محمد مصطفی علی سروری
پی پاٹل کو کم عمری سے ہی عینک لگی تھی اور وہ بھی ایسی عینک جس کے موٹے موٹے شیشے دور سے ہی پہچانے جاتے تھے ۔ پھر آٹھ سال کی عمر کو پہونچتے پہونچتے پاٹل کی دونوں آنکھوں میں مکمل بینائی ہی چلی گئی ، پاٹل اس وقت شائد تیسری کلاس میں تھی ۔ پاٹل کے ماں باپ بڑے پریشان ہوئے ،انہوں نے اپنی لڑکی کے علاج کیلئے دواخانوں کے چکر لگائے ، ڈاکٹروں نے سرجری کروانے کا مشورہ دیا اور پھر پرنجل پاٹل نام کی اس چھوٹی سی لڑکی کی آنکھوں کی سرجری بھی کی گئی لیکن بینائی واپس نہیں آئی بلکہ اس کو تقریباً ایک سال تک آپریشن کی تکلیف باقی رہی لیکن پاٹل نے اپنے ماں باپ سے ہمت پاکر مراٹھی میڈیم سے اپنے اسکول کی تعلیم کو جاری رکھا ۔ اس کو اندھوں کے اسکول میں شریک کروایا گیا جہاں سے یہ باہمت لڑکی نے اپنی اسکولنگ مکمل کی اور پھر ممبئی کے مشہور سنیٹ زاویر کالج سے بی اے پولیٹکل سائنس بھی کامیابی سے پاس کیا اور داد دیجئے اس لڑکی کے والدین اور خود لڑ کی کی ہمت کو کہ گریجویشن کی تکمیل کے بعد اس نابینا لڑکی نے دہلی جاکر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ پہلے تو مراٹھی میڈیم سے انگلش میڈیم میں داخلہ اور تعلیم کا چیلنج تھا ، پاٹل نے اس چیلنج کا بھی کامیابی سے سامنا کیا ، اب دہلی جاکر پاٹل نے جے این یو جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے ایم فل ، پی ایچ ڈی کے انٹیگریئڈ کورس میں داخلہ لیا ۔ پاٹل نے کبھی بھی اپنے لئے آسان راستہ نہیں چنا اور قارئین اکرام جب آپ لوگ اس نابینا لڑ کی کی تحقیق کا موضوع کیا ہے جان لیں گے تو شائد تب ہی آپ حضرات کو اس نابینا لڑکی کی تعلیم کی تئیں سنجیدگی کا کچھ اندازہ ہوجائے گا۔ اخبار انڈین اکسپریس کو دیئے گئے اپنے انٹرویو میں پرنجل پاٹل نام کی اس 30 سالہ خاتون نے بتلایا کہ پی ایچ ڈی کیلئے میں نے ’’لبنان کی سیاست میں ایران اور سعودی عرب کے رول‘‘ کے موضؤع پر تحقیق کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ 14 جون 2018 ء کو شائع اپنے اس انٹرویو میں پاٹل نے بتلایا کہ اس نے اس موضوع کا انتخاب اس لئے کیا کہ مغربی ایشیاء کو آج تک نہ تو صحیح سمجھا گیا اور نہ صحیح سے پیش کیا گیا ۔ قارئین اس نابینا خاتون کے جذبہ کو دیکھئے کہ وہ باضابطہ تحقیق کر کے مشرق وسطی لبنان ، سعودی عرب اور ایران کی سیاست کو سمجھنا چاہتی ہے اور سچ کیا ہے جاننا چاہتی ہے اور ہمارے نوجوان سعودی عرب اور ایران کے درمیان اصل اختلاف کیا ہے ، حقیقت جانے بغیر سوشیل میڈیا پر ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہیں۔ خیر سے ہمارا موضوع مشرق وسطی نہیں ہے بلکہ ایک نابینا لڑکی کی وہ جدوجہد ہے کہ جس میں ہمارے نوجوانوں کیلئے بہت ساری سیکھنے کی باتیں پوشیدہ ہیں۔ بینائی سے محرومی اور آنکھوں کے آگے دن ہو یا رات ہمیشہ اندھیرا چھائے رہنے کے باوجود اس لڑکی کے عزم مصمم نے اس کو سیول سرویس کے امتحان کی جانب راغب کیا ۔ جو لڑکی نابینا ہوکر دہلی جاکر پڑھنے اور جے این یو میں داخلہ کی منصوبہ بندی کرسکتی ہے ، اس لڑکی نے اب طئے کرلیا تھا کہ اس کو IAS کا امتحان پاس کرنا ہے ۔ جے این یو میں رہتے ہوئے پاٹل نے یو پی ایس سی کا امتحان لکھنے کیلئے کسی طرح کی کوچنگ نہیں لینے کا فیصلہ کیا اور اپنے طور پر اولڈ کوسچین پیپرس کو حل کر کے تیاری کی 2016 ء میں پاٹل نے پہلی مرتبہ سیول سرویس کا امتحان لکھا اور 773 واں رینک حاصل کیا۔ بغیر کسی کوچنگ کے اس پہلی کامیابی سے حوصلہ پاکر اس نابینا لڑ کی نے سال 2017 ء میں دوسری مرتبہ یونین پبلک سرویس کمیشن کا امتحان لکھا اور 124 واں رینک حاصل کیا اور قارئین اکرام آپ حضرات یہ نہ سوچیں کہ مجھے دوسرا کوئی موضوع نہیں ملا تو میں ایک سال پرانے نتیجے پر کالم لکھ رہا ہوں۔ اس نابینا لڑکی پر قلم ا ٹھانے کا ایک سبب یہ ہے کہ سال 2017 ء میں سیول سرویس کا امتحان پاس کرنے والی اس لڑکی نے ایرنا کلم کیرالا میں 28 مئی 2018 ء کو بطور اسسٹنٹ کلکٹر چارج سنبھال لیا اور اخبار انڈین اکبسپریس نے 4 جون 2018 ء کو اس کی تفصیلی رپورٹ شائع کی ۔ گزشتہ ایک سال کے دوران پاٹل نے مسوری کی لعل بہادر شاستری نیشنل اکیڈیمی آف ایڈمنسٹریشن میں ٹریننگ پوری کی ۔ اب ایک سال کی آن فیلڈ ٹریننگ کیلئے اس کو کیرالا بھیجا گیا جہاں وہ اپنے والدین کے ساتھ پہونچی اور اخبار کو بتلایا کہ دو تین دن میں اس کے والدین گھر واپس چلے جائیں گے اور وہ اپنے طور پر کام کاج شروع کردے گی ۔ پاٹل نے طلباء کو مشورہ دیا کہ کسی بھی دباؤ میں کام نہ کریں بلکہ اپنی طاقت اور کمزوریوں کی پہچان کرلیں اور ان دونوں محاذ پر کام کر کے آگے بڑھیں۔
قارئین کرام آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے بچوں کیلئے وہ صحت مندماحول فراہم کریں جس میں وہ صرف اندھی دوڑ کے گھوڑے نہ بنیں بلکہ اپنی خوبیوں اور خامیوں ہر دو سے واقف ہوکر دونوں محاذ پر کام کریں ، خامیوں کو جان کر انہیں دور کرنے کی کوشش کریں اور خوبیوں کو کیسے نکھارا جاسکتا ہے ، اس حوالے سے کام کریں۔
گزشتہ برس جولائی کے مہینے میں انٹرمیڈیٹ کے اسٹوڈنٹ ہرش کمار کو ڈاکٹروں نے معائنہ کرنے کے بعد بتلایا کہ اسے ٹی بی لاحق ہے ۔ا پنے اس مرض کے سبب کمار ایک مہینے تک اسکول کو نہیں جاسکا اور اگلے دو تین مہینے تک اس کو صحت یاب ہونے میں لگ گئے ۔ اب جب CBSE نے بارھویں کے نتائج کا اعلان کیا تو کمار نے 97 فیصد مارکس حاصل کرتے ہوئے دہلی کے گورنمنٹ اسکولس میں سب سے ٹاپ پوزیشن حاصل کی ۔ قارئین آپ لوگوں کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ گورنمنٹ اسکول میں پڑھنے والا اسٹوڈنٹ کا مطلب غریب گھرانہ سے اس کا تعلق ہوگا ۔ کمار کے والد DTC میں ڈرائیور ہیں اور ان کا گھر صرف ایک کمرہ پر ہی مشتمل ہے ۔ جی ہاں غریب کے ہاں بس ایسا ہی ہوتا ہے اب چاہے اس ایک کمرہ کو آپ جو نام دینا ہے دے لیں لیکن کمار کے والد نے اپنے ایک کمرے کے گھر میں Attached باتھ روم کو اسٹڈی روم بنادیا اور وہاں ایک کرسی اور ٹیبل رکھ دیا۔ کمار اور اس کی بہن باری باری سے اس باتھ روم کو پڑھائی کیلئے استعمال کرتے رہے اور جب کبھی ایسا ہوتا کہ دونوں بھائی بہن کو ایک ہی وقت میں پڑھنا ہو تب ماں باپ خود کو چولہے میں قید کرلیتے تاکہ بیٹے کو اور بیٹی کو پڑھائی کرنے کیلئے علحدہ علحدہ جگہ مل سکے۔ یہ کوئی کہانی یا افسانہ کا اقتباس نہیں ہے بلکہ ایک سچا واقعہ ہے ۔ جس کے متعلق دہلی کے انگریزی اخبار ہندوستان ٹائمز نے اپنے ایجوکیشن کے صفحہ پر 29 مئی 2018 ء کو "Delhi govt school topper says had to convert bathroom into study room کی سرخی کے تحت تفصیلی رپورٹ شائع کی ۔
پرنس کمار کی کہانی ایک مرتبہ پھر سے ثابت کرتی ہے کہ گھر کا چھوٹا ہونا جگہ کا تنگ ہونا اور مالی وسائل کا محدود ہونا کوئی مسئلہ نہیں ہے اور نہ ٹی بی جیسی بیماری بھی کسی طالب علم کو کامیابی کیلئے آگے بڑھنے سے روکتی ہے ۔ گھر چاہے کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو لیکن ہمارا دل اور دماغ چھوٹا نہیں ہونا چاہئے ۔
اس رمضان المبارک کے دوران ایک ایسے گلف ریٹرن لڑکے کو دیکھنے کا اتفاق ہوا جو ترکاری خریدنے کیلئے فہرست لئے ترکاری کی دکان پر تو کھڑا ہے مگر بنس اور سیم کی پھلی میں فرق نہیں جانتا ہے ۔ یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو حالات کا سامنا کرنے کیلئے طاقت و توانائی فراہم کریں۔ ان کی رہبری کریں ، ان کو زندگی کی سچائی سے واقف کروائیں اور منفی سوچ کو ترک کرکے مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھنے میں مدد کریں ۔
یہ سال 2015 ء کی بات ہے جب ایک نوجوان چائے پیتے پیتے اپنے منہ میں تکلیف محسوس کرتا ہے اور آئینہ میں دیکھ کر پریشان ہوجاتا ہے ۔ ڈاکٹر سے رجوع کرتا ہے اور ڈاکٹر مختلف ٹسٹ کروانے کے بعد بتلاتاہے کہ اس نوجوان کے جسم میں کینسر پھیل چکا ہے اور اب بمشکل اس کی زندگی کے سات مہینے باقی بچے ہیں۔ قارئین یہ واقعہ کسی اور کا نہیں آسٹریلیا کے نوجوان علی بنات کا ہے ۔ علی بنات کی پیدائش 1982 ء میں ہوئی تھی اور سال 2015 ء میں یعنی جب بنات کی عمر صرف 33 برس تھی ڈاکٹرس نے اس کو جواب دے دیا تھا ۔ علی بنات کا شمار آسٹریلیا کے کامیاب بزنس مینوں میں تھا ، وہ سیکوریٹی اور الیکٹریکل کمپنی کا مالک تھا ، اس مسلم نوجوان کی زندگی میں یہ جاننے کے بعد گویا انقلاب آگیا کہ اس کی زندگی میں اب صرف چند ماہ باقی بچ گئے ہیں۔ اس نے شکوے شکایت نہیں کی اور نہ شرکیہ کلمات ادا کئے کہ اے اللہ ایسا میرے ساتھ کیوں ہوا ، ابھی تو میری عمر ہی کیا ۔ علی بنات نے انٹرویو دیتے ہوئے وہ تاریخی کلمات ادا کئے ہیں جو دنیا بھر میں مشہور ہوگئے کہ الحمد اللہ اللہ رب العزت نے مجھے کینسر کا گفٹ دیا ہے۔ اللہ کے اس بندے نے صرف اپنی زبان سے نہیں بلکہ عمل سے بھی ثابت کیا اور اپنی زندگی کی ساری دولت اور وقت فلاحی اور رفاحی کاموں کے لئے وقف کردی۔ ڈاکٹروں نے تو صرف سات مہینوں کا وقت دیا تھا ۔ اللہ نے اپنے اس بندے کو تین برسوںکی مہلت دی اور علی بنات نے اپنی عالیشان زندگی کو ترک کرکے اللہ کی رضا کے حصول کیلئے اور خدائے بزرگ و برتر کے روبرو اپنے آپ کو پیش کرنے کیلئے ہر لمحہ وقف کردیا ۔ علی بنات نے کینسر کو اللہ کا دیا گیا تحفہ قرار دینے کی وجہ بھی بیان کی ۔ ڈاکٹروں نے جب بتادیا کہ اب کینسر اتنا بڑھ چکا ہے کہ اس کا علاج ممکن نہیں اور وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنی موت سے قریب ہوتا جارہا ہے تو اس کو اللہ رب العزت سے ملنے کی تیاری کا موقع مل گیا اور یہی وہ تحفہ ہے۔ ایک برطانوی اخبار نے علی بنات کی عمر صرف 32 سال بتلائی ہے ۔ اللہ کا یہ بندہ رمضان المبارک کے اس مقدس مہینے کے دوران 29 مئی کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔
اپنے انتقال سے قبل ریکارڈ کردہ ایک ویڈیو میں علی بنات نے ہمیں ایک بہترین سبق دیا ہے ، اس نے کہا کہ عزیز بھائی بہنوں اپنی زندگی کا مقصد طئے کرلو اور منصوبہ بندی کرو اور ایک مقصد طئے کر کے اس کے حصول کیلئے کام شروع کرو۔ علی بنات کو اللہ نے دولت سے نوازا تھا ، اس کا اندازہ اس بات کے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی ایک فیراری گاڑی کی قیمت ساڑھے چار لاکھ پونڈ تھی مگر یہ دولت اس کی بیماری کو نہیں روک سکی۔ وہ تیار ہوگیا اور بخوشی خالق حقیقی سے جا ملا اور ہمارے پاس کیا بہانے ہیں نہ تو ہمیں دنیا میں جینے کا سلیقہ آیا اورنہ ہی ہم نے آخرت کی تیاری کی۔ ہم تو بدستور احمقوں کی جنت میں مقیم ہیں۔ خدائے تعالیٰ سے میری دعا ہے کہ وہ ہمیں ان تحائف کو پہچاننے والا بنادے جو اس نے ہمیں عطا کئے ہیں اور ان کا شکر ادا کرنے والا بنادے (آمین) فبای الاای ربکما تکذبان
sarwari829@yahoo.com