جو ہے پردوں میں پنہاں، چشمِ بینا دیکھ لیتی ہے…

محمد مبشر الدین خرم
ہندستان کا مستقبل تیل کی قیمت یا معیشت کی تباہی پر منحصر نہیں ہے لیکن مستقبل کے عظیم ہندستان کی تعمیر اس ملک کے دستور کی حفاظت کے ذریعہ ہی ممکن ہو سکتی ہے اور دستور کی حفاظت کے لئے ہر ہندستانی شہری کو کمر بستہ ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ ملک کا دستور تباہ ہوجائے گا تو ملک میں کوئی چیز باقی نہیں رہے گی ۔ملک میں موجودہ حکومت کی جانب سے شہری حقوق کی پامالی اور عوام کی قوت برداشت کا مشاہدہ کرتے ہوئے جو سازش تیار کی جا رہی ہے اس سازش کو اگر اب نہیں سمجھا گیا اور انکشاف نہیں کیا گیا تو ممکن ہے کہ اس ملک کے شہریوں کی بالخصوص ان شہریوں کی داستاں بھی باقی نہیں رہے گی جو اس ملک کو جنت نشاں ‘ قومی یکجہتی کا علمبردار ‘سیکولر اور سب کو ساتھ لیکر چلنے والی مملکت سمجھتے ہیں اور جن کا اس ملک کے دستور پر مکمل ایقان ہے۔ جمہوری نظام حکومت میں عوامی رائے انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہے لیکن جب عوام میں بے حسی اور بے اعتنائی فروغ پانے لگتی ہے تو ایسی صورت میں سازشی عناصر اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ان کے صبر کا پیمانہ جانچنے لگتے ہیں اور ہندستان میں موجودہ حکومت کئی مسائل پر عوام سے راست الجھتے ہوئے ان کے صبر کو آزمانے کی کوشش کر رہی ہے۔پٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کے ذریعہ عام شہریوں کی برداشت کا جائزہ لیاجا رہا ہے تو روپیہ کی قدر میں ہونے والی گراوٹ کے ذریعہ ملک کے سرمایہ دار طبقہ کی حالت کا اندازہ لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اسی طرح ملک کے ایسے ادارے جس میں حکومت راست مداخلت نہیں کرسکتی ان اداروں میں مداخلت کے ذریعہ ہندستان کے ذی شعور طبقہ کی بے حسی کا اندازہ لگایا جا رہا ہے۔
2014 میں نریندر مودی کے اقتدار حاصل کرنے کے بعد جو صورتحال پیدا ہوئی اس کا اندازہ بیشتر سبھی ہندستانیوں کو ہے لیکن عوام میں اب تک یہ احساس ہوا کرتا تھا کہ ملک میں ایسے ادارے بھی ہیں جو ملک کی جمہوری حکمرانی کی غلط پالیسیوں پر لگام کسنے کی قوت رکھتے ہیں جن میں عدلیہ انصاف رسانی کیلئے ‘ ریزرو بینک آف انڈیا ملک کی معاشی حالت کے لئے ‘ سی بی آئی ملک میں ہونے والے سنگین جرائم کی تحقیقات کے لئے اور الیکشن کمیشن آف انڈیا ملک میں غیر جانبدارانہ انتخابات کیلئے معروف ہیں اسی طرح سنٹرل ویجلنس کمیشن سرکاری رشوت ستانی کے معاملات کے لئے معروف ہیں ۔ ان ادارو ںمیں کسی بھی طرح کے فیصلوں کے لئے حکومت کے راست احکامات کو قبول نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے لئے کمیٹیاں ہوتی ہیں جو فیصلہ کرتی ہیں لیکن 2014کے بعد ملک میں ان اداروں میں حکومت کی نہیں بلکہ راست وزیر اعظم کی مداخلت کے کئی واقعات سامنے آچکے ہیں لیکن اس کے باوجود عوام میں موجود خاموشی حکومت کو اپنی من مانی کا موقع فراہم کر رہی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد ایسے اداروں کو نشانہ بنانا شروع کیا جو کہ ملک میں بالواسطہ طور پر جمہوریت کی حفاظت میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں اور اعلی سطح پر جمہوری حکمرانی کا احساس دلاتے ہیں۔اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان اداروں کو نشانہ بنانے کا مقصد دراصل دستور ہند کو نشانہ بنانا ہے ۔عدلیہ ‘ آر بی آئی ‘ سی بی آئی ‘ ای سی آئی اور سی وی سی کی تباہی پر خاموشی ملک میں صدارتی پارلیمانی نظام کی عکاس بنتی جا رہی ہے۔

8نومبر 2016 کو نریندر مودی نے آر بی آئی کی اعلی سطحی کمیٹی کی اجازت تو کجا ان سے مشاورت کے بغیر رات 8بجے کرنسی تنسیخ کا فیصلہ کرتے ہوئے ریزرو بینک آف انڈیا کے امور میں مداخلت کے ذریعہ یہ پیغام دیا کہ وہ ملک میں پارلیمانی جمہوری نظام کے حق میں نہیں ہیں بلکہ وہ آمرانہ طرز حکمرانی کے قائل ہیں۔ اس کے بعد حکومت کی عدلیہ میں مداخلت کے کئی واقعات رونما ہونے کے بعدسال 2017 میں ماہ اگسٹ کے دوران گجرات سے منتخب ہونے والے رکن راجیہ سبھا جناب احمد پٹیل کو شکست سے دو چار کرنے کیلئے الیکشن کمیشن آف انڈیا کے معاملات میں ان کی راست مداخلت سامنے آئی۔سال 2018جنوری میں نریندر مودی حکومت کے دور میں عدلیہ کی صورتحال پر ملک کی عدالت عظمی کے 4 سینیئر ترین ججس نے مجبوری میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عدلیہ پر دباؤ کا اعتراف کیا اور ججس کے انتخاب کے طریقۂ کار میں حکومت کی مداخلت کا انکشاف کیا۔اسی سال حکومت ہند کی جانب سے سنٹرل ویجلنس کمشنر کے تقرر کے خلاف عدالت عظمی میں درخواست داخل کی گئی تھی لیکن ماہ جولائی میں سپریم کو رٹ نے اس درخواست کو مسترد کردیا لیکن درخواست گذار نے سی وی سی کے تقرر کو چیالنج کرتے ہوئے یہ الزام عائد کیا تھا کہ وہ ’’راڈیا‘‘ ٹیپ معاملت میں کاروائی سے گریز کرتے رہے۔ 25 نومبر 2018 کی علی الصبح وزیر اعظم نے سی بی آئی ڈائریکٹر مسٹر آلوک ورما کو ان کی خدمات سے رات دیرگئے اچانک فارغ کردیا۔آر بی آئی میں مداخلت بیجا‘ ای سی آئی میں مداخلت کے بعد اب سی بی آئی میں مداخلت کے معاملہ کے منظر عام پر آنے کے بعد یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ ملک میں حکومت کسی سیاسی جماعت یا جمہوری اصولوں کے مطابق عوام کی نہیں ہے بلکہ صرف نریندر مودی کی ہے جو اپنی من مانی کر رہے ہیں۔

ہندستان میں دستور کے تحفظ کے لئے اقدامات کے سلسلہ میں کئی گوشوں سے آواز اٹھ رہی ہے لیکن دستور میں حاصل اختیار کے ذریعہ دستور کی حفاظت کیلئے حکومت کا مقابلہ کرنے کوئی تیار نہیں ہے جبکہ ملک میں موجود حکومت ملک اور اس کے شہریوں کے لئے کسی سانحہ سے کم نہیں ہے کیونکہ اس حکومت کی طرز حکمرانی نے ملک کو تباہ کرنے میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا ہے بلکہ اس حکومت کی پالیسیوں نے ملک کے ہر طبقہ کو مشکلات میں مبتلاء کررکھا ہے اس کے باوجود حکومت اس بات سے بے پرواہ ہے کہ ملک میں بغاوت ہوسکتی ہے ۔ حکومت کے بے پرواہ ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عوام کو اس بات کا احساس نہیں ہو رہا ہے کہ ان اداروں میں مداخلت کے ذریعہ حکومت بالواسطہ دستور پر حملہ کرنے کا نشانہ مقرر کئے ہوئے ہے۔ ملک کے دستور میں شہریوں کو حاصل حقوق سلب کرنے کے لئے جو کوششیں کی جا رہی ہیں اس کا اندازہ شہریوں کے غذائی عادات پر کاری ضرب لگانے کے علاوہ مذہبی آزادی پر حملہ سے کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے باوجود ہندستانی شہریوں کی جانب سے صبر‘ تحمل اور نظر انداز کی پالیسی نے حکومت کے حوصلوں میں اضافہ کیا ۔ حکومت ہند نے طلاق ثلاثہ معاملہ میں پارلیمانی جمہوریت کو نظر انداز کرتے ہوئے آر ڈیننس کی راہ اختیار کرتے ہوئے ملک میں بسنے والے مسلمانوں کے صبر کا اندازہ کرلیا جبکہ جلی کٹو معاملہ میں حکومت کو عوام کی برہمی کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے حکومت نے عدلیہ سے اختلاف کرتے ہوئے آرڈیننس کے ذریعہ قیام امن کی راہ ہموار کی جو کہ یہ ثابت کرتا ہے کہ حکومت کو کونسی زبان سمجھ میں آتی ہے اور حکومت نمائندگیوں اور دھمکیوں کو کیوں نظر انداز کرتی ہے۔

مذہبی آزادی کا معاملہ ہویا ملک میں شہریوں کے تحفظ کے امور ہوں ‘ شہریت کی جانچ کی تنقیح ہو یا شہریو ںمیں خوف پیدا کرنے کی کوشش ان تمام معاملات میں حکومت کی خاموشی بھی راست مداخلت کے مترادف ہے اور حکومت ان بنیادی امور پر اقدامات کے بجائے اس نظریہ کو فروغ دینے میں مصروف ہے جو ملک میں مذہب کی بنیاد پرعوام کو منقسم کرے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے نظریات سے سب واقف ہیں اور نریندر مودی خود ایک آر ایس ایس کے کارکن ہیں تو وہ اسی نظریہ کے ماننے والے ہیں جو ہندوستان کو صرف ایک مذہب کے ماننے والوں کا ملک تصور کرتے ہیں اور آر ایس ایس کے بنیادی نظریہ میں یہ بات شامل ہے کہ آر ایس ایس مسلمانو ںکو اس ملک کا حصہ نہیں سمجھتی اس کے علاوہ ہندوؤں میں بھی وہ اقتدار کیلئے اعلی ذات کو ہی اہل تصور کرتی ہے۔وزیر اعظم نے ملک کے تمام ایسے اداروں کو نشانہ بنایا ہے جن میں مداخلت کے وہ مجاز نہیں ہیں لیکن وہ اس ملک میں اب بھی بری افواج‘ بحریہ اور فضایہ پر کنٹرول حاصل کرنے سے قاصر رہے ہیں شائد اسی لئے وہ ملک کے دفاعی نظام کو تباہ کرنا چاہتے ہیں اور بالواسطہ ملک کے دفاعی نظام میں مداخلت کی کوشش کے طور پر ہندستان ائیروناٹکس لمیٹیڈ سے جنگی طیاروں کی تیاری کا ٹھیکہ چھین کر انیل امبانی کی 10روزہ کمپنی کو دیا گیا ہے جو کہ رافیل معاہدہ سے بدنام ہے جس میں وزیر اعظم نے آر بی آئی اور سی بی آئی کی طرح اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فیصلہ کرتے ہوئے ہندستان کی اثاثہ کمپنی سے ٹھیکہ چھین کر قرض میں تباہ اپنے دوست کی کمپنی کو 34ہزار کروڑ کا ٹھیکہ دلوایا ہے۔
ہندستان میں شائد ہی کوئی ایسا شہری ہوگا جو اس ملک سے محبت نہیں کرتا ہو اگر کوئی ایسا شہری ہے تو وہ ہندستانی نہیں ہوسکتا کیونکہ ہندستان کے دستور نے شہریوں کو جو حقوق فراہم کئے ہیں ان حقوق کے استعمال میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہونے کے بعد اگر کوئی ملک سے محبت نہیں کرتا ہے تو وہ احسان فراموش کہلائے گا اور جو ملک سے محبت کرتا ہے اسے ملک میں کسی سے بھی خوفزدہ ہوئے بغیر اپنے نظریہ کو پیش کرنے کا حق حاصل ہے۔ اس ملک کے دستور نے جہاس ایک شہری کو ایک ووٹ کا حق فراہم کیا ہے وہیں ملک کے وزیر اعظم کو بھی ایک ووٹ کا حق دیا ہے ‘جس طرح شہری حکومت کے خلاف آزادانہ طور پر اپنی رائے پیش کرسکتا ہے اسی طرح برسراقتدار طبقہ کو بھی اپنی رائے پیش کرنے کا حق حاصل ہے۔اس ملک کے دستور نے شہریوں کو اپنے مذہب پر مکمل آزادی کے ساتھ عمل کرنے کا حق فراہم کیا ہے چاہے شہری کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔دستور ہی ہے جس نے ہر ہندستانی کو مساوی حقوق فراہم کئے ہیں اور اب یہ دستور ہی خطرہ میں ہے بلکہ جس رفتار سے کاروائیاں انجام دی جا رہی ہیں اور عدلیہ کے فیصلوں کی دھجیاںنہ صرف اڑائی جا رہی ہیں بلکہ مجوزہ فیصلوں کے دھجیاں اڑانے کے اعلانات کئے جا رہے ہیں۔ حکومت کی ان گروہ کو حاصل پشت پناہی سے ہر کوئی واقف ہے اسی لئے ہر محب وطن کو چاہئے کہ وہ اپنے ملک کے دستور کی حفاظت کرے کیونکہ یہ دستور کی حفاظت نہیں بلکہ اپنے حقوق کی حفاظت ہے اور جب آپ اپنے حقوق کی حفاظت نہیں کرسکیں گے تو آپ اس ملک میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے کسی بھی حصہ میں آزاد خیالی کے ساتھ زندگی نہیں گذار پائیں گے۔