حضرت عمرؓ محبت و احترام رسولؐ

امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق ؓ کو حضور پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ اس درجہ محبت تھی کہ آپ کی خاطر جان و مال اولاد و عزیز و اقارب سب کچھ قربان کردینے تیار رہتے ۔ حضرت عمرؓ اسلامی اخلاق کامجسم نمونہ تھے ۔ بالخصوص انقطاع الی اﷲ ، خوف عدل و انصاف ، تواضع و سادگی ، جفاکشی و نفس کشی میں اپنا نظیر نہیں رکھتے تھے ۔ رات بھر نمازیں پڑھتے ، آخر رات ہوتی تو اپنے گھر والوں کو بھی جگادیتے ۔ جس رات آپ زخمی ہوئے صبح کی نماز کے واسطے اُٹھے اور کہنے لگے جو شخص نماز کو ترک کرے اس کو اسلام سے کچھ حصہ نہیں ۔ اس حالت میں کہ زخموں سے مسلسل خون بہہ رہا تھا نماز ادا فرمائی ۔ نماز میں عموماً اس قدر روتے کہ ہچکی بند ھ جاتی ۔ حضور پاک ؐ کی بعثت کے وقت قریش میں صرف سترہ آدمی لکھ پڑھ سکتے تھے ، انہی میں ایک حضرت فاروق اعظمؓ بھی تھے۔ آپ کے فرامین خطوط اورخطبوں سے آپ کی قوت تحریر ، برجستگی کلام اور زور تقریر ظاہر ہے۔ شاعری میں خاص مہارت رکھتے تھے ۔ علم الانساب میں یدطولیٰ حاصل تھا ۔ عبرانی زبان بھی سیکھ لی تھی۔ آپ اپنے خوردونوش ، لباس و وضع قطع اور نشست و برخواست غرض ہرچیز میں حضور پاکؐ کی مکمل پیروی کو ضروری سمجھتے تھے ۔ حضرت امام بخاریؒ امیرالمومنینؓ کے غلام اسلمؓ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ہمیشہ یہ دُعا کرتے تھے کہ اے میرے رب مجھکو اپنی راہ میں شہادت نصیب فرما اور میری موت تیرے رسول حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ ﷺ کی بستی مبارک میں ہو۔ آپ کی یہ دعا قبول ہوئی اور ماہِ ذی الحجہ ۲۳؁ ھ ختم تین روز آپ بقید حیات جسمانی رہے اور چوتھے دن جوکہ غرّہ محرم الحرام ۲۴؁ ہجری اس عالم فانی سے دارالبقاء کو رحلت فرمائی ۔ ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے امیرالمؤمنین حضرت عمرؓ کی شہادت کے دن فرمایا کہ آج اسلام کمزور ہوگیا ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔