محمد مصطفی علی سروری
سورج پنوار کو اس کی ماں نے نئے جوتے دلوائے تھے لیکن سورج جب بھی اسکول سے گھر واپس آتا تو اکثر اس کے جوتے پھٹے ہوئے ہوتے تھے۔ سورج کی ماں پونم اپنے بچے کے جوتوں کو پھٹا ہوا دیکھ کر بھی نہ ناراض ہوتی تھی اور نہ غصہ کرتی تھی۔ ہاں تھی تو وہ ایک بیوہ ہی بس اب سورج کے لیے نئے جوتے خرید نے کے لیے وہ پیسوں کی بچت شروع کرتی تھی۔ سورج دہرہ دون کی بیوہ پونم کا لڑکا تھا۔ سورج کے علاوہ پونم کو دو اور لڑکے بھی تھے۔ پونم اپنے لڑکے سورج کو جو سب سے چھوٹا تھا پڑھا لکھا کر بڑا آدمی بنانا چاہتی تھی لیکن مسئلہ یہ تھا کہ پونم کے گائوں میں اسکول کافی دور تھا اور سورج کو روزانہ یہ دوری طئے کرنی پڑتی تھی۔ سورج غریب خاندان سے تھا اور اسکول جانے کے لیے اس کو پیدل ہی جانا پڑتا تھا لیکن معلوم نہیں کیوں سورج اسکول کو بھی دوڑ کر جاتا تھا اور بھاگ دوڑ میں اس کے جوتے بھی پھٹ جاتے تھے لیکن سورج اپنے اسکول میں تیز دوڑنے والے لڑکے کے طور پر مشہور ہوگیا تھا اور جب بھی دوڑ کے مقابلے ہوتے تو سورج کو بلایا جاتا اور وہ اسکول کی دوڑ کے ہر مقابلہ کو جیت لیتا تھا۔ معلوم نہیں کیوں سورج کی ماں نے اس کو اس بات کے لیے کبھی منع نہیں کیا۔ وہ اپنے جوتے پھاڑ کرگھر مت آئے۔ وہ جانتی تھی کہ اس کے لڑکے کے جوتے اس لیے پھٹ جاتے تھے کہ وہ اسکول جانے کے لیے دوڑلگاتا تھا اور دوڑ کے مقابلوں میں حصہ لیتا تھا۔
قارئین آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ دہرہ دون کی اس بیوہ کے لیے اپنے چھوٹے لڑکے کے لیے نئے جوتے خریدنے کا مطلب دوسوبیس (220 ) روپے جمع کرنا۔ اپنے شوہر کے گذر جانے کے بعد سورج کی ماں پونم ایک نرسری میں کام کر کے گذارہ کرتی تھی اور اب وہ کسی نہ کسی طرح پیسے جمع کر کے اپنے بچے سورج کے لیے نئے جوتے (PT) کے خریدا کرتی تھی۔
سورج جب 6 مہینے کا تھا اس وقت اس کے والد اُدئے سنگھ فاریسٹ مافیاء کی گولیوں کا نشانہ بن کر مرگئے تھے۔ وہ فاریسٹ گارڈ کی نوکری کرتا تھا۔ اب سورج کی پرورش اس کی ماں کے کاندھوں پر تھی اور سورج کی ماں نے اپنے بچے کو اسکول بھجوانے کے لیے بار بار اس کو نئے جوتے دلوائے اور ایک ماں کی یہ دیوانگی یوں ہی رائیگاں نہیں گئی۔ اخبار انڈین ایکسپریس کی 17؍ اکتوبر 2018 کی رپورٹ کے مطابق ارجنٹینا کے شہر بیونس ایریز میں 6؍ اکتوبر سے شروع ہوئے Youth Olympics مقابلوں میں دہرہ دون کی بیوہ پونم کا 18 سالہ لڑکا سورج اکلوتا ہندوستانی تھا جس نے پانچ ہزار میٹر کی دوڑ کے مقابلوں میں چاندی کا تمغہ جیت کر ہندوستان کا نام روشن کیا۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق ارجنٹائنا میں دوڑ کے بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لینے کے لیے سورج کے ہاں خود اس کے جوتے بھی نہیں تھے۔ اس نے منیش سنگھ راوٹ کے جوتوں کو پہن کر دوڑ لگائی تھی۔ منیش سنگھ ایک اولمپئن ہیں۔ انہوں نے سورج کی غربت اور دوڑنے میں اس کے جنون کو دیکھ کر اپنے جوتے اس کو تحفہ میں دے دیئے۔ یہ جوتے سورج کو بڑے ہوتے تھے۔ اس نے اپنے پائوں میں ساکس کی ایک زائد جوڑی پہن کر ان جوتوں کو استعمال کیا۔ سورج نے اخبار کو بتلایا کہ کئی مرتبہ اس کے جوتے پھٹ جاتے تھے اور اس کی ماں کے پاس نئے جوتے خریدنے کے لیے پیسے نہیں رہتے تو وہ اس کے پھٹے جوتوں کو سی کر دیتی تھی۔
سورج کی دوڑ کے مقابلوں میں دلچسپی کو دیکھ کر اس کے دو بھائی بھی اس کی مدد کرتے تھے۔ ان دو بھائیوں نے مل کر سورج کے لیے ٹریک سوٹ خرید کر دیا۔ کوئمبتور میں سورج نے گولڈ میڈل جیتا تو اس کو اسپورٹس کے ایک سرکاری پروگرام کے تحت اسپورٹس ہاسٹل میں داخلہ مل گیا۔ سورج کے مطابق ہاسٹل میں اس کو اچھا کھانا ملنے لگا تو اس نے اپنے اندر نئی توانائی محسوس کی اور اس کے مظاہرے میں بہتری آ گئی۔
سورج کے کوچ انوپ بشسٹ کے مطابق اس کی دلچسپی اور لگن ہی اس کی اصل طاقت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سورج چاہے سکنڈ ہینڈ شوز استعمال کرے یا پرانے شوز۔ اس نے ہمیشہ بہتر سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اب ارجنٹینا میں سورج نے ایک چاندی کا تمغہ جیت لیا تو اس کے گھر میں اس کی ماں اور دونوں بھائی بڑے خوش ہیں۔ انہوں نے سورج سے وعدہ بھی کرلیا کہ اب کی مرتبہ وہ سورج کو ایک نئے جوتوں کا تحفہ دیں گے۔
قارئین کیا سورج جس کی عمر صرف 18 برس ہے اور جو ایک بیوہ کا لڑکا ہے کی زندگی اور کھیل کود کے مقابلوں میں کامیابی کی کہانی سے ہم کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ کیا ہماری نوجوان نسل کے لیے سورج کی زندگی سے اس کی جدو جہد سے، اس کی لگن سے اور کچھ کردکھانے کے جذبے سے کچھ سبق ملتا ہے۔ جیسا کہ سورج کے کوچ انوپ بشسٹ نے انڈین ایکسپریس اخبار کو بتلایا جوتے چاہے کسی کے استعمال شدہ ہوں یا پرانے سورج نے کبھی اپنے مظاہرہ کے متعلق، اپنے اچھے پرفارمنس کے متعلق کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ سب سے اہم بات کہ جو نوجوان اپنے والدین اور سرپرستوں سے ہی اس بات کے لیے جھگڑا کرتے ہیں کہ ان کو ورثہ میں والدین کی جائیداد اور بینک بیالنس نہیں ملا اور جو بچے اپنے والدین سے اس بات کے لیے شکایت کرتے ہیں۔ انہیں کرکٹ کھیلنے کے لیے 5 ہزار کا کٹ (Kit) نہیں دلایا گیا، انہیں نئے برانڈ کا فون نہیں دیا گیا، وہ ذرا سا ایک لمحے کے لیے سونچیں۔
کامیابی حاصل کرنے کے لیے والدین کی جائیداد اور بینک بیالنس کا ہونا ضروری نہیں ہے اور نہ کوئی اسمارٹ فون ہی آپ کو اسمارٹ بناسکتا ہے۔ سورج کتنے غریب گھر سے تعلق رکھتا ہے ذرا اندازہ کیجئے کہ اس کی ماں کے پاس PT کا شوز جو (220) روپئے میں آتا ہے خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہوتے تھے اور جس کو کامن ویلتھ گیمس کھیلوں کے لیے select کرلیا گیا لیکن دوڑنے کے مقابلے میں حصہ لینے اس کے پاس نیا شوز نہیں تھا لیکن سورج نے استعمال شدہ جوتوں کے ساتھ دوڑ لگاکر اپنے آگے بڑھنے کا سفر جاری رکھا۔
قارئین سورج کی کہانی کوئی اکلوتا واقعہ نہیں ہے کہ یہ کہدیا جائے ارے بھائی دو ایک ایسے واقعات تو ہوتے ہی ہیں۔ اب ان سے کیا سیکھا جاسکتا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے، حالیہ عرصے کی ایک اور مثال یہاں موزوں معلوم ہوتی ہے۔ میری مراد آسام کی 18 سالہ لڑکی ہیماداس سے ہے۔
12 ؍ جولائی 2018 کو IAA ورلڈ چمپئن شپ کے ٹریک اینڈ فیلڈ مقابلوں کے 400 میٹر مقابلہ میں ہیما داس گولڈ میڈل جیت کر پہلی ہندوستانی اتھلیٹ بن گئی جس نے اس طرح کے عالمی مقابلوں میں گولڈ میڈل جیتا۔ ہیما داس کا تعلق آسام کے ایک غریب کسان گھرانے سے ہے۔ جہاں اس کے چھ بھائی بہن رہتے ہیں۔ ہیما داس جب کھیلنے میں دلچسپی لینے لگی تو فٹبال میں اس کی دلچسپی تھی لیکن اسکول میں فزیکل ٹیچر نے ہیما داس کو دوڑنے کی ترغیب دلائی۔ ہیما داس کو دوڑنے کی مشق کے لیے نہ تو گرائونڈ میسر تھا اور نہ پائوں میں جوتے۔ اپنے والد کے چاول کے کھیتوں میں پانی اور کیچڑ میں ہی ہیما نے دوڑنا سیکھا۔ ٹیچرس اور ٹرینرس نے ہیما کو جن چیزوں کی تعلیم دی ہیما نے ویسے ہی اپنے مظاہرہ کو بہتر بنانا سیکھ لیا اور پھر دو برسوں میں غریب کسان کی لڑکی نے دنیا کو بتلادیا کہ غریبی عیب نہیں اور غریبوں میں صلاحیت کی کمی نہیں۔ یوں دنیا نے ہیما داس کو دیکھا کہ 400 میٹر ریس کے مقابلوں میں اس نے ہندوستان کو پہلا گولڈ میڈل دلوایا۔
محنت کرنے والوں کو ہی کامیابی ملتی ہے اور کامیابی پیسوں کا نام نہیں ہے۔ غریب بھی جب سچی لگن اور پوری جدو جہد سے کام کرتا ہے تو اس کو ترقی کے سفر سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ہیما داس کی کامیابی کو دیکھ کر ہی جوتے بنانے والی ایک انٹرنیشنل کمپنی (Adidas) نے ہیما کے ساتھ ایک تشہیری مہم کے لیے معاہدہ کیا ہے جس کے تحت کمپنی ہر سال ہیما داس کو 10 تا 15 لاکھ روپئے اور اس کی تربیت کا پورا سامان فراہم کرے گی۔ قارئین یہ کامیابی نہیں تو اور کیا ہے جس لڑکی کے والدین کے ہاں رہنے کے لیے موزوں اور ٹھیک ڈھنگ کا گھر نہیں اس کے لیے ہر سال 10 تا 15 لاکھ کی آمدنی اور پھر اس کی ٹریننگ اور کھیلنے کا سارا سامان گھر بیٹھے ملنا بڑی بات نہیں تو اور کیا ہے۔ایک ایسی لڑکی جس کے پاس کبھی دوڑنے کے لیے صحیح جوتے نہیں ہوتے تھے اب وہ ایک جوتے بنانے والی بین الاقوامی کمپنی کی نمائندہ بن گئی ہے۔
حالات کا رونا حالات کے سدھار کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ ہاں حالات کو سمجھ کر دستیاب وسائل اور طاقت کو بھرپور طریقے سے استعمال کرنے کا طریقہ ہی آگے بڑھنے کا آزمودہ طریقہ ہے۔ قارئین ہمارے نوجوانوں کو ان نوجوان کھلاڑیوں کی جدو جہد سے بھری زندگی سے سیکھنے کے بہت سارے مواقع ہیں۔ صرف مال و دولت ہی اور بینک بیالنس و بلڈنگس ہی آگے بڑھنے کا راستہ فراہم نہیں کرتی ہیں اور ان سب سے اہم بات اور بھی غم ہیں زمانے میں فیس بک کے سوا۔ والدین اور سرپرستوں کو یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ اولاد کی اصل ذمہ داری ان کی تربیت ہے۔ بچوں کو اچھا کھانا کھلادینا، اچھے کپڑے پہنانا، جتنا اہم ہے اس سے اہم ان کو اچھی تربیت دینا ہے۔
ہم اپنے بچوں کو موبائل فون دلاکر خوش ہوتے ہیں۔ بچے موبائل فون پر کیا گل کھلاتے ہیں ذرا اخبار دکن کرانیکل میں 17؍ اکتوبر کو Student held for online abuse کی سرخی کے تحت شائع ہوئی خبر ملاحظہ کریں۔ خبر میں بتلایا گیا کہ رچہ کنڈہ پولیس سے ایک خاتون نے رجوع ہوکر شکایت کی کہ اظہر خان نام کا ایک 18 سالہ انٹر میڈیٹ کا طالب علم فیس بک کے ذریعہ اس کا دوست بنا پھر واٹس اپ پر بھی چاٹنگ ہونے لگی اور پھر اس طالب علم نے خاتون کو اور اس کی دوست کو ہراساں کرنے لگا۔ اس لڑکے کی ہراسانی سے تنگ آکر خاتون نے پولیس میں شکایت درج کروائی اور پولیس نے آئی پی سی دفعہ 504، 506، 354(D) کے علاوہ آئی ٹی ایکٹ کی دفعہ 66(D)، 67 اور 67(A) کے تحت مقدمہ درج کرلیا اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات سے صرف چند ماہ قبل سنتوش نگر کے رہنے والے گوتم جونئر کالج کے طالب علم کو اس کے گھر سے گرفتار کرلیا۔ خانگی جونئر کالج میں اپنے بچے کو داخلہ دلانے والے اس بچے کے والدین نے کیا کیا نہیں کیا ہوگا۔ بچے کو جوتے بھی دلوائے ہوں گے، کپڑے بھی، کھانا بھی اور موبائل فون بھی دلوایا اور چوک ہوگئی تو تربیت میں؟
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ بچوں کی تربیت کے امتحان میں ہم سبھی والدین اور سرپرستوں کو کامیابی سے ہمکنار کرے اور ہماری اولاد کو ہر دو جہاں میں سامان عبرت بننے سے بچالے۔ (آمین یارب العالمین)
sarwari829@yahoo.com