جنس کی بنیاد پر امتیاز کب تک ؟

یہ ایک مصدقہ حقیقت ہے کہ کوئی چیز اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتی جب تک اس کے تمام اجزاء ہر لحاظ سے موزوں اور متناسب نہ ہوں۔ انسانی تہذیب اور معاشرہ بھی اس وقت تک پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا جب تک اس میں رہنے والے انسان مرد اور عورت مکمل کردار کے حامل نہ ہوں۔ ان دونوں کو زندگی کے بارِگراں کو مل کر سنبھالنا ہوتا ہے لیکن قابل افسوس امر یہ ہیکہ عورت کو پیر کی جوتی سمجھا جاتا ہے۔ عورت معاشرے کی صاحب حقوق فرد ہے۔ وہ مردوں کے شانہ بشانہ تمام شعبہ ہائے زندگی کے معاملات سر انجام دینے کی اہلیت رکھتی ہے حتی کہ امور حکومت بھی چلا سکتی ہے۔

تجارت، سوداگری، صنعت و حرفت، تعلیم غرض ہر شعبے میں اپنی کارکردگی کے جوہر دکھا سکتی ہے۔ ان تمام صلاحیتوں اور اہلیتوں کی حامل ہونے کے باوجود آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی عورت اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہے۔ اس بات کی سیدھی سادی مثال ہم اپنے معاشرے سے لے سکتے ہیں کہ جب کسی بہو، بیٹی کے ہاں بیٹا جنم لیتا ہے تو ہر طرف سے مبارکبادیوں اور تعریف و توصیف کی صدا سنائی دیتی ہے۔ یعنی کہ بیٹے کی پیدائش ایک ایسا کارنامہ ہوتا ہے جس کی خوشی میں گھر، اہل خاندان اور محلہ تک افراد شریک ہوتے ہیں۔یہ معاشرہ کیوں نہیں سمجھتا کہ وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ۔نہ جانے عورت کو اسکا جائز مقام کب ملیگا …؟