حلیم بابر
یقیناً انسان کا دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد اس کا ملنا محال ہے ۔ بس اس کا تصور ، اس کی یادیں ، اس کی گراں قدر خدمات و قابل فخر کارناموں سے اس کی یاد زندہ رہتی ہے اور وہ زندہ جاوید کا مستحق قرار پاتا ہے ۔ ایسی ہی قابل فخر و عالمگیر شہرت کی حامل شخصیت حکیم عبدالحمید دہلوی کی تھی ۔ مدتوں دنیائے علم و ادب دنیائے طبابت و صحافت مرحوم کو بھلا نہیں سکتی ۔ ایک عرصہ دراز سے ہمدرد دواخانہ اپنی شہرت رکھتا ہے جس کے وہ بانیوں میں سے تھے اور اس کو اپنے خون جگر سے سیراب کیا تھا ۔
حکیم عبدالحمید 14ستمبر 1908 کو پیدا ہوئے ۔ ان کی تعلیم طبیہ کالج قرول باغ نئی دہلی میں ہوئی ۔ پیشہ کے اعتبار سے کامیاب حکیم تھے ۔ ان کے دوران حیات 30 سالوں کے درمیان 6 ملین مریضوں نے آپ سے شفا حاصل کی تھی ۔ تدریسی دنیا میں بحیثیت فاؤنڈر چانسلر جامعہ ہمدرد رہے ۔ اس کے علاوہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے چانسلر بھی رہ کر کافی مقبولیت حاصل کی اور یونیورسٹی کو اپنی اعلی صلاحیتوں سے فعال بنایا ۔ ہمدرد وقف لیباریٹریز دہلی ، جس کے تحت مختلف ادارے قائم ہوئے تھے ، جس میں انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز ، انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹری آف میڈیسن ، میڈیکل ریسرچ ، ہمدرد کالج آف فارمیسی ، ہمدرد طبی کالج ، مجیدیہ ہاسپٹل کے چیف ٹرسٹی رہے اور ان اداروں کو اپنی فراست ،علم و دانشمندی سے خوب چمکایا اور مقبولیت کے زینے پر پہنچایا ۔ ہمدرد نیشنل فاؤنڈیشن ، غالب اکیڈیمی ، ہمدرد ایجوکیشن سوسائٹی ، ہمدرد انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹوریکل ریسرچ سنٹر ،میں فاؤنڈر کی حیثیت سے بھی کارگذار رہے ۔ اس کے علاوہ آل انڈیا یونانی طبی کانفرنس کے صدر اور سنٹرل کونسل فار ریسرچ ان یونانی میڈیسن کے نائب صدر بھی رہے ۔ حکیم عبدالحمید کو اللہ تعالی نے متعدد صلاحیتوں سے نوازا تھا ۔ وہ کئی علمی ، ادبی ، طبی اور صحافتی شعبوں سے وابستہ تھے ۔
عبدالحمید بڑے حکیم صاحب کئی اعزازات سے نوازے گئے جن میں ابن سینا ایوارڈ 1993 (روس) پدم شری ایوارڈ 1995 (انڈیا) پدم بھوشن ایوارڈ 1991 (انڈیا) ہمدرد یونیورسٹی کراچی پاکستان 1995 کے انعامات شامل ہیں ۔ حکیم عبدالحمید ایک قابل و نامور مصنف بھی تھے ۔ جسکی تفصیل یوں ہے کہ تھیوریز اینڈ فلاسفر آف میڈیسن 1973 ، فلاسفی آف میڈیکل اینڈ سائنس 1972 ، عرب میڈیسن اینڈ ماڈرن میڈیسن 1977 ۔ اس کے علاوہ انگریزی ، ہندی و اردو میں مختلف عنوانات پر آپ نے کئی کتابیں تصنیف کی ہیں ۔ اس طرح کی عالمی مقبول و معروف علمی ادبی تدریسی و صحافتی دنیا کی معروف ہستی کا 22 جولائی 1999 ء کو اپولو ہاسپٹل نئی دہلی میں انتقال ہوا اور تدفین 23 جولائی کو جامعہ ہمدرد نئی دہلی میں عمل میں آئی۔
حکیم عبدالحمید مرحوم کے فرزند جناب عبدالمعید چیف متولی ہمدرد وقف لیباریٹریز دہلی نے اپنے تاثرات کا یوں اظہار کیا ہے کہ ’’جیسا کہ ہر شخص جانتا ہے کہ آج ملک و بیرون ملک میں تحریر و تقریر کے ذریعہ اعتراف کیا جارہا ہے کہ والد محترم عالی مرتبت حکیم عبدالحمید (بڑے حکیم صاحب) نے اپنی قیمتی زندگی کا ایک ایک لمحہ ملک و ملت اور فن کی خدمت کیلئے صرف کیا ہے ، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ والد صاحب قبلہ نے نہ صرف اپنے اداروں کو قوم کی خدمت کے لئے وقف کیا ، بلکہ اپنی بیش قیمت زندگی بھی ملک و قوم کے نام وقف کردی تھی ۔ طبابت ، دوا سازی ، طب یونانی کی بقاء اور ارتقاء تعلیم ، تاریخ اور تحقیق کے میدان میں ان کے کارہائے نمایاں بے حساب ہیں ، لیکن شاید کم لوگ واقف ہوں کہ قبلہ طبی صحافت کے بھی بانی تھے ۔ انھوں نے 1931 میں ’’ہمدرد صحت‘‘ کے نام سے ایک رسالہ جاری کیا ، جس کی ادارت خود انھوں نے کی ۔ غالب اکیڈیمی دہلی : خواجہ حسن ثانی نظامی کی زیر صدارت منعقدہ جلسہ میں پروفیسر شارب نے کہا تھا کہ اس دور میں حکیم صاحب کا ثانی تلاش کریں تو کوئی نہیں ملے گا۔ ڈاکٹر کرن سنگھ نے کہا کہ حکیم صاحب نے بہت کام کیا لیکن اپنی شخصیت کو آگے آنے نہیں دیا ۔ حکیم عبدالحق نے کہا کہ ان کی عبادت و ریاضت کسی ولی سے کم نہیں تھی ۔ آزادی کے بعد انھوں نے ہمارے معاشرے کو بہت کچھ دیا ۔ ڈاکٹر سید فاروق نے کہا کہ میں نے حکیم صاحب کو ایک اچھے استاد کی حیثیت سے جانا ۔ ان کے اندر انکساری و عاجزی کی خوبی زیادہ تھی ۔ پروفیسر گوپی سنگھ نے کہا کہ حکیم صاحب نے ایک طویل عمر انسانیت ، قوم اور علم کی خدمت میں کھپائی ۔
کلکتہ یونانی میڈیکل کالج : پروفیسر انصاری نے کہا کہ حکیم صاحب کی زندگی ایک جہاد تھی ۔ جہالت کے خلاف ان کی جد وجہد اور ترویج علم کی خاطر ان کی قربانیوں کو رہتی دنیا تک یاد کیا جاتا رہے گا ۔ حکیم شرف الدین نے کہا کہ دنیائے طب میں انکے انتقال سے ایک ایسا خلا پیدا ہوگیا ہے جس کے مستقبل قریب میں پورا ہونے کا امکان نہیں ۔ طب یونانی کی بقاء کیلئے ضروری ہے کہ ہم ان کی بھرپور زندگی کاعکس اپنی زندگی میں اتاریں ۔ حکیم محمد یوسف بخشی نے کہا کہ حکیم صاحب صحیح معنوں میں قوم و ملت کے ہمدرد اور فن طب کے امام تھے ۔ ریجنل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف یونانی میڈیسن ممبئی : صدر حکیم محمد خورشید عالم کا تاثر
’’دنیا ایک عارضی قیام گاہ ہے جہاں ہر آنے والا تھوڑی دیر ٹھہر کر اپنی اگلی منزل کی طرف رواں دواں ہوجاتا ہے ۔ مسافروں میں ہر حیثیت و صلاحیت کے لوگ ہوتے ہیں ۔ کچھ تو ایسے ہوتے ہیں جو چپکے سے آتے ہیں اور بغیر کوئی نقش چھوڑے اس عارضی قیام گاہ سے رخصت ہوجاتے ہیں ۔ مگر بعض ہستیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جو آتی تو چپکے سے ہیں لیکن رخصت ہوتی ہیں تو اپنے پیچھے ایسے مستحکم رنگ برنگ کے نقوش چھوڑ جاتی ہیں جو مٹائے مٹ نہیں سکتے۔ مرحوم حکیم عبدالحمید کی ہستی ایسی ہی تاریخ ساز شخصیتوں میں سے ایک تھی ۔ مرحوم کی زندگی کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ مرحوم کا وجود طب یونانی کے فروغ اور بقا کے لئے ہی تھا ۔ اگرچہ حکیم صاحب نے دیگر شعبہ جات میں بھی نمایاں کارکردگی انجام دی ہیں ، مگر اس کی حیثیت ثانوی ہوکر رہ جاتی ہے ۔ آپ نے طب کی بقاء کیلئے جس ادارہ کی باگ ڈور سنبھالی ، دنیا اس کو ’’ہمدرد دواخانہ‘‘ کے نام سے جانتی ہے جو افق ہستی پر عظیم ترین یونانی دواخانہ کی حیثیت سے نمودار ہو کر کروڑوں لوگوں کے دردکا مداوا بن گیا جس کا تسلسل ہنوز جاری ہے ۔
اجمل خاں طبیہ کالج دہلی : پروفیسر انیس احمد انصاری پرنسپل اجمل خاں طبیہ کالج نے کہا کہ حکیم عبدالحمید صاحب ایک دور اندیش اور مدبر انسان تھے ۔ انھوں نے مسلمانوں کی تعلیم و ترقی کیلئے کافی پہلے ہی ایک منصوبہ بنا رکھا تھا ، جس کے لئے وہ تقسیم ہند سے پہلے سے ہی کوشاں تھے ۔ جامعہ ہمدرد فاؤنڈیشن ان کی کوششوں کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ پروفیسر نعیم احمد خاں سابق ڈین فیکلٹی آف یونانی میڈیسن نے کہا کہ بڑے حکیم صاحب 92 سال کی عمر میں انتقال ہوا ۔ ان کے اثرات نہ صرف یہ کہ بیسویں صدی پر محیط ہیں بلکہ آنے والی صدی میں بھی طب کی ترویج و ترقی اور آنے والے مسائل کا سامنا کرنے میں ان کے افکار ہی لائحہ عمل متعین کریں گے ۔ سرسید کے بعد حکیم صاحب ہی وہ واحد ہستی ہیں جنھوں نے مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کا ایک جامعہ خاکہ بنایا اور اس کو عملی جامہ پہنایا اور طلباء کے اندر خود اعتمادی پیدا کی ۔