تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
تلنگانہ عوام کو خاص کر مسلمانوں کو صبر و شکیب کی ہمت دکھانے کا وقت آگیا ہے کیوں کہ ان کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والی جماعت کے قائدین نے حکومت کے ساتھ نیاز عشق کے دعوؤں کے ساتھ ناز حسن کا مظاہرہ کرنا شروع کیا ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک منظم منصوبہ کے تحت حکمراں پارٹی اور مقامی جماعت نے اپنے سیاسی گھر میں آرزوں کا چراغ جلانے کے لیے مسلمانوں کو جھوٹے وعدوں سے سلایا ہے ۔ ایوان اسمبلی میں مسلمانوں کی ترقی و خوشحالی کے لیے حکومت پر اس کے وعدوں کی تکمیل کے لیے زور دینے کے بجائے کچھ اور ہی نظارے دیکھنے کو مل چکے ہیں ۔ ان کے ووٹرس میں آیا اتنی ہمت ہے کہ وہ اپنے نمائندوں کو ڈھونڈ کر ایک سوال ان کے حضور دراز کرسکیں کہ آپ مسلمانوں کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کیا قربانی دے سکتے ہیں تو ان کا جواب کیا ہوگا وہ آپ کو گمراہ کن دانش گاہ میں لے جاکر سوال ہی بھولا دیں گے ۔ ایسا لگتا ہے کہ مسلمانوں میں شعوری فکر پھر سے ٹھٹھر رہی ہے ۔ اسی لیے ان کی قیادت کا دعویٰ کرنے والوں نے حکمراں پارٹی سے ہاتھ ملا کر ان کے تمام ترقی کے امکانات کو موہوم کردیا ہے ۔ کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ مستقبل قریب میں مسلمانوں کا کیا ہونے والا ہے اور ان مسلمانوں کے لیے تحفظات کے مسئلہ پر کس کی سیاست چمکے گی اور کس کی سیاست کا سورج غروب ہوگا ۔
اپوزیشن پارٹی کانگریس کو اپنی دنیا میں مگن دیکھا جارہا ہے ۔ اسے مسلمانوں کے حق میں زیادہ سے زیادہ بولنے کی توفیق نہیں ہورہی ہے ۔ کانگریس کے چند ہی بلکہ ایک یا دو قائدین ہی مسلمانوں کے لیے دبے ہونٹ بیان دیتے ہیں جن کی کانگریس پارٹی کے اندر ہی کوئی اہمیت نہیں ہوتی تو حکمراں پارٹی کے نزدیک کیا درجہ حاصل کرسکیں گے ۔ کانگریس کو تلگو دیشم سے جب ریونت ریڈی مل گئے اب ٹی آر ایس سے فلمی اداکارہ وجئے شانتی کی جانب سے سہارا ملنے کے امکانات بڑھنے کے بعد پارٹی نے تلنگانہ میں خود کو کامیاب تصور کرنا شروع کردیا ہے ۔ کانگریس قیادت ہر طرح کی کوشش کے ذریعہ دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کا تہیہ کرلیا ہے ۔ تلگو فلموں میں اپنے منفرد کردار سے مشہور راملماں کی حیثیت سے مقبول اداکارہ وجئے شانتی نے ٹی آر ایس میں رہ کر اپنی طاقت کو کمزور کرلیا تھا اب وہ کانگریس میں اپنی سیاسی قسمت چمکانے کی فکر میں نائب صدر راہول گاندھی سے ملاقات کرچکی ہیں ۔ 2014 کے انتخابات میں شکست کے بعد وہ سرگرم سیاست سے دور ہوگئی تھیں لیکن کانگریس ہائی کمان نے انہیں تلنگانہ کی انقلابی لیڈی لیڈر کے طور پر پیش کرنے کا وعدہ کر کے انتخابی مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ ریونت ریڈی کی طرح وجئے شانتی کو بھی تلنگانہ کانگریس میں اہم عہدہ دیا جانے کا تیقن دیا گیا ہے ۔ تلنگانہ تحریک کے وقت جب وہ بی جے پی میں تھیں تو انہوں نے ٹی آر ایس قیادت کو شدید چیلنج کھڑا کیا تھا لیکن بعد ازاں انہوں نے اپنی خود کی پارٹی تلی تلنگانہ قائم کی اور 2009 میں ٹی آر ایس میں ضم کرلیا بعد ازاں وہ ٹی آر ایس سے بھی علحدہ ہو کر کانگریس میں شامل ہوگئیں ۔
ایک قومی پارٹی کو ان کمزور علاقائی قائدین کے سہارے سے کامیابی ملے گی یہ توقع نہیں کی جاسکتی ۔ تلنگانہ میں بعض قائدین کی حلقہ بندیوں نے عوام کو بھی مایوس کردیا ہے ۔ خاص کر مسلمانوں کو ان کے نمائندوں کی حلقہ بندی نے تشویش میں مبتلا کردیا کیوں کہ ووٹ لینے کے وقت یہ لوگ حکومت کے خلاف جم کر تقریر کرتے ہیں اور ووٹ ملنے کے بعد حکومت کے گن گاتے ہیں ۔ اپنی اس مفاد پرستی کو وہ مسلمانوں کے حق میں ایک حکمت عملی کے طور پر ظاہر کرتے رہتے ہیں ۔ جو اپنے خلاف ایک لفظ بھی سننے تیار نظر نہیں آتے اور تعمیری تنقید کو برداشت نہیں کرتے بلکہ جواب میں ان کی گڑبڑ پھر لمبی زبانیں شعلے اگلنے لگتی ہیں ۔ شب کی تاریک ساعت کے سناٹے میں جلسوں کے اندر سیاسی کمبختوں نے عوام کو گمراہ کرنے کا ہنر سیکھا ہے ۔ اس ہنر نے اسمبلی کے اندر ٹی آر ایس کی گود میں بیٹھ کر واہ واہ کردی گئی ہے ۔ لیکن جب مسلمانوں میں شعور پیدا ہوگا تو سیاسی قسمت کے منہ پر اب کی بار ایسی کالی شام اترے گی کہ بس قیادت کو اپنے گناہوں پر توبہ بھلی لگے گی ۔ ریاستی اسمبلی کے جاریہ سرمائی سیشن میں مسلمانوں کو حکومت سے کافی توقعات تھیں مگر حکومت اور قیادت دونوں نے بھی عوام کو مایوس کردیا ہے ۔ تاہم بعض امور میں قومی سطح پر تلنگانہ حکومت کی کارکردگی کی ستائش کی جارہی ہے کیوں کہ ٹی آر ایس حکومت نے تلنگانہ کو بزنس ریفارمس ایکشن پلان پر عمل آوری میں شاندار مظاہرہ کیا ہے جب کہ نوٹ بندی کا ایک سال پورا ہونے کے بعد عوام کو راحت پہونچانے کی کوئی صورت نظر نہیں آئی ۔ اس کے باوجود نوٹ بندی کے تعلق سے مرکزی اور ریاستی دونوں حکومتوں کا دعویٰ ہے کہ نوٹ بندی سے حکومت کے خزانہ پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے ۔ گذشتہ سال 8 نومبر کو نوٹ بندی کے بعد سے بنکوں میں 70,000 کروڑ روپئے جمع ہوئے ہیں ۔ ریاستی محکمہ فینانس نے یہ وضاحت کردی ہے کہ نوٹ بندی کے بعد تلنگانہ میں رقمی امور میں کوئی گراوٹ نہیں آئی ۔ صرف چند ابتدائی دنوں میں جائیدادوں کی رجسٹری میں کمی دیکھی گئی مگر بعد میں یہ کمی بھی دور ہوگئی ۔ اسٹامپ اینڈ رجسٹریشن سے حکومت کی آمدنی بڑھی ہے تو موٹروں کے رجسٹریشن سے ہی سرکاری خزانہ بھر رہا ہے ۔ نوٹ بندی سے ریاست میں رشوت کے خاتمہ میں کامیابی نہیں ملی حال ہی میں ایک شہری تنظیم نے سروے کروایا تھا کہ ریاست میں نوٹ بندی کے بعد رشوت پر قابو پانے کے لیے کیے گئے اقدامات کے کیا نتائج برآمد ہوئے ہیں ۔ عوام کی اکثریت نے دعویٰ کے ساتھ کہا کہ وہ گذشتہ سال جس طرح کی رشوت دے کر سرکاری کام پورا کرلیتے تھے انہیں جاریہ سال بھی مجبوراً اسی طرح سے کام نمٹنا پڑرہا ہے ۔
تلنگانہ میں زائد از 1801 افراد میں سروے کروایا گیا کہ رشوت ستانی کے معاملہ میں کوئی بھی ریاست تلنگانہ یا آندھرا پردیش آگے ہے تو آندھرا کے 62 فیصد عوام نے ریاست میں پہلے کی ہی طرح رشوت کے چلن کا ادعا کیا جب کہ تلنگانہ میں 47 فیصد عوام نے رشوت کے بارے میں اپنی رائے ظاہر کی ۔ مگر یہ چالاک سیاستداں عوام کو جاہل ووٹر کے طور پر دیکھ کر اپنا اُلو سیدھا کرلیتے ہیں ۔ ان لیڈروں کا یہ رویہ بھی درست ہی ہے کیوں کہ انہیں اندازہ ہے کہ ان کے ووٹروں میں کوئی بھی شعور جگانے کی ہمت نہیں کرسکتا ۔ آخر کون ہے جو ان کی بگڑی عادتوں کو ٹھیک کرنے کا بیڑہ اٹھائے گا ۔ کسی کی ایسی جرأت ہی نہیں ہے کہ وہ ان ووٹروں کے ذہن اور سوچ کو تبدیل کرسکیں ۔ یہ لوگ نہ کبھی تبدیل ہوئے ہیں اور نہ ہی کبھی تبدیل ہوسکتے ہیں ۔ کوئی بھی اپنی ساری طاقت لگالے قیادت کو پورا یقین ہے کہ ان کے ووٹروں کو کوئی تبدیل نہیں کرسکتا ۔ اس لاشعوری کا وہ برسوں سے فائدہ اٹھاتے آرہے ہیں اور آئندہ بھی اٹھاتے رہیں گے ۔ عوام جہاں تھے وہیں رہیں گے اور یہ لوگ کہاں سے چلے تھے کہاں پہونچ گئے۔