حج ہاوز یا سیاسی پارٹیوں کا ہیڈکوارٹر ؟

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
صحافت کی آزادی کو سلب کرنے والے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا نے حکومت پر شدید تنقیدیں کی ہیں ۔ تلنگانہ میں صحافت کا مقام ہو یا ہندوستان کے کسی بھی علاقہ کی صحافت ، مرکز و ریاستی حکومتوں کی تنگ نظری کا شکار ہورہی ہے ۔ بکاؤ میڈیا نے حکمرانوں کا مزاج ہی بدل دیا ہے ۔ اے بی پی ٹی وی چیانل کے 3 صحافیوں کو سیاسی دباؤ کے بعد استعفیٰ دینا پڑا ۔ یہ واقعہ ہندوستانی صحافت ، سیاسی طاقتوں کے شکنجہ میں چلے جانے کا افسوسناک المیہ ہے ۔ قومی سطح کی قیادت ہو یا ریاستی سطح کی حکمرانی نے صحافت کو اپنے تابع کرنے کے ہتھکنڈے اختیار کرلئیے ہیں ۔ چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ پر الزام ہے کہ وہ صحافت کے راستے تلنگانہ کے حصول میں کامیاب ہونے کے بعد گذشتہ چار سال سے علاقائی صحافت کو بری نگاہ سے دیکھتے آرہے ہیں ۔ لفافہ بردار صحافت نے حکومت کی خرابیوں کو اچھائی کی آنکھ سے دیکھ کر گمراہ کن خبریں پھیلانے میں مصروف ہے ۔ صحافیوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف ایک سمینار ہورہا تھا ۔ مختلف ملکوں سے آئے صحافیوں نے اپنے ملک اور حکومت کی اچھائیوں اور خرابیوں کو بیان کررہے تھے ۔ ایک فوجی اکثریت والی حکمرانی کے ملک سے تعلق رکھنے والے صحافی نے کہا کہ ان کے ملک میں میڈیا سے زیادہ آزادی اظہار کی اہمیت کوئی نہیں جانتا ۔ اس ڈکٹیٹر شپ والی حکمرانی کے ملک کے صحافی کا دعویٰ سن کر سب لوگ مرعوب ہوگئے ۔ یہ صحافی صحافت کی آزادی کے موضوع پر سمینار سے خطاب کررہا تھا ۔ مغربی ملک کے صحافیوں نے اپنا احوال بیان کیا ۔ برصغیر کے صحافی نے اپنے علاقہ کی اطمینان بخش صورتحال سے آگاہ کیا لیکن ڈکٹیٹرشپ والے ملک کے صحافی کا خطاب متاثر کن تھا ۔ اس نے کہا کہ ’ میں کئی سال تک آمر حکومت کے خلاف تقریریں کرتا رہا کسی نے اعتراض نہیں کیا ۔ سب نے تالیاں بجائیں ۔ یہ سن کر سمینار میں شریک سامعین نے پوچھا کہ آپ وہ تقریریں کہاں کرتے تھے ؟ اس صحافی نے کہا کہ ’ جیل میں ‘ ۔ تلنگانہ کے چیف منسٹر کو صحافیوں سے چڑ ہے وہ کسی کو خاطر میں لانا نہیں چاہتے ۔ اپنی چار دیواری کی حکومت کو ہی کسی بڑی سلطنت کا قلعہ سمجھ رکھا ہے ۔ اس سے باہر ہی نہیں نکل رہے ہیں ۔ کے سی آر واحد چیف منسٹر ہیں جو چار سال کے دوران سکریٹریٹ کی صورت نہیں دیکھی ۔

ریاست کے عازمین حج کو وداع کرنے کے لیے حج ہاوز آنے کی بھی توفیق نہیں ہوئی ۔ ان کی اس بے اعتنائی سے ان کا غرور آشکار ہوتا ہے ۔ حج ہاوز پہونچکر انہوں نے ریاستی عازمین حج کو وداع نہیں کیا ۔ اس پر لوگوں کا تاثر بھی طنزیہ تھا ۔ ان کے غیاب میں ٹی آر ایس اور دیگر پارٹیوں کے قائدین نے حج ہاوز کو سیاسی پارٹی آفس بنانے کی کوشش کرتے ہوئے جگہ جگہ اپنی تصاویر کے ساتھ بیانرس آوایزں کرلیئے تھے ۔ اس سال حج ہاوز ، کسی سیاسی پارٹی کے ہیڈکوارٹر کا منظر پیش کررہا تھا ۔ عازمین حج کے ساتھ اپنے خلوص و محبت کا سیاسی مظاہرہ کرنے والے نے خود نمائی اور سستی شہرت حاصل کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔ سیاسی لیڈروں کی اس حرکت کو عازمین حج اور انہیں وداع کرنے کے لیے آنے والے رشتہ داروں نے پسند نہیں کیا ۔ مقدس فریضہ حج کے لیے انجام دی جانے والی خدمات کو سیاسی رنگ دیا جانا افسوسناک حرکت ہے ۔ حج ہاوز میں منعقدہ حج کیمپ کو سیاسی قائدین کا اڈہ بنانے کی اجازت دینے والی تلنگانہ حج کمیٹی کے سامنے بھی کئی سوال اٹھائے گئے ہیں ۔

ریاستی حج کمیٹی کی کارکردگی پر انگلیاں اُٹھ رہی ہیں ۔ عازمین حج کے لیے خصوصی انتظامات اور سفر حج کو آسان بنانے کی ذمہ داری ادا کرنا ایک مستحسن کام ہے ۔ حج گناہوں کا کفارہ اور خطاؤں کا مداوا ہے ۔ حضور ﷺ نے حج کے بارے میں فرمایا کہ جس شخص نے اس بیت اللہ کا حج کیا اور اس دوران میں کوئی شہوانی فعل اور کوئی بدعملی نہ کی تو وہ اس پاک صاف حالت میں واپس آئے گا جیسے اس دن اس نے ماں کی کوکھ سے جنم لیا ہو ۔ فریضہ حج کے لئے جانے والے خوش نصیب ریاستی باشندوں کو حج ہاوز میں سہولتیں راحتیں فراہم کرنے کے بہانے حج کمیٹی نے انہیں مشکلات اور تکالیف سے گذارتے ہوئے سفر حج پر روانہ کیا ہے ۔ حج ٹرمنل شمس آباد ایرپورٹ پر عازمین کو ہونے والی مشکلات کی کسی نے خبر نہیں لی ۔ عازمین حج کے تقویٰ کو ٹھیس پہونچانے والی حرکتوں سے باز آنا چاہئے ۔ حج ہاوز کو پاکیزہ ماحول سے معطر کرنے کے بجائے سیاسی اودھم مچانے کا مقام بنایا جانا غلط ہے ۔ تقویٰ سے بہتر کوئی سامان سفر نہیں ۔ تقویٰ کے معنی رب کی نافرمانیوں سے اجتناب ہے ۔ معاصی سے دور رہنا ہے ، محرمات و لغویات سے بہر صورت اجتناب کرنا ہے ۔ لیکن حج ہاوز پہونچکر اپنا سفر حج شروع کرنے والے عازمین کو ذہنی و جسمانی طور پر تکلیف دیتے ہوئے ان کے تقویٰ میں خلل پیدا کرنے کی کوشش کو نہ صرف عازمین نے پسند نہیں کیا بلکہ حج ہاوز آنے والے رشتہ داروں نے بھی حج کمیٹی کے ذمہ داروں کے خلاف ناراضگی ظاہر کی ۔ عازمین حج کی حرمت کی تعظیم کرنا ہر ذمہ دار شخص کا فرض ہے ۔ مسافر حج جب کعبہ کی حرمت کو تصور میں لاکر سفر پر روانہ ہوتا ہے تو اس کے مسلمان بھائی کی حرمت فوراً اس کے حیط خیال میں ابھر کر سامنے آجاتی ہے ۔

اسے یاد آجاتا ہے کہ مسلمان کی عزت و آبرو اور اس کا خون اور مال سب محرمات الہٰی ہیں ۔ حج اور اس کی حرمت کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا خطبہ حجۃ الوداع آج کی مہذب و ترقی یافتہ انسانیت کے لیے حیات آفریں ہے ۔ حرمتوں کی پاسداری کے بارے میں جو گوشہ پایا جاتا ہے وہ بہت اہمیت رکھتا ہے ۔ لیکن مسلمانوں اور ان کے دینی فریضہ کی حرمت کو پامال کرنے والے سیاستدان حج ہاوز کو سیاسی شہرت کا مرکز بنا لیتے ہیں تو ان میں اور دنیا کے دیگر ان سیاستدانوں کی حرکتوں میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ آج مشرق سے لے کر مغرب اور شمال سے لے کر جنوب تک مسلمانوں کی جانی مالی اور عزت و آبرو کے ساتھ دین کی حرمتوں کو جس بری طرح پامال کیا جارہا ہے وہ انتہائی شرمناک ہے ۔ آج کوئی حرمت تقدس کی حامل نہیں رہی ۔ ہر حرمت کو بڑی ڈھٹائی اور بے شرمی سے پامال کیا جارہا ہے ۔ عازمین حج کے سفر کو آسان بنانے پر دھیان دینے کے بجائے انہیں مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے سفر میں ہونے والی دشواری اور تکلیف کا کسی سے شکوہ نہ کریں ۔ حج کمیٹی کے لوگ یہ بتانا چارہے ہیں کہ عازمین کو اگر حج ہاوز اور سفر حج میں حج کمیٹی کے ذمہ داروں کی وجہ سے کوئی دشواری ہو تو اس کا شکوہ نہ کریں ۔ دراصل عازمین کی دشواری اور تکلیف کا حوالہ میدان عرفات اور مناسک حج کی تکمیل کے دوران ہونے والی تکالیف کے تعلق سے ہے ۔ حج ہاوز میں بدنظمی اور بدانتظامی کے ساتھ گلی کے سیاسی لیڈروں کا اڈہ بناکر دشواریاں پیدا کردی جائیں تو اس کا نہ صرف شکوہ کیا جائے گا بلکہ آئندہ عازمین حج کو از خود رمی جمار میں شیطانوں کو کنکریاں مارنے کے عمل کی طرح حج ہاوز سے سیاستدانوں کو دھتکار کر باہر کردینے کی ضرورت پڑے گی ۔
kbaig92@gmail.com