حضرت علی مرتضیٰ ؄ کی جاں نثاری

مولانا غلام رسول سعیدی

اعلانِ نبوت کے بعد تین سال تک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خفیہ طریقے سے تبلیغ کرتے رہے، خاص خاص لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے اور ان میں سے اکثر قبول کرلیتے۔ اعلانِ نبوت کے چوتھے سال حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوا کہ کھلے عام تبلیغ کیجئے اور اس کی ابتداء اپنے قریبی رشتہ داروں سے کیجئے۔ حضورﷺ نے کوہِ صفا پر چڑھ کر اپنے خاندان کے لوگوں کو جمع کیا اور ان کو عذاب الہٰی سے ڈرایا، لیکن ابولہب نے آپﷺ کی شان میں بدتمیزی کرکے مجمع کو منتشر کردیا۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار پھر اپنے اقرباء کو جمع کیا اور چالیس افراد کی دعوت کی، جن میں حضرت حمزہ اور حضرت عباس کے علاوہ ابوطالب اور ابولہب بھی تھے۔ دعوت سے فارغ ہونے کے بعد حضورﷺ نے فرمایا: ’’اے بنو عبد المطلب! میں تمہارے سامنے دنیا اور آخرت کی بہترین نعمتیں پیش کرتا ہوں، بتاؤ اس معاملے میں کون میرا ساتھ دے گا؟‘‘۔ یہ سن کر ساری محفل پر سکوت طاری ہو گیا۔ اس خاموشی میں اگر کسی کی آواز اُبھری تو وہ حضرت سیدنا علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ تھے۔ انھوں نے فرمایا: ’’اگرچہ میری عمر سب سے چھوٹی ہے، میری آنکھیں دُکھتی ہیں اور میری ٹانگیں پتلی ہیں، لیکن اسلام کی راہ میں میں آپ کا ساتھ دوں گا‘‘۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بار بار اپنے اقرباء سے اسلام کی راہ میں تعاون کی اپیل کرتے رہے، لیکن ہر بار جواب میں صرف حضرت علی کی آواز سنائی دیتی تھی۔

مکہ میں تیرہ سال گزارنے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کا حکم ہوا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کاشانۂ اقدس کے گرد کفار نے گھیرا ڈال رکھا تھا اور اس انتظار میں تھے کہ کب آپﷺ گھر سے باہر نکلیں اور آپ کو شہید کردیا جائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ان دشمنانِ جاں کی بہت سی امانتیں تھیں، آپﷺ نے حضرت علی سے فرمایا: ’’میں جا رہا ہوں، تم ان لوگوں کی امانتیں ان کے سپرد کرکے مدینہ چلے آنا‘‘۔ چنانچہ حضرت علی بے خوف و خطر حضورﷺ کے بستر پر سو گئے، صبح کو کفار برہنہ تلواریں لے کر کاشانۂ اقدس میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ حضورﷺ کی بجائے آپ کا ایک جاں نثار موت و حیات سے بے پرواہ آپﷺ کے بستر پر سو رہا ہے۔ تین چار دن بعد حضرت سیدنا علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ مدینہ ہجرت کرگئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جاملے۔

حضرت سیدنا علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ نے اپنے خون سے اسلام کی آبیاری کی ہے۔ آپ کی تیغ بے نیام نے اَن گنت کفار کو اسلام دشمنی کی سزا دی۔ آپ ہمیشہ بڑھ کر وار کرتے تھے۔ اسلام کی راہ میں کفار کے بچھائے ہوئے تمام کانٹوں کو آپ ایک ایک کرکے ہٹاتے چلے گئے۔ آپ کے غزوات کی ابتداء بدر سے ہوئی۔ قریش کا دستور تھا کہ پہلے فرداً فرداً مقابلہ کے لئے نکلتے، پھر عام لڑائی شروع ہوتی۔ کفار کی طرف سے امیر لشکر عتبہ، ولید اور شیبہ مقابلہ کے لئے نکلے، جن کے مقابلہ میں تین انصاری نوجوان آئے، لیکن کفار نے انصار کو کمتر سمجھتے ہوئے ان سے لڑنے سے انکار کردیا اور کہا: ’’ہمارے ہم سر جوانوں کو مقابلہ میں لاؤ‘‘۔ اس وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حمزہ، حضرت علی اور حضرت عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو مقابلہ میں بھیجا۔ حضرت سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عتبہ کو واصلِ جہنم کیا اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک ہی وار میں ولید کو تہ تیغ کردیا۔ دوسری طرف شیبہ نے حضرت عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو زخمی کردیا تھا، لیکن حضرت علی مرتضیٰ نے آگے بڑھ کر ایک ایسا وار کیا کہ شیبہ بھی قتل ہو گیا۔

غزوۂ بدر کے بعد حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے حضرت علی سے کہا کہ ’’وہ حضورﷺ کی محبوب صاحبزادی سے نکاح کی درخواست کریں‘‘۔ جب حضرت علی نے نکاح کی درخواست کی تو حضورﷺ نے پوچھا: ’’تمہارے پاس مہر ادا کرنے کے لئے کچھ ہے؟‘‘۔ عرض کیا: ’’ایک گھوڑا اور زرہ کے سواء کچھ نہیں ہے‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’گھوڑا کو جہاد کے لئے رکھو اور زرہ کو فروخت کردو‘‘۔ حضرت علی نے یہ زرہ چار سو اَسّی درہم میں فروخت کی اور قیمت لاکر حضورﷺ کی خدمت میں پیش کردی۔ حضورﷺ نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ بازار سے عطر اور خوشبو خریدکر لائیں، اس کے بعد آپﷺ نے خود نکاح پڑھایا اور خیر و برکت دعا دی۔ (اقتباس)