حادثے کو تماشہ بناتے ہیں نیوز چینل۔ بقلم شکیل شمسی 

دسہرے کے موقع پر سکھوں کے مقدس شہر امرتسر میں ایک تیز رفتار ٹرین نے ریل کی پٹری پر کھڑے دو سولوگوں کو روندیا جو وہاں روان جلائے جانے کا منظر دیکھنے والی ایک بڑی بھیڑ کا حصہ تھے۔ا س حادثے میں ساٹھ سے زائد افراد ہلا ک اوردیڑھ سو سے زائد افراد زخمی ہوگئے ‘ظاہر ہے کہ یہ اندوہناک حادثہ تپا جس پر ہر انسان کی آنکھ اشکبار تھی ‘ ہرہندوستانی کو رنج تھا‘ مگر اس درد‘ رنج او رغم کے ماحول پر نیوز چینلوں نے سیاست کا بلڈوزر چلانا شروع کردیا۔ ایک ہی پل میں حادثے کی ذمہ داری سدھو کی اہلیہ نوجوت کور پر ڈالنا شروع کردی ۔

چیانلوں نے انتہائی غیر ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے یہ کہنا شروع کردیا کہ اگر نوجوت کور پروگرا میں تاخیر سے نہ آتیں تو حادثہ نہیں ہوتا جبکہ اسی روٹ پر اس سے پہلے کئی ٹرینیں گذر چکی تھیں مگر اسکو نیوز چینلوں نے پوری طرح نظر انداز کردیا ۔

دوسرا الزام یہ لگایا کہ نوجوت کور حادثے کے فورا بعد وہاں سے چلی گئیں او رانہوں نے زخمیوں کی خبر گیری نہیں کی جبکہ نوجوت کور کا کہنا تھا کہ وہ حادثے سے پندرہ منٹ پہلے ہی وہاں سے جاچکی تھیں او رجب گھر پہنچنے کے بعد جب انہیں حادثے کے متعلق معلوم ہوا تو اسپتال پہنچیں ۔ کچھ نیوز چینلوں نے پروگرام کااہتما م کرنے والو ں پر نشانہ لگانا شروع کردیا کیونکہ ان کا تعلق کانگریس پارٹی سے تھا ۔

واضح ہوکہ یہ پروگرام وہیں پر گذشتہ چار دہوں سے منعقد ہورہا ہے مگر جب کوئی حادثہ نہیں ہوا تو کسی نے نہیں پوچھا کہ ریل کی پٹریو ں کے اتنا نزدیک واقع میدا ن میں کیوں پروگرام منعقد کیاگیا؟۔اس سال حادثہ ہوگیا تو روان جلائے جانے کااہتمام کرنے والوں کو حادثے کا ذمہ دار قراردیاجانے لگا۔ کچھ چینلوں نے ریلوے کے ذمہ داروں پر بھی انگلی اٹھائیں اور کہاکہ پاس میں ہی ریلوے پھاٹک تھا او روہاں بیٹھا گیٹ مین ٹرین کو روکوا سکتاتھا یا رفتار کم کرنے کااشارہ بھی کرسکتا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا ۔

ظاہر ہے کہ حادثے ہمیشہ انسانوں کی غلطی سے ہوا کرتے پیں او رغلطی کوئی بھی کرسکتا ہے مگر کسی کو پارٹی کی وجہہ سے نشانہ بنانے او رحادثے کا ذمہ دار اپوزیشن پارٹی کے لوگوں کو ٹہراتے ہوئے بی جے پی کی سرکارکو خوش کرنے کی جو کوششیں چینلوں نے کی او رانتہائی قابل مذمت ہیں

۔ بات یہیں تک رہتی تو غنیمت تھا انتہاپسند ہندؤوں کی نمائندگی کرنے والے سدرشن چینل سدرشن ایڈیٹر ان چیف سریش چاونکے نے تو اپنی گری ہوئی ذہنیت کو مرنے والوں کی لاشوں پر سجادیا او راپنی فرقہ وارانہ ذہنیت کا رنگ ان مظلوموں کے خون پر بھی چڑھادیا جو ایک جشن کا حصہ بننے گئے تھے لیکن ایک بہت بڑے غم کا حصہ بن گئے ۔سریش چاونکے نے ٹوئٹر پر لکھا کہ جب نماز کے لئے ٹرین روکی جاسکتی ہے تو پھر روان کا پتلا جائے جانے کے لئے کیو ں نہیں روکی جاسکتی ۔اس نے نئی دہلی اسٹیشن پر بنی اس مسجد کی تصوئیر بھی پوسٹ کی ہیں جس پر پڑیوں پر لوگ نماز پڑھ رہے ہیں۔

اس بدبخت کو اس بات کاعلم نہیں ہے کہ جہاں مسلمان نماز پڑھتے ہیں وہ جگہ یارڈ سے متصل ہے او رنماز سے ٹرینوں کا آناجانا متاثر نہیں ہوتا لیکن اپنی مسلم دشمنی میں چونکے اس کو اس بات کا خیال بھی نہیں رہا کہ یہ خبر مودی حکومت کے خلا ف جائے گی کیونکہ اس قضیہ کو اٹھانے سے ریلوے منسٹر ی ہی بدنام ہوگی اورحادثے کی تمام تر ذمہ داری ریلوے پر عائد ہوگی او رعام لوگ پوچھیں گے کہ روان جلائے جانے کی جگہ ٹرینوں کی آمددرفت بند کرکے حادثہ روکا کیوں نہ گیا۔ اصل نیوز چینلوں میں بیٹھے لوگ بالکل اسی طرح لاشیں دیکھ کر خوش ہوجاتے ہیں ۔

ایسے لوگ حادثوں کا وقت بھی چینلوں کو حادثے میں مرنے والوں کی نہیں بلکہ اپنی ٹی آر پی کی فکر رہتی ہے‘ اسلئے حادثوں کے وقت بھی بار بار بڑے فخر سے خصوصی کیپشن ڈالتے ہیں اوربار بار کہتے ہیں سب سے پہلے ہم آپ کو دیکھا رہے ہیں ‘ کاش نیوز چینلوں کو کوئی سمجھائے کہ انسانوں کی خدمات کرنا ان کاکام ہے ۔ حادثوں کی ذمہ داری اپوزیشن پر تھوپکر حکومت کو خوش کرنا نہیں۔