حضرت عبداللہؓ بن رواحہ کی زندگی محبت ِ الٰہی ، عشق رسول اور دین حق سے عبارت

حیدرآباد ۔ 8 فروری ( پریس نوٹ) مدینہ منورہ کے انصار صحابہ میں جو سابقین اولین میں شمار ہوتے ہیں ان میں ایک نمایاں ہستی حضرت عبداللہؓ بن رواحہ بھی تھے وہ نہ صرف یہ کہ ایام جاہلیت میں لکھنے پڑھنے سے واقف تھے بلکہ بلند پایہ شاعر بھی تھے اور جنھیںنہ صرف عقبہ کے ستر افراد میں شمولیت کا افتخار حاصل تھا بلکہ انصار کے بارہ نقیبوں میں سے ایک ہونے کا اعزاز بھی ملا۔ حضرت عبداللہؓ بن رواحہ جری، حوصلہ مند اور فن حرب کی تمام باریکیوں سے واقف تھے یہی وجہ ہے کہ غزوہ بدر میں ان کی شجاعت اور حکمت معرکہ آرائی نے بڑے کام انجام دیے ان کے کلاہ شرف میں طرئہ مزید، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا انھیں اہل العالیہ کی طرف غزوئہ بدر میں مسلمانوں کی نصرت کی خوش خبری سنانے کے لئے بھیجنا تھا انھوں نے الموعد میں نیابت کا شرف بھی پایا تھا۔ غزوہ احد، خندق، صلح حدیبیہ، غزوہ خیبر کے بشمول عمرۃ القضاء میں شریک رہے اس موقع پر انھوں نے چند موثر اشعار پڑھے جس پر حضور انورؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ ابن رواحہ کا کلام کفار پر تیروں سے زیادہ سخت ہے‘‘۔ حضرت عبداللہؓ بن رواحہ کی شاعرانہ خوبیوں اور عظمت کے مظہر ان کے نعتیہ قصائد ہیں جو انھوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان اقدس اور مدحت میں کہے ہیں۔ انھیں خیبر کے کھجوروں کا اندازہ لگانے کے لئے اکثر بھیجا جاتا تھا۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یہودیوں کی سازش کے قلع قمع کے سلسلہ میں انھوں نے سرگرم حصہ لیا۔ عبادت و ریاضت، زہد و تقویٰ میں بے مثال تھے دربار رسالتؐ کے شعراء محترم میں شامل اور ممتاز تھے۔ حضرت حسانؓ بن ثابت اور کعبؓ بن مالک سے بڑا خلوص تھا۔ حضرت عبد اللہؓ بن رواحہ بے حد ذہین حاضر دماغ تھے اور فی البدیہہ شعر گوئی میں شہرت رکھتے تھے اطاعت حق تعالیٰ اور اتباع رسالتؐ میں اکمل اور عاشق رسولؐ تھے اور حضور پاکؐ بھی انہیں بہت عزیز رکھتے۔ اکثر ان سے اشعار کہلواتے اور سماعت فرما کر مسکراتے۔ رسول اللہؐ نے متعدد مواقع پر ان کے لئے خاص دعائیں کیں۔ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ڈائریکٹر آئی ہرک نے آج صبح ۹ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی اور دو بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی، مالاکنٹہ روڈ،روبرو معظم جاہی مارکٹ میں اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۱۳۳‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے علی الترتیب پہلے سیشن میں احوال انبیاء علیھم السلام کے تحت حضرت دائود علیہ السلام کے مقدس حالات پر مبنی توسیعی لکچر دئیے۔ قرا ء ت کلام پاک، حمد باری تعالیٰ،نعت شہنشاہ کونین ؐ سے دونوں سیشنس کا آغاز ہوا۔اہل علم حضرات اور باذوق سامعین کی کثیر تعداد موجود تھی۔ڈاکٹر حمید الدین شرفی نے سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوے کہا کہ سیرت نگاروں اور محققین نے حضرت عبدا للہؓ بن رواحہ کا اسم گرامی کاتبان نبی ؐ کی فہرست میں بھی شمار کیا ہے۔ حضرت عبداللہ ؓ بن رواحہ کا علم و فضل میں اونچا مرتبہ تھا آپ سے کئی احادیث مروی ہیں ۔ حضرت ابن رواحہؓ کا تعلق مدینہ کے قبیلہ خزرج سے تھا جب کہ مواخاۃ حضرت مقداد کندی سے ہوئی ۔ آپ کی شہادت کا واقعہ ۸ ھ کا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب موتہ کی طرف لشکر روانہ فرمایا تو حضرت زید بن حارثہؓ کو امیر مقرر کیا اور ارشاد فرمایا کہ اگر زید شہید ہو جائیں تو جعفر بن ابی طالبؓ اگر وہ بھی شہادت پالیں تو عبد اللہ بن رواحہ علمبردار ہوں اور اگر وہ بھی شہید ہوں تو مسلمان آپس میں فیصلہ کر کے کسی کو بھی امیر چن لیں۔ چنانچہ حضرت زیدؓ و جعفرؓ کے بعد آپ نے پرچم اسلام سنبھالا اور نہایت پامروی کے ساتھ معرکہ آرائی کی وہ دوران جہاد گہرے زخم کھاتے رہے وہ راہ حق میں کاری ضرب کھانے کو بندگی کا نذرانہ تصور کرتے رہے وہ شہادت کے دل کی گہرائی سے آرزو مند تھے جنگ موتہ میں یہ تمنا پوری ہوئی یہاں یہ واقعات ہو رہے تھے اور مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صحابہ کرام سے علی الترتیب زیدؓ، و جعفرؓ و ابن رواحہؓ کی شہادتوں کی تفصیل بیان فرما رہے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ اہل و عیال والے تھے تاہم آپ کی نسل آئندہ جاری نہ رہی۔ حضرت ابن رواحہؓ کی ساری زندگی محبت الٰہی، عشق رسول اور دین حق سے سچی وابستگی سے عبارت تھی۔