حکومت ہند کی پاکستان پالیسی میں سنجیدگی کا فقدان آشکار

برکھا دت
کرتارپور میں جب میری ملاقات ہرسمرت کور بادل سے ہوئی، وہ بجا طور پر جذبات سے مغلوب نظر آئیں۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ ’’میرے پاس (جذبات کے اظہار کیلئے) الفاظ نہیں ہیں، سارا ماحول جذبات سے مغلوب ہے‘‘۔ ایک پنجابی کی حیثیت سے جس کی فیملی نے تقسیم ہند کے دوران سیالکوٹ سے ترکِ وطن کیا، میں اس گہرے احساس سے جڑ سکتی ہوں جو پرتشدد نقل مکانی کسی کمیونٹی کے اجتماعی ردعمل میں مرتب کرسکتی ہے۔ چنانچہ اُس مقام پر جہاں گرو نانک نے اپنے آخری برس گزارے، اُن کا آنکھوں میں نمی کے ساتھ بھرائی آواز میں بولنا بہت متاثرکن رہا۔
مگر مسئلہ یہ ہے : ایک طرف وہ پاکستانی سرحدی گاؤں میں کھڑی تھیں اور انھوں نے وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے دیوارِ برلن گرنے سے تقابل کا حوالہ دیتے ہوئے یہ اشارہ دیا کہ کس طرح ہند۔پاک رشتے میں بڑھتی خلیج کو پاٹا جاسکتا ہے، دوسری طرف وزیر خارجہ سشما سوراج نے بہ یک وقت دہلی میں بات کرتے ہوئے اس طرح کے کسی بھی خیال کو رد کردیا۔ جہاں ہرسمرت نے باضابطہ کہا کہ کس طرح گرو نانک کا پیام نئی شروعات کیلئے بہت مناسب راہ ہے، وہیں سشما نے زور دیا کہ کس طرح کرتارپور کو بات چیت کے وسیع تر عمل کے کسی احیاء سے نہیں جوڑا جاسکتا ہے۔ کانگریس کے بیانات میں اسی نوعیت کی عدم ہم آہنگی پائی گئی۔ جہاں چیف منسٹر پنجاب امریندر سنگھ نے کرتاپور کاریڈر کی رسمی تقریب کیلئے شرکاء میں شامل ہونے کیلئے پاکستان کی دعوت کو مسترد کردیا، وہیں اُن کے کابینی رفیق نوجوت سنگھ سدھو پاکستان میں زیادہ تر توجہ حاصل کرگئے۔ جہاں کہیں ہم گئے …میں 22 ہندوستانی جرنلسٹوں میں شامل رہی جنھیں اس ایونٹ کی رپورٹنگ کیلئے حکومت پاکستان کی جانب سے مدعو کیا گیا… سدھو کو کسی لوک ہیرو کی مانند ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ اُن کے پُرمعنی فقروں و جملوں والا اسٹائل، ٹیلی ویژن پر اُن کے بیتے برسوں کی یادوں وغیرہ نے انھیں سوپرہٹ بنادیا۔ بعض پاکستانیوں نے از راہ مزاح کہا کہ گزشتہ چند دنوں میں اُن کے ٹی وی چیانلوں پر خود اُن کے وزیراعظم سے کہیں زیادہ سدھو دکھائی دیئے ہیں۔
سکھ یاتریوں نے جن سے میری ملاقات ہوئی، اس بات کا تذکرہ کیا کہ کس طرح ’مہاراجہ آف پٹیالہ‘ نے کرتارپور صاحب کو بحال کیا اور کہا کہ کاش! کیپٹن امریندر سنگھ بھی موجود رہتے ہوئے اپنی فیملی کی میراث کو آگے بڑھاتے۔ کیپٹن صاحب نے خالصتانی انتہا پسندی دوبارہ سر ابھارنے کے تعلق سے تشویش کا اظہار کیا ہے اور مودی حکومت نے نشاندہی کی ہے کہ کس طرح حافظ سعید اور مسعود اظہر پاکستان میں انصاف کے کٹہرے سے لگاتار بچ نکلتے ہوئے آزادانہ سرگرم ہیں۔ یہ واجبی اندیشے ہیں۔ لیکن خود وزیراعظم ہی نے سب سے پہلے کرتاپور کاریڈر کیلئے دیوارِ برلن کا استعارہ استعمال کیا تھا جس نے فوری امن مساعی کو کافی بلند تر ماحول تک پہنچایا۔ بی جے پی سدھو کو شاید ہی قوم دشمن قرار دے سکتی ہے جبکہ خود اُس نے دو مرکزی وزراء کو پاکستان میں افتتاحی تقریب میں ہندوستان کی نمائندگی کیلئے بھیجا اور جنھوں نے سدھو ہی سے تحریک پاکر اس موقع کو معطل رشتے کا احیاء کرنے کا ممکنہ موقع بتایا ہے۔ اسی طرح کانگریس بھی شاید بی جے پی کو بے ڈھنگی پاکستان پالیسی رکھنے کا مورد الزام نہیں ٹہرا سکتی ہے کیونکہ خود اُس کے چیف منسٹر پنجاب اور اُن کے رفیق اس طرح کے کافی حساس مسئلے پر ایک دوسرے سے آنکھیں چراتے ہیں۔
جب میں نے ہرسمرت کور بادل، ہردیپ پوری اور نوجوت سدھو کو کرتارپور کی تقریب میں عمران خان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے دیکھا، میں نے سوچا کہ اُن کی اپنی آبائی ریاست کیلئے یہ کس طرح طاقتور تصویر ثابت ہوسکتی ہے۔ آخر کو جب انگریزوں نے تقسیم کے دوران ہندوستان کو ’کاٹ‘ ڈالا، تب پنجاب کو ہی سب سے زیادہ خوفناک ماحول سے گزرنا پڑا تھا۔ لیکن متحدہ محاذ کے فقدان اور وطن میں دیسی سیاسی تفرقوں کے شور نے اُس لمحہ کی طاقت کو ماند کیا اور ہندوستان کے داخلی اختلافات کو آشکار کردیا۔ یہ بالکلیہ سادہ یا اتفاقی معاملہ نہیں ہوسکتا کہ افتتاحی تقریب میں پاکستان نے تنہا سدھو کی تعریف و ستائش کی۔ پاکستانیوں نے ظاہر طور پر اکالیوں اور کانگریس کے درمیان اختلاف کو محسوس کرلیا اور شاید اس کا فائدہ اٹھایا ہے۔ حتیٰ کہ کرتارپور ایونٹ میں تعارفی ویڈیو میں سدھو کو نمایاں رول میں پیش کیا گیا۔ ہرسمرت کور کو عمران خان اور سدھو کے درمیان مضبوط اور نمایاں شخصی تال میل پر ظاہری بے چینی میں دیکھا گیا۔ چنانچہ اسٹیج سے انھوں نے مکاری سے کہہ دیا کہ پاکستان میں اُن کے کوئی دوست یا رشتے دار نہیں ہیں؛ وہ یہاں گرو نانک کی پکار پر آئی ہیں۔
ہندوستان کے سیاسی اختلافات سب کیلئے آشکار ہوئے۔ بے شک، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پاکستان یک آواز ہے یا اپنی انڈیا پالیسی میں پُراستقلال ہے۔ جب شاہ محمود قریشی سے اسلام آباد میں ہماری ملاقات ہوئی، انھوں نے واضح طور پر کہا: ’’یہ کوئی گوگلی نہیں ہے‘‘ کہ اپنے ارادوں کی سنجیدگی پر زور ڈالا جاسکے۔ ایک روز بعد کسی عوامی تقریب میں انھوں نے موقف یکسر بدل ڈالا اور شیخی بگھاری کہ اُن کی حکومت نے گوگلی پھینکی جس نے ہندوستان کو دو وزراء کو پاکستان بھیجنے پر مجبور کیا۔ ایسی شیخی پر ہندوستان کو خلش ہوگی جیسا کہ ہونا بھی چاہئے۔ دہشت گردی کے نمایاں موضوع کے ساتھ ایسے کئی شدید اور پیچیدہ مسائل ہیں جو ہمارے اور امن مساعی کے درمیان حائل ہیں۔ لیکن اس سے ہماری پاکستان پالیسی کے انتشار کی وضاحت نہیں ہوتی ہے۔ اور بدبختی سے کرتارپور ایونٹ پر رویہ نے تیاری اور سنجیدگی دونوں کے فقدان کو بے نقاب کردیا، جس نے بصورت دیگر مذہبی پرہیزگاری اور مشترک تاریخ کے شاندار لمحہ کو ماند کیا ہے۔