عبدالمغنی صدیقی
پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر حیدر آباد سنٹرل یونیورسٹی
اردو ادب میں خواتین کے مسائل پر بہت کچھ لکھا گیا ۔ نثر ہو یا شاعری ان کی زبوںحالی اور ان کی تعریف پر ہر شاعر اور فکشن نگار نے قلم اُٹھا یا ہے ۔ جیلانی بانو نے بھی اپنے دونوں ناولوں میں سماجی و سیاسی سطح پر خواتین کے ساتھ ہونے والی ظلم و زیادتی کو پیش کیا ہے ۔ جیلانی بانو نے خواتین پر ہونے والے گھریلو تشدت کو بے باک انداز میں پیش کیا ہے ۔ ان کے ناولوں میں کم سن لڑکی ، نوجوان خاتون ، بیوی ، ساس اور ہر وہ خاتون رشتہ جو کسی نہ کسی طرح انسانی رشتوں سے منسلک ہو تا ہے پریشان ، تکلیف دہ نظر آتا ہے ۔ ان کے ناولوں کی خواتین کر دار گھریلو زندگی ،خاندانی سازیشوں، سماجی نہ برابرگی کا شکار ہیں جو فرسودہ معاشرے اور مطلب پرست گھریلو و خاندانی نظام کی پول کھولتی ہیں ۔
جیلانی بانو نے اپنے زورِ قلم سے ۱۹۷۲ء میں ناول ’ ایوانِ غزل‘‘ تحر یر کیا ۔ناول کا مو ضوع معاشرتی و سیاسی ہے جس میں مسلم گھرانوں میں خواتین کے ساتھ ہونے والی نسلی و جسمانی تشدد کی داستان بیان کی گئی ہے ۔ جیلانی بانو مسلم گھرانوں میںپنپنے والے ان مسائل کو بے پردہ کیا ہے جو شائد بیسویں صدی کے وسط میں منظرِ عام پر نہیں آتے تھے ۔ اور نہ ہی کسی اخبار یا رسائل کی جلی سرخی بنتے تھے۔ناول میں جیلانی بانو نے واحد حسین ان کے بھائی احمد حسین، واحد حسین کے سسر مسکین علی شاہ طوطا چشمی کے گھرانو ںکو پیش کیا ہے واحد حسین ایک مو قع پرست کے ساتھ ساتھ قدامت پرست ذہنیت کے مالک تھے ۔ حالات کے تحت گرگیٹ کی طرح رنگ بدلنا واحد حسین کو خوب آتا تھا اور انھیں کے نقش ِ قدم پر ان کا بیٹاراشد چل رہا تھا ۔ دوسرا گھرانہ ان کے داماد حیدر علی کا تھا جو ترقی پسند ذہنیت کے مالک تھے اور ا سی طرز پر انہوں نے اپنی بیٹی ’’چاند‘‘ کی پر وارش کی تھی ۔جو ایم بی بی ایس کی تعلیم حا صل کر نا چا ہتی تھی مگر آزاد خیالی اور بے راہ روی نے اسے بے پر واہ اور لاپرواہ بنایا بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ اس نے اپنے چاہنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ کیا ۔ اپنے پڑوس میں مقیم نارائنا نامی لڑکے سے اس نے عشق کا دم بھرا اور نارائنا کی جدائی میں اس نے زہر کھا کر خودسوزی کی کو شش کی ۔ جیسے جیسیچاند کی عمر بڑھتی گئی اس کے چاہنے والوں کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہو تا رہا جس میں شاہد ، کمار سوامی ، شاعر سحر ، وائیلنسٹ جوزف اور رحمان شامل ہیں ۔ ان میں سے بیشتر کا تعلق ڈراموں اور فلمی دنیا میں کام کرنے والوں سے تھا جو کسی نہ کسی طرح غزل کا جنسی استحصال کر ناچا ہتے تھے ۔ ناول میں غزل کی عجیب و غریب ذہنی کشمکش، اور طبعیت کیلئے اس کے والدین ، نانا اور مامو برابر کے شریک تھے جنہوں نے چاند کو یا تو حد سے زیادہ آزادی دی یا پھر اپنے مقاصد کیلئے غزل کو استعمال کیا ۔
تیسرا اور عجیب و غریب مسلم گھرانہ مسکین علی شاہ طو طاچشمی کا ہے ۔ جیلانی بانو نے بیسویں صدی میں مسکین علی شاہ طو طا چشمی کے گھرانہ کو پیش کرتے ہوئے نام نہاد مرشدی گھرانہ میں چلنے والے اُس گھورک دھندے کو بے نقاب کیا ہے جہاں خواتین کی غزت و اہمیت کی کوئی قدر نہ تھی ۔
مسکین علی شاہ طوطا چشمی درگا ہ رحمت علی شاہ کے مجا ور تھے ۔ جیلانی بانو نے مسکین علی شاہ طوطا چشمی کے کر دار سے مسلم معاشرتی نظام کا ایسا چہرہ پیش کیا ہے جس کی بھولی صورت برسوں سے اس عالم میں بسے انسانوں کو گمراہ کئے جا رہی ہے ۔ آج دنیا میں نام نہاد عامل ، اور ڈھونگی مجاوروں نے درگاہوں کو اپنی کمائی کا بہترین ذریعہ بنا یا ہے ۔ بیسویں صدی کے وسط میں جیلانی بانو کا یہ گھرانہ مسلم معاشرت کی ایک اور بگڑتی صورتحال کو پیش کر تا ہے جس میں آگ ہی آگ تھی اور اس کا ایندھن خواتین بن رہی تھیں ۔ یہاں مر د خواتین کے افصل ترین دشمن تھے جبکہ خواتین ہی خواتین کے لئے موت کا پیغا م سنا تی تھیں ۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو جس میں مسکین علی شاہ اور ان کے گھرانہ کی جھلک ملتی ہے :
مسکین علی شاہ کو عورتوں کی اس بے پناہ عقیدت نے بڑا پر دیشان کیا تھاسنا ہے کہ جوان لڑ کی تو اسی لیے پا گل ہو گئی تھی ۔ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر مسکین علی شاہ کو پکار تی تھی اس کی طویل بیماری سے عا جز آکر ایک دن مراد علی اپنی لڑ کی کو لائے او رمسکین علی شاہ طو طا چشمی کے قدموں میں ڈال دیا ۔ مسکین علی شاہ کی سمجھ میں نہ آیا کہ ایک نوجوان نامحرم لڑ کی کو کیسے اپنے حجرے میں پڑا رہنے دیں بالا آخر ان کی اعلیٰ ظرفی کام آئی او رانھوں نے مجبوراً اس لڑکی سے نکاح کر لیا ۔ سارے نوابوں اور جاگیر داروں کی بیگموں کو ایک سستا نسخہ ہاتھ آگیا ۔ لڑ کیاں تھیں کہ اُٹھتی جوانی کی سر شاری میں کھو نے کی بجائے مسکین علی شاہ کی صورت دیکھتے ہی لو ٹن کبو تر بن جاتی تھیں ۔ اس طرح ’’الف لیلہ‘‘ کے احاطہ میں نئے نئے کمروں کا اضا فہ ہو تا گیا اور بچا رے مسکین علی شاہ کو بہت سی پرانی وفا دار بیویوں کو محض اس لیے طلاق دینا پری کہ اللہ میاں نے بیک وقت چار سے زیادہ نکاح جائز قرار نہیں دئیے ۔ مگر نجات کی تلاش میں بھٹکنے والی یہ روحیں ان کمروں میں بھی یوں تڑپتی تھیں جسے جال میں مچھلیاں ، دیواروں سے سر پھو رتیں بچوں کو مار تیں سو کنوں سے لڑ تیں اور مسکین علی شاہ کی صورت دیکھ کر بے ہوش ہوجاتی تھیں ۔ لو گ کہتے تھے کہ مسکین علی شاہ کے ہاںاتنے ہیرے ہیں کہ ان کے ہاں ہر عورت ہیرا چاٹ کر مر تی ہے۔ ‘‘ایوانِ غزل ۵۴تا ۵۵
حق کا اظہا ر کروں میں تو یہ دنیا بڑ ھ کر
میرے ہاتھ سے قلم چھین لیا کر تی ہے
مرحوم حضرت علی احمد جلیلیؔ
ناول نگار عصرِ حاضر سے متاثر ہو کر ناول تحر یر کر تا ہے اور اپنے اطراف و اکناف کے مسائل کو جوں کا توں بیان کر تا ہے ۔ مندرجہ بالا اقتباس اس بات کی طرف اشارہ کر تا ہے کہ سلطنت آصفیہ کے دور میں ایسے لو گوں کی کمی نہ تھی جو انسانوں کو بے وقوف بناکراپنی موٹی کمائی کا بہترین ذریعہ بنا رہے تھے ۔اس کے علاوہ نوابوں اور جاگیر داروں کے گھرانوں کی حقیقت کھول کر سامنے آجاتی ہے جہاں پرنوجوان لڑکیوں کی عزت و آبرو کو ڈھونگی مجاوروں کے ہاتھوں کی کٹ پتلی بنا یا جا رہا تھا ۔ انہی نوابوں و جاگیر داروں کی بے پناہ دولت سے مسکین علی شاہ طو طا چشمی نے ’’الیف لیلیٰ ‘‘ کے نام سے اپنی حویلی قائم کر لی تھی ۔ یہ حویلی خواتین کیلئے ایک قید خانہ تھی جبکہ طوطا چشمی کیلئے ایک عیش پسندی کا سامان ۔جیلانی بانو نے ناجائز دولت کی فراوانی سے تعمیر ہو نے والی حویلی ’’الیف لیلیٰ‘‘ کی بہترین منظر نگاری کو پیش کیا ہے جب کہ شائد ہی انہو ںنے اس ناول کی تخلیق سے پہلے ایسی کچھ خبریں پڑھیں ہوں گی جو آج اخبارات کی سرخی بنتی ہے اور بریکنگ نیوز بھی ۔
جیلانی بانو نے کچھ ایسے مسائل کو اپنے ناول میں تحریر کئے ہیں جو 43سال کا عرصہ گزر نے کے بعد بھی ہمارے اس جدید ترین معاشرے میں کثرت سے پائے جاتے ہیں او رانسان اس کا مسلسل شکار ہوہا ہے ۔مسکین علی شاہ کے علاوہ واحد حسین کے گھرانہ میں بھی خواتین جبراً مزدوری ، تشدت اور ہراسانی کا شکار تھیں ۔ ان میں واحد حسین کی نواسیاں غزل ، چاند،فاطمہ بیگم اور واحد حسین کی بہن لنگڑی پھو پھو شامل تھیں ۔ جیلانی بانو نے نوابی گھرانوںمیں خواتین پر ڈھا ئے جانے والے ظلم و زیادتی کو اُجا گر کیا ہے چاہے وہ خواتین بمقابلہ خواتین ہو یا پھر مرد بمقابلہ خواتین ۔ اس کے علاوہ ان گھرانوں میں کم سن لڑکے ‘ لڑکیوں پر ہونے والے غیر اخلاقی حملوں کوپیش کیا گیا ہے ایک اقتباس ملاحظہ ہو :’’ پھر بشیر بیگم تخت سے اُٹھیں اور دوسرے لمحے انہوں نے غڑاپ سے کو ئی چیز آنگن میں پھنک دی ۔ فاطمہ بیگم نے مڑ کر دیکھا ۔ وہ قصیر کی چو ٹی تھی ۔ میں پہلے ہی بولی تھی میرے ساتھ ضد نکو کر ۔ میرا غصہ بُرا ہو تا ہے ۔ ’’بشیر نے ہانپتے ہو ئے قینچی پٹک دی ‘‘ جیلانی بانو ایوانِ غزل ص ص ۶۰
مندرجہ بالا اقتباس میںواحد حسین کی بیٹی بشیر بیگم کی ہیجانی کیفیت کو پیش کیا گیا ہے ۔ حالاں کہ بشیر بیگم ایک شادی شدہ خاتون تھیںمگر ان میں نہ ہی وہ صلا حیتیں پیدا ہوئیں جو ایک شادی شدہ خاتون میں ہونی چاہیے تھیں اور نہ ہی چھو ٹوں سے اتفاق و محبت ان میں موجود تھی ۔ اس کی سب سے بڑی وجہہ ان کا سسرالی ماحول تھا جس میں نہ ہی انھیں شوہر کی ہمدردی حاصل ہو ئی اور نہ ہی تحفظ ۔ اپنے شوہر حیدر علی خاں کی مسلسل بے رخی نے انھیں بد مزاج بنا دیا تھا ۔ بشیر بیگم نے اس بات کا تحیہہ کر لیا تھا کہ اب باقی کی زندگی اپنے والد کے گھر میں ہی گزاریں گیں ۔بشیر بیگم کو در اصل فاطمہ بیگم کی بیٹی قصیر کی لمبی چو ٹی سے سخت بیر بھی تھا۔ جو اپنے بڑھتے ہوئے بالوں پر ناز کر تی تھی ۔فاطمہ بیگم کی ماں ‘ احمد حسین کے والد کی دوسری بیوی تھی مگر احمدحسین کے والد نواب صاحب نے انھیں جائیداد سے بے دخل کر دیا تھا بعد میں تحقیق سے یہ بھی پتہ نہ چلا کہ فاطمہ بیگم کی والدہ نواب صاحب کی قانونی بیوی تھی یا نہیں ۔ معاشی تنگی کی وجہہ سے فاطمہ بیگم کی بیٹی قصیرکبھی بھی اسکول نہیں جا سکی ۔ یہی وہ قصیر تھی جو بعد میں باغی ہوئی اور تلنگانہ تحریک میں شرکت کر تے ہو ئے کمیو نسٹوں کے گروپ میں شامل ہو گئی ۔
جیلانی بانو کے ناول میں جہاں ایک طرف خواتین کر دار ظلم و زیادتی کا شکار ہیں تو دوسری طرف کچھ ایسے کر دار بھی ہیں جو بغا وت بلند کر تے ہیں ان میں گوہر پھو پھو اور چاند شامل ہیں مگر ان دنوں کر دار وں میں سے صرف گوہر پھو پھو ہی اپنی زندگی کو محفوظ رکھ پائی جبکہ ’’چاند ‘‘گھر یلو تشدت ، مطلب پرستی کا شکار ہو گئی ۔ واحد حسین کی نواسی چاند ’’ایوانِ غزل ‘‘ میں رہتے ہو ئے اپنی ایک نئی طرز زندگی کو اپنا یا تھا ۔ چاندپر اپنے والد حیدر علی خاں کا اثر زیادہ تھا جو ایک ترقی پسند انسان تھے اور لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ساتھ انھیں ہر قسم کی آزادی دئیے جانے کی حمایت کر تے تھے ۔ چاند کا بچپن ترقی پسند معاشرے میں گزرا جبکہ اب جوانی قدامت پرست نوابی گھرا نہ میں گزر رہی تھی ۔ چاند کی سونچ ، تربیت ، اخلاق و آداب ان دونوں گھرانوں کی زد میں پس کر رہے گئے تھے ، نتیجہ چاند کی سو نچ و فکر ایک درمیانی راستہ اختیار کر ہی تھی جسے ایک نوابی گھرانہ میں پنپنے ، پھلنے و پھولنے کا موقع نہیں مل سکتا تھا ۔ چنانچہ ایم بی بی ایس میں داخلہ لینے کے بجائے چاند کالج کے اسٹیج ڈراموں میں دلچسپی لینے لگی اور کئی اسٹیج ڈراموں کئے ۔ ۔جہاں اس کی عاشقی اسٹیج ڈراموں کے ڈائریکٹر بھان صاحب کے ساتھ پروان چڑھنے لگی ۔ چاند اپنی زندگی اپنے طر ز پر جینا چا ہتی تھی اور ہر قسم کی آزادی کی طلب گار تھی ۔ کسی دخل اندازی اسے اب برادشت نہیں ہورہی تھی ۔ اور نانا واحد حسین کو اُس وقت شاہی عتاب نازل ہونے کے اثار واضح نظر آنے لگے جب چاند نے شاہی رشتہ کو ہی ٹھکرادیا ۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو :
’’آخ تھو ۔۔۔ میں کیوں کر نے لگی ایسی اُجاڑ صورتوں سے شادی ‘‘ واحد حسین نے سنا تو تھر تھر کانپنے لگے ‘‘
چاند کا جواب سلطنت آصفیہ کے خلاف نہ صرف بغا وت تھا بلکہ بچپن سے جوانی تک ملنے والی حدسے زیادہ آزادی کا نتیجہ بھی تھا ۔ چاند کے والد حیدر علی خاں کمیو نسٹ پارٹی کے اعلیٰ کار تھے اور سلطنت آصفیہ کی حکومت کے خلاف نبر د آما تھے ۔ انہوں نے اپنی بیٹی کیلئے شاہی رشتہ کی سخت مخالفت کی تھی اورچاند کو اس بات کی اجازت بھی دی کہ وہ اپنی مرضی سے شادی کرے ۔ اس عمر میں چاند کو ہر قسم کی آزادی میسر ہو چکی تھی ۔ ناول کے خواتین کر دار مثلاً غزل ، بتول بیگم ، بشرا بیگم ، فاطمہ بیگم ، گو ہر بیگم المعروف لنگڑی پھو پھو ایسے کر دار ہیں جنھیں ناو ل کی شروعات سے ہی مسائل اور پریشانیوںمیں مبتلا بتایا گیا چاہے قدامت پر ستی کا نوابی گھرانہ ہو یا پھر مسکین علی شاہ کا مجاور گھرانہ یہاں پر خواتین کے ساتھ جانوروں سے بھی بترسلوک روا رکھا جاتا تھا‘ حیدر علی خاں کا گھرانہ ترقی پسند ذہنیت کا مالک تھا مگر انہوں نے آصفیہ سلطنت کے خلاف بغاوت بلند کی اور جان بچا نے کیلئے نلگنڈہ کے پہاڑی علاقوں میں پناہ لے رکھی تھی اسے میں انہو ںنے نہ ہی اپنی بیوی کی کو ئی خبر لی اور نہ ہی اپنی بیٹی چاند کی ۔ ان تینوں گھرانو ں میں خواتین بے یارو مدد گار ، بے سہارا ، مجبوری میں اپنی زندگی کے دن کاٹ رہی تھیں ۔ یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ خواتین خود اپنے گھروں میں اپنوں کے درمیان ہی پل پل جینے کیلئے ہر قدم پر اپنے جذبات ، خیالات ، احساسات کو ما رہی تھیں ۔ ناول جس طر ح آگے بڑھتا جاتا ہے ناول میں موجود خواتین کے کر دار موت کے گھاٹ اُتر تے جاتے ہیں ۔صرف ۲۶ برس کی عمر میں چاند جاں بحق ہو تی ہے ۔ گھر کے باہر اسٹیج ڈراموں اوور گھر میں مطلب پرستی کا شکار چاند اب ٹی ۔ بی کے آخری اسٹیج پر پہنچ چکی تھی مگر موت سے پہلے اس نے اپنی خالہ زاد بہن کو بھی اُسی راستہ پر چلتے دیکھا تو حیران رہے گئی اور غزل کو اس مطلب پرست دنیا سے محفوظ رکھنے کی تدبیر بتانے لگی مگر غزل بھی پو ری طرح اس مکڑی کے جال میں پھنس چکی تھی جہاں پر صرف موت کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا ۔ ناول میں ایک چاند کی مو ت ہی المناک نہیں بلکہ اس کی خالہ بتول بیگم ، ان کی ولدہ بی بی بھی ان المناک اموات میں شامل ہیں جنہوں نے زندگی بھر مصائب اور پریشانیوں میں گزارے ۔ بی بی کا واحد حسین کے ساتھ شادی کے بندھن میں بندھنا ایک حادثہ تھا ۔ بی بی کے شادی کا قصہ ملاحظہ ہو:
’’واحد حسین کی خالہ اماں نماز کی نیت باندھ چکی تھیں ۔ مگر سامنے سورج کی طرح دمکتی ہو ئی ایک لڑکی کو دیکھ رکر انھیں نیت توڑ نا پڑی ۔ الہی خیر ۔ اس چھو کر ی کو سلامتی سے گھر پہنچا ئیو ۔ ۔۔۔واحد حسین نے اس قیامت کے فتنے کو دیکھا اور جیسے سینما کی متحرک تصویر چلتے چلتے اچانک رک جاتی ہے ، یوں ہی ساکت ہو گئے ۔ ۔۔۔پانچ ہزار نقد کی لالچ میں منشی صاحب کو پگھلا دیا ’’ایوانِ غزل ‘‘ کے سب سے بڑے ہال ’’بیت الغزل‘‘ میں بی بی دلہن بنی اپنا جلوہ دکھا رہی تھیں ۔ جب چار مضبوط عورتوں نے مل کر نکاح کے اقرار کو ان کی گر دن پکڑ کر ہلا ئی تو وہ بے ہو ش ہو گئیں اور دلہا کے بدلے سب سے پہلے ان کی صورت حکیم نے دیکھی ۔ ‘‘
حویلی کی ایک بزرگ شخصیت کا خوف اس بات کی عکاسی کر تا ہے کہ حویلی میں کس قدر درندا صفت مرد حضرت موجود تھے، یہاں خاتون ہی خاتون کی عزت و آبرو کو بچانے کیلئے رب سے التجا کر تی اور کسی غیبی طاقت پر منحصر رہتی یا پھر ان کے پاس اپنے آپ کو یا پھر حویلی میں موجود کسی دوسرے خاتون یا لڑکیوں کو ان کی قسمت پر چھو ڑ نے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہ تھا ۔ یعنی ’’ایوانِ غزل ‘‘ ایک خوفنا ک جنگل تھا جہاں درندا صفت حضرات دندناتے پھر تے ۔ کسی بھی بزرگ خواتین کی اتنی مجال نہ تھی کہ وہ واحد حسین اوران کے بھائی احمد حسین کے خلاف آواز بلند کرے ۔ منشی کی بیٹی ’’بی بی ‘‘ اس شادی سے راضی نہیں تھی ‘ والد کی خاموشی معائنہ خیز تھی ، خواتین ہی دلہن بنی‘ بی بی کے ساتھ سازش کر گئیں جبکہ واحد حسین نے غیر شرعی طریقہ سے بی بی کو اپنی ازدواجیت میں شامل کر لیا ۔بی بی نے زندگی بھر مسائل کا سامنا کیا اور یہی مسائل ان کے بیٹیوں کی قسمت میں بھی آئیں ، بتول بیگم اپنے شوہر ہمایوں مرزا کی مار پیٹ کا شکار ہوئیں اور انتقال کر گئیں ۔ دوسری بیٹی بشیر بیگم کی زندگی بھی مصائب و پریشانیوں میں مبتلا تھی ۔ناول کے تمام خواتین کر دار ایک جانب ذہنی انتشار ، مصائب و گھر یلو تشدت کا شکار تھیں ۔ تو دوسری طرف کئی واقعات میں خواتین ہی خواتین کیلئے نفسیاتی جنگ میں مبتلا نظر آتی ہیں ۔ ’’ایوانِ غزل‘‘ میں یہی ایک کمزوری واضح نظر آتی ہے کہ اس حویلی میں خواتین میں کہیں بھی اتحاد و اتفاق نہیں تھا ۔ یہ تمام کر دار استحصال کا شکار ہو تی تھیں اور پھر بعد میں ایک دوسرے کو استحصال کا شکار بنا تی ۔مسلم معاشرے کی زبوں حالی کی ایک اہم وجہہ خواتین کی جہالت ، آپسی نا اتفاقی ، ایک دوسرے پر نفسیاتی برتری ، سماجی و اسلامی اقدار کی پامالی ، دینی ودنیاوی تعلیم سے دوری ہے ۔’’ایوانِ غزل‘‘ میں یہی بُرائیاں ، عیب او ر نا انصافی خاتون کر داروں میں واضح نظر آتی ہے ۔ ناول کا مرکزی کر دار ’’غزل ‘‘ بھی انہی نا اتفاقیوں اور نہ انصافیوں کا شکار ہوئی اور آخر میں خودکشی کے ذریعہ اس ایوانِ غزل سے نجاد پائی ۔