جھارکھنڈ میں علاقائی جماعتوں کا دبدبہ عدم استحکام کی اصل وجہ

رانچی۔/28نومبر، ( سیاست ڈاٹ کام ) اب جبکہ تشکیل جھارکھنڈ کے بعد گزشتہ 14سال کے دوران دسویں حکومت کے انتخاب کیلئے 5مرحلوں کے چناؤ کا عمل جاری ہے۔ رائے دہندگان میں عدم استحکام کا مسئلہ توجہ کا حامل ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی انتخابی تقاریر میں اس مسئلہ کو اُٹھایا ہے جبکہ 15نومبر 2000 میں تشکیل کے بعد یہ ریاست عدم استحکام سے دوچار ہے۔ یہ ریاست قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے بعد خاطر خواہ ترقی سے محروم ہے کیونکہ ہر سال چھ مہینے میں یہاں حکومتیں بدلتے رہتی ہیں۔ سابق چیف منسٹر ارجن منڈا جنہوں نے مخلوط حکومت کی تین مرتبہ قیادت کی ہے کہا کہ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے یہاں پر ترقی کا فقدان ہے۔ جاریہ اسمبلی انتخابات میں ارجن منڈا حلقہ کھار سوان سے امیدوار ہیں، انہوں نے کہا کہ ریاست کوترقی کی راہ پر گامزن کرنے ضلع یا پنچایت سطح پر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے لیکن نو تشکیل ریاست میں اس طرح کی منصوبہ بندی نظر نہیں آرہی ہے اور یہاں کی سیاست ’ توڑ جوڑ ‘ کے اطراف گھومتی ہے۔ ارجن منڈا اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں یہ وضاحت کی کہ مخلوط حکومتوں کی تشکیل قصہ پارینہ بن جائے گا کیونکہ اب ادارہ جاتی نظم کا عمل شروع ہوگیا ہے۔ سابق ڈپٹی چیف منسٹر اور AJSU کے صدرسدیش مہاتو جو کہ بی جے پی کی زیر قیادت تمام حکومتوں میں وزیر رہ چکے ہیں یہ ادعا کیا کہ قیادت کے فقدان سے عدم استحکام کی صورتحال کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جھار کھنڈ کی پسماندگی کیلئے قیادت کی کمی ذمہ دار ہے۔ ایک اور لیڈر مدھو کوڈا جنہوں نے23ماہ کی یو پی اے حکومت کی قیادت کی ہے کہا کہ مخلوط حکومت سے علاقائی جماعتوں کے دباؤ اور رسہ کشی کے باعث عدم استحکام پیدا ہوجاتا ہے۔ مسٹر کوڈا حلقہ مجھگاؤں سے اور ان کی اہلیہ جگناتھ پور حلقہ سے مقابلہ کررہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کے 50 فیصد حصہ پر علاقائی جماعتوں کا اثر ہے اور عوام کی سوچ فطری ہیکہ ان سے فوائد ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ مخلوط سیاست میں رسہ کشی عام بات ہے لیکن ریاست کی ترقی کے معاملہ میں کوئی شخصی ایجنڈہ حائل نہیں ہونا چاہیئے۔ ماہرین تعلیم کا استدلال ہیکہ جھارکھنڈ میں بحران کی صورتحال سیاسی و ثقافتی عناصر کا نتیجہ ہے کیونکہ جغرافیائی اور تہذیبی تفریق سے کسی ایک جماعت کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہوپائی۔

رانچی یونیورسٹی میں ڈپارٹمنٹ آف اکنامک کے پروفیسر رمیش شرن نے بتایا کہ ریاست میں چھوٹی جماعتیں جے ایم ایم ،AJSU لیڈروں کی جیب میں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جھار کھنڈ کی تشکیل سے قبل ہی علاقائی جماعتیں جے ایم ایم ، آر جے ڈی اور AJSU کے اقتدار کا مرکز بن گئی تھیں کیونکہ جے ایم ایم کاگڑھ سینتھال پراگنس ، آر جے ڈی کا گڑھ پلموڈیویژن ہے اور ریاست میں کسی ایک جماعت کو اکثریت حاصل کرنا مشکل ہے۔ پروفیسر شاہد حسن ( ڈپارٹمنٹ آف نفسیات رانچی یونیورسٹی ) نے کہا کہ مختلف جماعتیں عوام کے مختلف گروپس سے مخاطب ہیں جس کے نتیجہ میں سیاسی استحکام قائم ہونا مشکل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بعض جماعتیں قبائیلوں کی ترقی اور دوسری جماعتیں دلتوں کی فلاح وبہبود اور بعض جماعتیں اقلیتوں کو رجھانے کی کوششوں میں ہیں۔ تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ سماج کے تمام طبقات کے اجتماعی مسائل پر بات کی جائے۔ لہذا جھارکھنڈ میں اس مرتبہ انتخابات منفرد نوعیت کے ہوں گے اور عوام کو 27ڈسمبر تک انتظار کرنا ہوگا۔