نئی دہلی۔دہلی ہائی کورٹ میں لاء کی کچھ طالبات نے ایک درخواست داخل کرتے ہوئے مرکز اور دیگر انتظامیہ سے بارگاہ حضرت نظام الدین اولیا درگاہ میں عورتوں کے داخلے کی اجازت کے لئے احکامات جاری کرنے کی مانگ کی ہے۔
مفاد عامہ کی مذکورہ درخواست پر اگلے ہفتے سنوائی متوقع ہے‘ جس میں دعوی کیاگیا ہے کہ ہندوستان میں مذہبی روداری کی مثال سمجھے جانے والی عظیم بارگاہ کے دیواروں پر ایک نوٹس چسپاں ہیں اور اس میں صاف طور پر انگریزی او رہندی میں لکھا ہے کہ خواتین کا بارگاہ کے اندر داخلہ ممنوع ہے۔
مذکورہ لاء کی طالبات میں اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ انہوں نے انتظامیہ بشمول دہلی پولیس سے اس ضمن میں متعدد مرتبہ نمائندگیاں بھی کی ہیں مگر انہیں کوئی ردعمل نہیں ملا‘ جس کے بعد وہ ہائی کورٹ کا رخ کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
وکیل کملیش کمار مشرا کے ذریعہ درخواست عدالت میں داخل کی گئی ہے جس میں مرکز او ردہلی حکومت سے مانگ کی گئی ہے کہ وہ پولیس اور درگاہ کی دیکھ بھال کرنے والی ٹرسٹ عورتوں کے داخلہ پر لگائی گئی پابندی کو ختم کرنے کے لئے ہدایت جاری کریں اور عورتوں کے داخلہ پر امتناع کو ’’ غیر دستوری‘‘ قراردیاگیاہے۔
درخواست گذار جو پونے کے لاء اسٹوڈنٹس ہیں نے کہا ہے کہ اگر سپریم کورٹ تمام عمر کی عورتوں کو کیرالا کی سبریمالا مندر میں داخلہ کی اجازت دیتا ہے ‘ تو قومی راجدھانی کے دل میں رہنے والی عورتوں کا درگاہ میں داخلہ پر کس طرح روک لگائی جاسکتی ہے۔
درخواست گذاروں کے مطابق مذکورہ لاء اسٹوڈنٹس کی جانکاری میں یہ بات اس وقت ائی جب وہ 27نومبر کے روز درگاہ گئے تھے ۔اس میں کہاگیا ہے کہ ’’ بارگاہ نظام الدین اولیا ء ایک پبلک پلیس ہے جہاں پر جنسی بنیاد پر داخلہ کے لئے منع کرنا دستور ہند کے عین خلاف ہے‘‘۔
اس میںیہ بھیکہاگیا ہے کہ مختلف درگاہیں جیسے اجمیر شریف درگاہ اور حاجی علی درگاہ میں عورتوں کے داخلہ پر امتناع نہیں ہے