پروفیسراخترالواسع
بلاشبہ ہندوستان میں کئی دہشت گردانہ واقعات ایسے رونما ہوئے ہیں جن میں پاکستانی دہشت گردوں کا راست طورپرہاتھ رہاہے اورکئی معاملو ںمیں یہ بات بھی پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ پاکستانی فوج، آئی ایس آئی اوردہشت گردوں کی دیگر نوڈل ایجنسیاں ہندوستان کو زیروزبرکرنے کے منصوبے میں شامل تھیں۔ہندوستان کو زخم دینے والے ایسے بہت سے دلخراش واقعات ہیں جن کو یادکرکے تکلیف میں زیادتی کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا،اس لیے ہمیں ماضی کی تلخ یادوں کو بھلاکر ایک تیزرفتارترقی کرنے والے ملک کی حیثیت سے آگے بڑھناچاہیے اور امن پسندی کے نئے نشانات کو چھونے کی پرواز تیزکردینی چاہیے۔اس رجحان پر اس لیے بھی آگے بڑھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کارخ بظاہر مثبت ہے اور ان کے رویہ میں امن واتحادکی خوشبو محسوس ہورہی ہے۔
اگرہم عمران خان کے وزیراعظم منتخب ہونے سے اب تک کی تمام سرگرمیوں کا سنجیدگی سے جائزہ لیں توانداز ہ ہوتاہے کہ پاکستان کو اپنی حیثیت کااندازہ ہوچکاہے جس کے تناظر میں وہ ہندوستان سے راہ ورسم بناناچاہتاہے اورمتنازعہ امورسے ہٹ کر تعلقات کی نئی دنیابساناچاہتاہے۔حال ہی میں پلوامہ واقعہ کے بعد کشیدگی اس حدتک پہنچ گئی تھی کہ جنگ کے بادل منڈلانے لگے تھے مگردونوں ملکوں نے اپنی طاقت اوراپنی فوجی صلاحیت باورکرانے کے بعد جنگجویانہ رویے سے بازآگئے اورعدم تشددکی راہ اپنا لی۔دونوں ملکوں کے درمیان جنگ جیسے حالات کو ختم کرنے اورعدم تشددکی راہ پر آنے کاسہرا ہندوستان کی سیاسی قیادت کے ساتھ ساتھ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے سر بھی جاتاہے جس کاہمیں اعتراف کرناچاہیے۔اسی تناظر میں میرا خیال ہے کہ دونوں ملکوں کو امن واتحاداوربحالی ٔ اعتمادکی راہ پر کچھ قدم دورتک بھی جاناچاہیے۔
موجودہ صورتحال میں ساری دنیاپاکستانی مقتدرہ میں فوج کے دبدبے کے باوجود عمران خان کی حسن اسلوبی ،قوت برداشت اورایثار کے قائل ہوتے نظر آرہے ہیں ،کیونکہ عین میدان جنگ میںمشتعل ہونے کی بجائے بے پناہ سنجیدگی کامظاہرہ کرتے ہوئے انہوں نے بلاتاخیراعلان کیاکہ جس ہندوستانی پائلٹ ابھینندن کو ان کے فوجیوں نے گرفتارکیاہے اسے وہ خیرسگالی کاسفیر بناکر ہندوستان کو واپس کریں گے۔اس فیصلے سے پوری دنیاکادل جیتنے والے عمران خان کاہندوستان کے تئیں رویہ شروع ہی سے مثبت رہاہے۔جب وہ اکثریت کے ساتھ کامیاب ہوکر وزیراعظم بنے تھے تو بھی اپنے اولین پیغام میں انہو ںنے ہندوستان سے دوستی کاہاتھ بڑھانے کی بات کی تھی ۔پلوامہ واقعہ کے بعدانہو ںنے جوفیصلے لیے ہیں ان کو دیکھ کر راقم کااحساس ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی ڈگرکو مضبوط کرنے کااس سے بہترموقع نہیں ہوسکتا۔عمران خان نے نہ صرف یہ کہ ابھینندن کو بلاتاخیر ہندوستان واپس بھیج دیابلکہ یہ اعلان بھی کیاکہ ہندوستان نے جو ڈوزیئر انہیں بھیجاہے اس کی روشنی میں وہ جلد ہی کارروائی کریں گے۔
ہندوستان کایہ موقف رہاہے کہ پاکستان سے وہ اس وقت تک بات چیت نہیں کرے گا جب تک دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی اورڈوزیئر کی روشنی میں اقدامات نہیں کیے جاتے۔چنانچہ عمران خان نے ہندوستان کے اس موقف کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے دہشت گردوں کی کئی کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی شروع کردی ہے۔ پاکستان کی وزارت داخلہ نے کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ہندوستان کے ڈوزیئر میں شامل افراد سمیت کالعدم تنظیموں کے 44 کارکنوں کو حراست میں لے لیا ہے۔اسلام آباد میں وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی اورداخلہ سکریٹری اعظم سلیمان خان کا کہنا تھا کہ کالعدم تنظیموں کے حوالے سے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کیاجارہاہے اور اگرممنوعہ تنظیموں کے اثاثے بھی ضبط کرنا پڑے تواس میں بھی دریغ نہیں کیاجائے گا۔انہو ںنے پریس کانفرنس کے درمیان بتایاہے کہ اس آپریشن میں تمام ممنوعہ تنظیموں کیخلاف کارروائی کی جارہی ہے، اس کے تحت جن 44 لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے ان میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن کا ہندوستانی ڈوزیئر میں ذکر تھا۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق ہندوستانی ڈوزیئر میں مفتی عبدالرو ٔف اور حمزہ اظہر کا نام شامل ہے جن کو گرفتارکیاگیاہے۔دوسری طرف ہندو برادری کیخلاف بیان بازی اور ان کی دل آزاری کرنے پر وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان سے وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے استعفیٰ لے لیا ہے۔وزیراعظم عمران خان نے فیاض الحسن چوہان کے بیان پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اسے نامناسب قرار دیااور دو ٹوک ہدایت جاری کی کہ کسی اقلیت کے خلاف مذہبی بنیاد پر بیان برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان میں رہنے والے ہندوئوںکابھی پاکستان پر اتنا ہی حق ہے جتناکسی مسلمان کاہے ۔انہو ںنے صاف کیاکہ پاکستان ہندو برادری کی اقدار اور ملک کیلئے ان کی خدمات کو تسلیم کرتا ہے۔
عمران خان نے اپنے حالیہ بیانوں میں جو لب و لہجہ اوررویہ اختیارکیاہے وہ ہندوستان کو امن واتحادکی مذاکرات کے لیے دعوت دینے والے ہیں ۔ یہاں تک کہ عمران خان نے پلوامہ حملے کی تحقیقات میں ہرقسم کے تعاون کی پیش کش کرتے ہوئے یہ بھی مان لیا کہ’’ مجھے پتہ ہے کہ پلوامہ حملے میں ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ کو کس قسم کی تکلیف سے گزرنا پڑا ہوگا، کیوں کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 70 ہزار سے زیادہ جانوں کی قربانی دی ہے ،اس لیے ہمیں اندازہ ہے کہ زخمی اور جاں بحق ہونے والوں کے اہل خانہ کو کس اذیت سے گزرنا پڑتا ہے۔‘‘انہو ں نے کہاکہ’’ پاکستان نہیں چاہتا کہ اس کی سرزمین دہشت گردی کے خلاف استعمال ہو ۔ دونوں ممالک کو مل بیٹھ کر مسائل کو حل کرنا چاہیے کیوں کہ جب جنگ شروع ہوگی تو نہ میرے کنٹرول میں رہے گی اور نہ مودی جی کے ،اور جنگ دونوں ملکوں کے مفاد میں بھی نہیں۔‘‘
۸؍مارچ کو بین الاقوامی یومِ خواتین کے موقع پر سینیٹ کی صدارت جب ایک ہندوخاتون ممبرسے کرائی گئی توساری دنیامیں امن واخوت کاجو پیغام گیاوہ دراصل ہندوستان اورپاکستان کے درمیان دوستی کے نئے باب کی شروعات کاپیغام ہے۔ ہم ہمیشہ سے یہ مانتے اور کہتے آئے ہیں کہ کسی ملک اور معاشرے کے مہذب ہونے کا پتا اس سے چلتا ہے کہ وہ اپنی اقلیتوں اور خواتین کے ساتھ کتنا باوقار اور باعزت سلوک کرتا ہے اوریہ ایک واقعہ پاکستان میں بدلتی ہوئی صورتِ حال کا غماز ہے، جس کی تائید کی جانی چاہیے۔
عمران خان کے ان بیانات، رویوں اور ابتدائی اقدامات کی روشنی میں کہاجاسکتاہے کہ وہ ہندوستان سے دوستی کے خواہاں ہیں جس کی وجہ سے انہیں اپنے وطن میں بہت سے شدت پسندگروہوں کی سخت تنقیدوں کاسامناہے کیونکہ پاکستان میں بہت سے شدت پسندگروہ عمران خان کی امن کی کوششوں کو ان کی شکست سے تعبیرکرتے ہیں۔اس لیے اس وقت ضروت ہے کہ ہندوستان بھی ایک ایسا ماحول بنانے میں آگے آئے جس سے ہندوستان اور عمران خان مخالف قوتیں پاکستان میں پسپا ہو سکیں۔
مجھے محسوس ہوتاہے کہ یہی وہ موقع ہے جب دونوں ممالک تمام متنازعہ امور کو کم از کم دس سال کے لیے چھوڑ کر اعتماد و اعتبار پر مبنی بہتر تعلقات، معاشی، تہذیبی و ثقافتی اشتراک کے نئے ایجنڈوں پر غور کریںاوردونو ںممالک کے دانشور،حکومتی اہلکار،سفارتی سروکارکے لوگ،ادیب،صحافی اورشعرا، باہمی امن واخوت کاروڈ میاپ تیارکریں ۔ہندوستان ہمیشہ کہتا رہا ہے کہ اگر پاکستان مثبت رویہ اپناتا ہے ، دہشت گردی مخالف مہم کے تحت اقدامات کرتا ہے اورہندوستان کے خلاف اپنی سرزمین کا دہشت، وحشت اور نفرت کے لیے استعمال نہیں ہونے دیتا تو ہندوستان اور بھی آگے بڑھ کر اس کا خیر مقدم کرے گا۔
ایسے میں راقم الحروف ہندوستانی حکومت سے چاہتاہے کہ اگر واقعی پاکستان دہشت گردی مخالف مہم کے تحت ایک قدم اٹھاتاہے تودوستی کے لیے ہندوستان کو دوقدم آگے بڑھناچاہیے۔ہندوستان ایک بڑاملک ہے اوراس خطے میں اس کی حیثیت و اہمیت کسی سے چھپی نہیں ہے اس لیے اسے بڑے دل کامظاہرہ کرتے ہوئے ماضی کی تلخ یادوں کو چھوڑکر دوستی کی راہ میں خیرسگالی، محبت اور اشتراک و تعاون کے نئے نئے چراغ روشن کرنے چاہئیں۔
آئیے ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ پورے برصغیر میں وہ لوگ بھی دعا کے لیے ہاتھ اٹھائیں جنہیں کوئی رسمِ دعا یاد نہیں اور اس دنیا کے بنانے اور چلانے والے کے حضور میں یوں عرض گزار ہوں کہ:
خدا کرے کہ یہ شبنم یوں ہی برستی رہے
زمیں ہمیشہ لہو کے لیے ترستی رہے
(مضمون نگار مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس ہیں)