حج ۔ ربع صدی بیک نظر

کے این واصف
اقطاع عالم سے مسلمانوں کا فریضہ حج کی ادائیگی کیلئے مقامات مقدسہ کو آنے کا سلسلہ تو 14 سو سال سے جاری ہے ۔ مگر پچھلے 25 ، 30 سالوں میں حجاج کی تعداد میں مسلسل اضافہ ریکارڈ کیا جارہا ہے ۔ یعنی یہ تعداد سینکڑوں سے ہزاروں اور اب لاکھوں میں ہونے لگی ہے لیکن قابل ستائش ہے سعودی حج انتظامیہ کی کہ وہ ہر تعداد کیلئے تشفی بخش اور معیاری انتظامات کرتی ہے ۔ ہفتہ رفتہ مملکت کے محکمہ اعداد و شمار نے پچھلے 25 سال میں حجاج کی تعداد پر مشتمل ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق 1414 ھ سے 1438 ھ کے دوران 5 کروڑ 39 لاکھ 28 ہزار 358 افراد نے حج ادا کیا ۔ رپورٹ کے مطابق ان 25 سالوں میں حجاج کی سب سے کم تعداد 1995 (1415 ھ) میں رہی ۔ اس سال 17 لاکھ 81 ہزار 370 افراد نے حج ادا کیا ۔ دوسری طرف 1433 ھ میں سب سے بڑی تعداد یعنی 31 لاکھ 61 ہزار 573 افراد نے فریضہ حج ادا کیا تھا ۔ پچھلی ایک دہائی میں دو کرو ڑ 38 لاکھ 34 ہزار 151 افراد نے حج کی سعادت حاصل کی ۔ محکمہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے مطابق حجاج کی گنتی ایک مشکل عمل ہے اور محکمہ نے یہ کام 1390 ھ سے شروع کیا اور ان اعداد و شمار کی بنیاد پر ہر سال اگلے حج موسم کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت یہ اعداد و شمار بہت زیادہ باریک بینی سے نہیں جمع کئے جاتے تھے ۔ بہرحال جو کچھ بھی معلومات جمع ہوتی تھیں ، ان کی بنیاد پر حجاج کو فراہم کی جانے والی سہولتوں اور انتظامات کو قطعیت دی جاتی تھی۔ ان سہولتوں میں غذا کی فراہمی ، امن و امان کے بندوبست ، مواصلات ، رہائش ، طبی خدمات وغیرہ وغیرہ شامل ہوتی ہیں اور ان تمام امور کی تمل آوری کیلئے متعین کئے جانے والے کارکنان کا حساب بھی اسی بنیاد پر لگایا جاتا ہے ۔ یہاں اس بات کا ذکر بے محل نہ ہوگا کہ جمع اجتماع دنیا کا سب سے بڑا مذہبی اجتماع ہے اور اس کے سارے انتظامات کو ہر سال امن و امان کے ساتھ حجاج کی ہر ضرورت کی فراہمی ایک ایسا عمل ہے جس کی برابری یا ایسی مثال دینے کا کوئی اور ملک یا مذہب نہیں پیش کرسکتا۔ بتایا گیا کہ پچھلے 25 سالوں میں صرف ایک مرتبہ حجاج کی تعداد 30 لاکھ سے زائد کو پہنچی تھی جبکہ 20 لاکھ سے زائد کی تعداد بارہ مرتبہ رہی ۔
حج انتظامیہ کی جانب سے حجاج کی تعداد کو قابو کرنے کا منشاء انتظامات کی بہتر انداز میں انجام دہی ، حجاج کی سہولتوں کا خیال رکھنا اور مناسک حج کی ادائیگی اور عبادتوں میں خشوع و خصوع برقرار رکھنا ہوتا ہے اور یہ سب کچھ حجاج کے عظیم تر مفاد میں ہوتا ہے لیکن کچھ لوگ صرف اپنے ذاتی مفاد کو پیش نظر رکھ کر بغیر اجازت مقامات مقدسہ میں داخل ہوکر حج ادا کرتے ہیں جس سے حج کے سارے انتظامات درہم برہم ہوجاتے ہیں لیکن پچھلے چند برسوں میں اس عمل کو سختی کے ساتھ روکا گیا جس سے اب سارا معاملہ بڑی حد تک قابو میں آگیا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگ اپنے ذاتی مفاد کے بجائے حج انتظامیہ اور اجازت نامے کے ساتھ حج پر آنے والے لاکھوں حجاج کے مفاد کا خیال کریں۔
سعودی حج انتظامیہ نے سیکوریٹی فورسس کے تعاون سے سخت گری کے ساتھ غیر قانونی طور پر حج مقامات میں داخل ہونے والوں کو روک رہی ہیں ۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق 1439 ھ کے حج موسم کیلئے اسپیشل فورس نے بتایا کہ 25 شوال 1439 ھ سے 24 ذی القعدہ 1439 ھ تک بغیر اجازت حج مقامات کا رخ کرنے والے ایک لاکھ 88 ہزار افراد کو مکہ مکرمہ ، منیٰ ، مزدلفہ اور عرفات جانے روک دیا گیا جبکہ مکرمہ کے اطراف 12 تفتیشی چوکیوں پر اجازت نامے چیک کئے گئے تھے۔ 83746 غیر قانونی گاڑیوں کو بھی مقدس شہر جانے نہیں دیا گیا ۔ اسپیشل فورس کے عہدیداروں نے خبردار کیا کہ حج قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو مقدس شہر ج ا نے سے روکنے کی مہم جاری رکھی جائے گی۔ انہوں نے داخلی عازمین سے اپیل کی کہ وہ سیکوریٹی اہلکاروں سے تعاون کریں اور حج موسم کو ہر لحاظ سے کامیاب بنانے کیلئے ہر ممکن تعاون کریں۔ جیسا کہ اوپر بتایا گیا کہ حج انتظامیہ کے پاس اجازت کے ساتھ حج پر آنے والوں کا پورا ریکارڈ ہوتا ہے ۔ مگر مقامی افراد جو بغیر اجازت حج پر آتے ہیں ان کی وجہ سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ دوسرے وہ لوگ جو بار بار حج پر آتے ہیں ان سے بھی حجاج کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے ۔ اس سلسلے میں کچھ سعودی علماء کے بیانات ہم یہاں نقل کریں گے جو یہاں کے ایک مقامی جریدے میں شائع ہوئے ہیں ۔
شیخ عبدالعزیز بن باز فرماتے ہیں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بار بار حج کرنے کا بڑا ثواب ہے ۔ تاہم حالیہ برسوں کے دوران سفر کی سہولت کی بناء پر حج مقامات پر رش بڑھتا جارہا ہے ۔ دنیا بھر سے لوگ بڑی تعداد میں حج کیلئے آرہے ہیں ۔ یہاں کا امن و امان کا ماحول بھی حج پر آنے پر آمادہ کر رہا ہے ۔ یہ بھی دیکھا جارہا ہے کہ طواف اور عبادات کے مقامات پر مرد و زن کا اختلاط بھی بڑھتا جارہا ہے ۔ بہت ساری خواتین آزمائش میں ڈالنے والے اسباب سے پرہیز نہیں کر رہی ہیں۔ ہماری رائے یہ ہے کہ خواتین بار بار حج سے اجتناب کریں۔ ان کے لئے زیادہ بہتر ہے ۔ ایسا کرنے سے وہ نقصان سے بچی رہیں گی ۔ یہی رائے مردوں کیلئے بھی ہے ۔ اگر وہ دوسرے حاجیوں کو حج کا موقع فراہم کرنے اور اژدھام کرنے کی نیت سے ایک سے زیادہ بار حج نہ کریں تو بہتر ہوگا ۔ انہیں ان کی نیک نیتی کا اجر ضرور ملے گا ۔
ایک اورممتاز سعودی عالم دین عبداللہ عبدالرحمن الجبرین فرماتے ہیں، حج اعلیٰ عبادت ہے اس میں بڑا اجر ہے لیکن بعض علماء نے عصر حاضر میں ہر سال حج سے منع بھی کیا ہے ۔ ان کا موقف ہے کہ حجاج کی تعداد بڑھ گئی ہے ۔ جدید سفری وسائل اس کی وجہ سے حج کا سفر آسان ہوگیا ہے ۔ ماضی میں ایسا نہیں تھا ۔ میرا خیال ہے کہ ایک مرتبہ حج سے ضیوف الرحمن کا فرض ساقط ہوجاتا ہے ۔
عالم دین سلمان بن فہد العودۃ لکھتے ہیں کہ حج شرائط پوری کرنے والے ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔ تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے ۔ وہ آگے لکھتے ہیں کہ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ مقامات حج منیٰ ، مزدلفہ ، عرفات اور حرم شریف کا رقبہ محدود ہے ۔ اوقات حج بھی متعین ہیں جنہیں نہ تو آگے بڑھایا جاسکتا ہے اور نہ ہی پیچھے لایا جاسکتا ہے۔ سمجھدار افراد یہ بات بھی جانتے ہیں کہ اگر کبھی حج نہ کرنے والوں میں سے معمولی تعداد بھی حج کرنے آجائے تو ایسی صورت میں بڑے مسائل پیدا ہوں گے ۔ فرض کیجئے کہ دنیا کے صرف ایک فیصد افراد حج کیلئے ارض مقدس پہنچ جائیں تو میدان عرفات میں ایک کروڑ 20 لاکھ حاجیوں کو 9 ذی الحجہ کو وقوف عرفہ کرنا ہوگا جبکہ اتنی بڑی تعداد کیلئے میدان عرفات ناکافی ہوگا ۔ ہر سال حجاج کرام کی تعداد میں اس طرح کے اضافے کی وجہ سے مقامات حج کے مسائل بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ اژدھام کی وجہ سے فریضہ حج اپنا تقدس اور روحانی فضا سے محروم ہوتا جارہا ہے ۔انہوں نے یہ لکھا کہ بار بار حج کرنے کیلئے لوگ جعلی حج اجازت نامہ تیار کرنے ، جھوٹ بولنے وغیرہ میں بھی قباحت محسوس نہیں کرتے ۔ بعض افراد نے تو حج کو تفریح کا ذریعہ بنالیا ہے ۔ اگر موجودہ حج قوانین کے بموجب 5 برس سے پہلے کسی کو دوبارہ حج کی اجازت نہیں ہے تو ایسا بوجوہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے آخر میں لکھا کہ اگر میرے اس مضمون کی سطور پڑھنے والوں میں سے ہر ایک یہ عہد کرلیں کہ وہ اپنے نقلی حج کا خرچ اپنے مسلم بھائیوں پر کردے گا اور حج سے دستبردار ہوجائے تو مقامات حج میں رش کم کرنے میں کامیابی حاصل ہوجائے گی ۔
یہ تھے چند سعودی علماء کے مضامین سے اقتباسات جو ہم نے اپنی بات کو مزید پر اثر بننے کیلئے پیش کیں۔ بہرحال یہ گفتگو اس بات پر ختم کریں گے کہ حج مقامات پر گنجائش سے زیادہ تعداد پر اسی وقت کامیابی سے قابو حاصل ہوسکتا ہے جب لوگ حج انتظامیہ کی گزارش کو مانے اور اپنا پورا تعاون دیں۔
knwasif@yahoo.com