ داروں نے اجنٹہ کے چمن میں ان سے انگور کا قلم لگانے کی خواہش کی ۔ شہزادی نے یہ کہتے ہوئے انگور کا پودا لگایا ۔ ’’آپ کیوں مجھ سے یہ پودا لگانے کی خواہش کررہے ہیں۔ اسے پھل تو آئیں گے نہیں‘‘ ۔ نیلوفر لاولد تھیں ۔ اس جملے میں ایک عورت کا درد بھی ہے اور ایک شہزادی کی صاف گوئی بھی ۔ بہرحال میرے ذہن میں یادوں کے اتنے نقوش تازہ ہیں کہ گھنٹے دو گھنٹے کی ملاقات میری یادوں کا احاطہ نہیں کرسکتی ۔
تو صاحبو ! آج کا یہ انٹرویو ہم نے نور الدین خاں صاحب کے الفاظ میں لکھنے کی کوشش کی ہے ۔ کالم مکمل ہوگیا ، لیکن تشنگی باقی ہے ۔ ہمیں امید ہے کہ یہ تشنگی ہمارے شہر کی اور بزرگ ہستیاں دور کریں گی۔