حکومت پردہ پوشی میں بہت مصروف ہے لیکن

رشیدالدین
جس طرح کسی برانڈ ایمبسڈر کا کام کمپنی اور اس کے پراڈکٹ کی خامیوں کی پردہ پوشی کرتے ہوئے اس کی تعریف کرنا ہوتا ہے، ٹھیک اسی طرح نریندر مودی باہری دنیا میں بی جے پی اور مرکزی حکومت کے برانڈ ایمبسڈر کا رول نبھا رہے ہیں۔ نریندر مودی جس طرح دنیا بھر میں ہندوستان کی تصویر پیش کر رہے ہیں، اگر اس پر اعتبار کرلیا جائے تو ہندوستان حقیقی معنوں میں امن ، محبت ، بھائی چارہ اور مذہبی رواداری کا گہوارہ دکھائی دے گا۔ چونکہ دنیا بھر میں انفارمیشن ٹکنالوجی زندگی کا لازمی حصہ بن چکی ہے، لہذا اکثر و بیشتر پروپگنڈہ مہم کے ذریعہ ہی بڑے ممالک اپنے مفادات کی تکمیل کر رہے ہیں۔ نریندر مودی کو اسی پروپگنڈہ مہم کیلئے بی جے پی اور سنگھ پریوار نے شائد مخصوص کردیا ہے۔ عام طور پر دنیا والے اسی پروپگنڈہ مہم کا شکار ہوجاتے ہیں۔ لہذا نریندر مودی ہندوستان کی تصویر سونے کی چڑیا کہے جانے والے ہندوستان کی طرح پیش کر رہے ہیں۔ نریندر مودی کو پارٹی نے انتخابی مہم کی کمان سونپی تھی اور انہوں نے اپنی لفاظی اور جادو بیانی کے ذریعہ رائے دہندوں کو سنہرے ہندوستان کا خواب دکھایا تھا لیکن اقتدار حاصل ہوگیا تو وزیراعظم کو دنیا بھر میں ہندوستان کے امیج کو سدھارنے کے کام پر لگادیا گیا۔ عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام نریندر مودی نے ملک کے عوام کو چہرہ دکھانے سے بچنے کیلئے بیرونی دوروں کا سہارا لے لیا۔ وزیراعظم سے زیادہ وہ برانڈ ایمبسیڈر کا رول نبھاتے ہوئے دوسرے ممالک میں ہندوستان کی مارکیٹنگ میں مصروف ہوچکے ہیں۔ ایک سال کی مدت میں انہوں نے 16 ممالک کا دورہ کیا جبکہ ملک کی 16 ریاستوں کا ابھی تک دورہ نہیں کیا ۔ وزیراعظم ملک سے زیادہ بیرون ملک وقت گزار رہے ہیں اور درمیان میں چھٹیوں یا ووکیشن پر جیسے ہندوستان میں دکھائی دے رہے ہیں ۔

اب وہ چین کے دورہ کی تیاری کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب حکومت کے کام کاج کی ذمہ داری کسی اور کی ہو تو پھر کٹھ پتلی وزیراعظم کو بیرونی دوروں میں عافیت محسوس ہوگی۔ اگر یہی رفتار رہی تو 5 برسوں میں مودی نصف سے زیادہ دنیا کا سفرمکمل کرتے ہوئے عالمی ریکارڈ بنالیں گے۔ ملک میں مذہبی رواداری ، مذہبی آزادی ، تمام مذاہب کے ساتھ یکساں سلوک کے بارے میں جس انداز سے مہم چلائی جارہی ہے، وہ باعث حیرت ہے۔ حکومت اور جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کی سرگرمیوں کے برعکس تصویر دنیا کو دکھائی جارہی ہے۔ جس طرح دنیا کا دل جیتنے کی کوشش ہے ، کاش ملک کے عوام کا دل جیتنے کی کوشش کی جاتی لیکن اس کیلئے عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل کرنا پڑے گا۔ انتخابات تک عوام کو ہتھیلی میں جنت دکھائی گئی۔ اچھے دن کا وعدہ کیا گیا۔ برسر اقتدار آتے ہی 100 دن میں ہر شہری کے اکاؤنٹ میں 15 لاکھ روپئے جمع کرنے کا لالچ دیا گیا لیکن حکومت کا ایک سال مکمل ہونے کو ہے، کسی کو 15 روپئے بھی نہیں ملے ۔ اب تو کہا جارہا ہے کہ 15 لاکھ کا وعدہ محض انتخابی چال تھی۔ انتخابات سے قبل نریندر مودی کو بیرونی ملک کالے دھن کی تفصیلات معلوم تھیں لیکن اب شائد تفصیلات پر مشتمل ان کی ڈائری کھو گئی ہے یا پھر کمپیوٹر سے ڈاٹا ڈیلیٹ ہوگیا ہے ۔ لہذا حکومت کالے دھن کی حقیقی لاگت سے لاعلمی کا اظہار کر رہی ہے۔

صرف 15 لاکھ روپئے کا وعدہ ہی نہیں، بی جے پی کے تمام انتخابی وعدے اور نریندر مودی کے اعلانا ت محض انتخابی حربہ ثابت ہورہے ہیں۔ جس طرح حکومت کے 11 ماہ میں عوام کا سامنا حقیقت سے ہونے لگا ہے، اسی طرح دنیا کے سامنے بی جے پی حکومت کی سچائی آشکار ہوجائے گی۔ بیرونی دوروں کے موقع پر لاکھ دعوے کئے جائیں اور بین الاقوامی میگزینس کا سہارا لیا جائے لیکن حقیقت بہرحال تبدیل نہیں ہوسکتی۔ نریندر مودی نے ٹائم میگزین کو اپنے تازہ ترین انٹرویو میں امریکہ کو ہندوستان کا فطری حلیف قرار دیا ہے۔ یہ وہی میگزین ہے جس میں امریکی صدر براک اوباما نے مودی کا پروفائل تحریر کرتے ہوئے انہیں مصلح اعظم قرار دیا تھا اور اب امریکہ کو فطری حلیف قرار دے کر مودی نے جوابی خیرسگالی کا مظاہرہ کیا ہے۔ مودی نے ہندوتوا کے ایجنڈہ پر گامزن حکومت کو مذہبی رواداری ، یکساں ترقی اور دستوری آزادی سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ جس اوباما نے مودی کو مذہبی آزادی کا درس دیا تھا، اسی ملک کے میگزین کے ذریعہ دنیا کے تاثر کو بدلنے کی کوشش کی گئی۔ نریندر مودی کے انٹرویو سے حکومت ، بی جے پی اور خود نریندر مودی کے قول و فعل میں تضاد واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے ۔ انہوں نے دہشت گردی کو کسی مذہب سے جوڑنے کی مخالفت کی لیکن بی جے پی اور سنگھ پریوار ملک میں مسلمانوں اور اسلام کو دہشت گردی کے حوالے سے بدنام کرنے کا کوئی موقع نہیں گنواتے۔ قائدین نے یہاں تک کہہ دیا کہ بھلے ہی ہر مسلمان دہشت گرد نہیں لیکن دہشت گردی کے الزام میں اب تک جو بھی گرفتار کئے گئے ، ان میں زیادہ تر مسلمان ہیں۔ مودی نے بی جے پی اور حکومت کا فلسفہ مذہبی رواداری اور سب کا ساتھ ، سب کا وکاس قرار دیا۔ انہوں نے دہرایا کہ حکومت کی مذہبی کتاب دستورِ ہند ہے۔ جب مذہبی رواداری حکومت کا فلسفہ ہے تو جارحانہ فرقہ پرستی کے پرچارکوں کو کھلی چھوٹ کیوں ہے ؟ فسادات اور اشتعال انگیزی میں ملوث افراد کابینہ میں کیوں شامل کئے گئے ۔ آج تک کسی کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ منافرت پھیلانے کو برداشت نہ کرنے کا دعویٰ کرنے والے نریندر مودی کاش ٹائم میگزین کو یہی بتاتے کہ کتنے افراد کے خلاف کارروائی کی گئی جنہوں نے مذہبی اقلیتوں کے خلاف زہر افشانی کی تھی، وہ آج بھی اسی کام میں مصروف ہیں۔ صرف زبانی اعلانات اور میگزینس کے ذریعہ دنیا کو خوش فہمی میں مبتلا کرنے کی کوشش دیرپا ثابت نہیں ہوسکتی۔ ا

گر ملک کی مذہبی کتاب دستور ہند ہے تو پھر جاپان کے شہنشاہ کو وزیراعظم مودی نے بھگوت گیتا کا تحفہ کیوں پیش کیا تھا؟ دیگر سربراہان مملکت کو گیتا کیوں پیش کی گئی؟ اس حرکت کے ذریعہ نریندر مودی نے ثابت کردیا کہ وہ مخصوص فرقہ اور عقیدہ کے وزیراعظم ہیں۔ اگر دستور ہند مذہبی کتاب ہے تو اسے گیتا کے بجائے تحفتاً پیش کرنا چاہئے تھا۔ اگر نریندر مودی کا دعویٰ درست ہے تو پھر اسکولوں میں بھگوت گیتا ی تعلیم کے لزوم اور نصابی کتب میں ہندو مذہب کی تاریخ شامل کرتے ہوئے تعلیم کو زعفرانی رنگ دینے کی کوشش کیوں ہے ؟ ٹائم میگزین یا بیرونی اداروں میں اس طرح کے دعوے کرنا کوئی کمال نہیں ۔ مودی کو ناگپور میں آر ایس ایس ہیڈکوارٹر میں اس بات کو دہراکر سچائی کا ثبوت دینا چاہئے، اسی وقت قوم ان پر بھروسہ کرے گی۔
ایسے وقت جبکہ مرکز کی بی جے پی حکومت ایک سال میں عوامی وعدوں کی عدم تکمیل کے باعث فکرمند ہے، تو دوسری طرف کانگریس پارٹی نے عوامی مسائل پر جدوجہد کا آغاز کرتے ہوئے بی جے پی کے مسائل میں اضافہ کردیا ہے۔ کانگریس کے یوراج راہول گاندھی نے اپنے طویل آرام کے بعد جارحانہ انداز میں واپسی کی، اسی طرح پارٹی کی صدر سونیا گاندھی بھی جدوجہد کیلئے میدان میں ٹوٹ پڑی ہیں۔ گزشتہ عام انتخابات میں کانگریس کی بدترین شکست سے پارٹی ابھر نہیں پائی تھی کہ مرکز نے اپنی عدم کارکردگی کے ذریعہ کانگریس کو واپسی کا موقع فراہم کردیا۔ عوامی مسائل پر حکومت سے ٹکراؤ کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے کانگریس دوبارہ قومی سیاست میں واپسی کی جدوجہد کر رہی ہے۔ جس انداز میں راہول گاندھی اور سونیا گاندھی نے حکومت کے خلاف مورچہ سنبھالا ہے ، اسے راکھ کے ڈھیر میں امید کی ایک چنگاری کہا جاسکتا ہے۔ پارلیمنٹ اور اس کے باہر راہول گاندھی نے جس طرح اپنے مظاہرے سے عوام کا دل جیتنے کی کوشش کی ہے

، انہیں غیر متوقع عوامی تائید حاصل ہونے لگی ہے۔ ملک میں عام آدمی بطور خاص مختلف مسائل کا شکار ہیں اور ایک سال کے عرصہ میں حکومت نے مسائل میں کمی کے بجائے مزید اضافہ کردیا ۔ راہول گاندھی لوک سبھا میں قائد اپوزیشن کی طرح رول ادا کر رہے ہیں، جبکہ سونیا گاندھی قائدین اور پارٹی کے عوامی نمائندوں کی رہنمائی کر رہی ہیں۔ کانگریس نے طئے کرلیاہے کہ وہ حکومت کی ناکامیوں پر عوام سے رجوع ہوگی تاکہ آئندہ بعض ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں کامیابی نہ سہی بی جے پی کے بڑھتے قدم کو روکا جاسکے۔ کانگریس نے بہار ، اترپردیش اور مغربی بنگال میں سیکولر پارٹیوں سے مفاہمت کے ذریعہ بی جے پی سے مقابلہ کا فیصلہ کیا ہے۔ جس طرح حکومت کی کارکردگی مایوس کن ہے ، اس اعتبار سے تینوں ریاستوں میں بی جے پی کی کامیابی کا راستہ آسان نہیں۔ نریندر مودی حکومت نے داؤد ابراہیم کی واپسی کو انتخابی موضوع بنایا تھا لیکن آج حکومت داؤد ابراہیم کے ٹھکانے سے لاعلمی کا اظہار کر رہی ہے۔ بی جے پی نے انتخابی مہم کے دوران ممبئی بم دھماکوں کے حوالے سے داؤد ابراہیم کو ملک واپس لانے کی بات کہی تھی لیکن پارلیمنٹ میں ایک سوال کے جواب میں مملکتی وزیر داخلہ نے داؤد کے ٹھکانے سے لاعلمی کا اظہار کردیا۔ دراصل یو پی اے دور حکومت میں اسی طرح کے سوال پر جو جواب دیا گیا تھا، اسی جواب کو بی جے پی حکومت نے حرف بہ حرف دہرادیا ہے۔ دراصل اپنی ناکامیوں اور عوامی مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے مرکز نے داؤد ابراہیم اور سلمان خاں کی سزا جیسے امور کا سہارا لینے کی کوشش کی ہے۔ سیاسی سطح پر اور میڈیا کے ذریعہ ان دونوں شخصیتوں کے معاملات کو اس قدر اچھالا جارہا ہے کہ عوام اپنے مسائل کو بھول کر الجھ کر رہ جائیں۔جس طرح میڈیا نے انتخابات میں کامیابی کیلئے بی جے پی کی مہم چلائی تھی ، اسی طرح عوامی مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے داؤد ابراہیم کی واپسی اور سلمان خاں کی سزا کے مسئلہ کو ہوا دی جارہی ہے۔ٹائم میگزین کے انٹرویو میں نریندر مودی کے قول و فعل میں تضاد پر منور رانا کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
حکومت پردہ پوشی میں بہت مصروف ہے لیکن
کہاں سے آرہا ہے یہ دھنواں بچے سمجھتے ہیں