محمد ریاض احمد
بانی پاکستان محمد علی جناح کی تصویر برصغیر ہندوپاک کی عظیم علیگڑھ جومسلم یونیورسٹی کے یونین ہال میں آویزاں ہے بانی پاکستان کو انتقال ہوئے 69 برس کا عرصہ گذر چکا ہے ، انھیں علحدہ ملک پاکستان بنانے میں کامیابی حاصل ہوئی ۔ جناح کا شمار غیر منقسم ہندوستان کے اہم ترین مجاہدین آزادی اور غیر معمولی فہم و فراست کے حامل رہنماؤں میں ہوتا تھا۔ آج بھی ان کی ذہانت کے چرچے زد خاص وعام ہیں۔ اگرچہ وہ اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن ان کی تصویر نے ہندوستان میں وبال کھڑا کردیا ہے۔ جناح کی تصویر ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں جہاں بے چینی کا باعث بنی ہوئی ہے وہیں انتہا پسند ہندوؤں اور سیکولر ہندستانیوں کے درمیان شدید اختلافات کی وجہ بھی بن گئی ہے۔ اس ایک تصویر کے باعث علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کیمپس ہی نہیں علیگڑھ اور سارے یو پی کا سکون غارت ہوگیا ہے۔ مسلم لیگ کے قیام سے قبل تک محمد علی جناح کانگریس سے وابستہ تھے اور ان کا شمار وسیع الذہن وسیع القلب رہنماؤں میں ہوا کرتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں ہندوستان کے بابائے قوم مہاتما گاندھی نے ’’ قائد اعظم ‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ بعض کے خیال میں ان ہیں یہ خطاب میاں فیروز الدین احمد نامی ایک شخص نے دیا۔ لندن کی لنکن اِن سے بار ایٹ لا کی تکمیل کے بعد وہ ہندوستان واپس آئے۔ اس وقت ملک میں برطانوی سامراج کا راج تھا۔ ممبئی ہائیکورٹ میں اپنے نام کا اندراج کروایا اور بہت جلد ایک کامیاب وکیل بن گئے۔ بعد میں انہوں نے سیاست میں دلچسپی لینی شروع کی اور بہت جلد کانگریس کے سرفہرست رہنماؤں میں شامل ہوگئے۔ محمد علی جناح ہندو۔ مسلم اتحاد کی وکالت کیا کرتے تھے۔ 1920 میں انہوں نے کانگریس سے استعفی دے دیا۔
مسلم لیگ قائم کی اور 1940 میں لاہور میں قیام پاکستان کی قرارداد منظور کی گئی۔ محمد علی جناح غیر معمولی ذہانت کے حامل تھے۔ انہوں نے صرف 20 برس کی عمر میں ممبئی میں وکالت شروع کی اور اس وقت وہ شہر میں واحد مسلم بیرسٹر تھے۔ انگریزی پر انہیں غیر معمولی عبور حاصل تھا اور انگریزی زندگی بھر ان کی مادری زبان کی طرح رہی۔ وہ ممبئی کے کارگذار ایڈوکیٹ جنرل بھی رہے۔ ممبئی پریسد سٹی مجسٹریٹ کے عہدہ پر بھی خدمات انجام دیں۔ اس عہدہ پر مستقل کام کیلئے انھیں ماہانہ 1500 روپئے تنخواہ کی پیشکش کی گئی جسے انہوں نے بڑے ہی سلیقہ سے رد کردیا۔ اُس دور میں 1500روپئے ماہانہ ایک بہت بڑی رقم تھی۔ لیکن محمد علی جناح کے اپنے اصول تھے اور انھوں نے اپنے اصولوں پر کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ وہ ہندو مسلم اتحاد کے حامی تھے یہی وجہ تھی کہ بلبل ہند سروجنی نائیڈو محمد علی جناح کو ہندو ۔ مسلم اتحاد کا سفیر قرار دیا کرتی تھیں۔ بہر حال فی الوقت علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے یونین ہال میں آویزاں محمد علی جناح کی تصویر نے ہندوستان میں ایک نیا تنازعہ پیدا کردیا ہے اور بانی پاکستان کی اس تصویر کے ذریعہ ملک کی ہندوتوا فورسس ناجائز سیاسی فوائد حاصل کرنے کی خواہاں ہیں اس لئے کہ مرکز میں مودی کی زیر قیادت بی جے پی اور اتر پردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومتوں سے عوام سخت ناراض ہیں۔ مودی نے 2014 کے عام انتخابات میں جو وعدے کئے تھے ان وعدوں کو وفا کرنے میں ناکام رہے۔ انہوں نے بیرون ملک بینکوں میں جمع اربوں ڈالرس بلیک منی ملک واپس لانے اور ہر ہندوستانی کے اکاؤنٹ میں 15 لاکھ روپئے جمع کروانے کا وعدہ کیا تھابعد میں مودی اور امیت شاہ اس وعدہ سے مکر گئے اور اُسے ایک انتخابی جملہ سے تعبیر کیا۔ بیروزگاروں کو روزگار کی فراہمی سے متعلق مودی کا وعدہ ناکام ہوگیا ہے۔ بیٹی پڑھاؤ، بیٹی بچاؤ کا پُرکشش نعرہ دیتے ہوئے مودی نے لوگوں کے دل جیت لئے تھے لیکن یہ نعرہ صرف نعرہ ہی رہا اس پر کوئی عملی کام نہیں ہوا۔ اب تو مودی حکومت میں ملک کے کونے کونے میں خواتین و لڑکیوں پر جنسی حملوں میں ا س حد تک اضافہ ہوگیا جس کی آزاد ہندوستان کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اب تو عوام بیٹیوں کو پڑھانے کی بجائے بیٹیوں کو بچانے میں مصروف ہوگئے ہیں۔ اب تو اسکول جانے والی کمسن بچیاں محفوظ ہیں نہ ہی کالج جانے والی طالبات کی حفاظت کی کوئی گیارنٹی ہے۔اسپتالوں میں بھی درندے دندناتے پھررہے ہیں۔
خواتین اور لڑکیوں کا سرعام اغوا کیا جارہا ہے ۔چلتی کاروں میں ان کی اجتماعی عصمت ریزی کی جارہی ہے۔ اس طرح کے واقعات نے مودی کے بیٹی پڑھاؤ ، بیٹی بچاؤ کے نعرہ کو بھی کھوکھلا کرکے رکھ دیا۔ مودی جی نے اچانک سوچھ بھارت کا نعرہ دیتے ہوئے ملک کو پاک و صاف رکھنے کا مشورہ دیا اور خود بھی جھاڑو تھام کر سڑکیں، دفاتر وغیرہ صاف کرنے نکل پڑے ۔ اگرچہ دکھاوے کیلئے مرکزی وزراء اور عہدیداروں نے جھاڑو تھامے صفائی کی مہم شروع کی لیکن مودی جی یہ بھول گئے کہ ہندوستان اُسی وقت صاف ستھرا ہوسکتا ہے جب لوگوں کے اذہان و قلوب میں بیٹھے ہوئے فرقہ پرستی کے کوڑا کرکٹ کو صاف کیا جائے ماحول کو نفرتوں و عداوتوں کے تعفن سے محفوظ رکھا جائے۔ اسی دوران مودی جی نے پٹرولیم اشیاء کی قیمتوں پر حکومت کا کنٹرول ختم کرکے اسے تیل کمپنیوں کے سپرد کردیا چنانچہ جو پٹرول ہمیں زیادہ سے زیادہ 40 روپئے اورڈیزل زیادہ سے زیادہ 25-26 روپئے فی لیٹر دستیاب ہونا تھا وہ 80 اور 70 روپئے فی لیٹر تک جا پہنچااور آنے والے دنوں میں ہوسکتا ہے کہ پٹرول 100روپئے فی لیٹر اور ڈیزل 80-90 روپئے فی لیٹر فروخت کیا جانے لگے۔ مودی حکومت میں عوام کو فائدہ کی بجائے نقصانات برداشت کرنے پڑرہے ہیں۔ اشیائے ضروریہ سے لیکر تمام اشیاء کی قیمتیں آسمان کو چھورہی ہیں۔ تعلیم اور صحت عامہ کے شعبوں میں بھی حالات ابتر ہیں۔نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے ذریعہ بھی مودی جی کی حکومت نے عوام کو کنگال کردیا ہے۔ بینکوں میں اپنی رقم ہونے کے باوجود عوام اپنی مرضی و منشاکے مطابق رقومات نکالنے سے قاصر ہیں۔ غریب عوام اور چھوٹے و متوسط تاجرین پریشان ہیں۔ ہاں مودی جی کے حامی صنعت کاروں جیسے امبانی، اڈانی اور ان کی قبیل کے لوگوں کا فائدہ ہوا ہے۔ بے شمار صنعت کاروں نے بینکوں کو کروڑہا روپئے کا چونا لگاکر راہ فرار اختیار کی ہے۔ وہ یوروپ میں پُرتعیش زندگی گذاررہے ہیں۔ ایسے صنعت کاروں میں وجئے مالیا، نیرو مودی، للت مودی، مہول چوکسی کے نام سرفہرست ہیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ ان بڑے چوروں بلکہ ڈاکوؤں کو بڑی آسانی سے ملک سے فرار ہونے کی اجازت دے دی گئی لیکن اپنے پیٹ کی بھوک مٹانے کیلئے ایک روٹی کی چوری پر ایک غریب کو مار مار کر ادھ مرا کردیا جاتا ہے، اس کے جسم کی 206 میں سے کئی ہڈیاں توڑ دی جاتی ہیں۔مودی جی کی حکومت میں جنت نشاں ہندوستان کا بُرا حال ہے، ہندوستان مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ پڑوسی ممالک ہمیں ڈرا رہے ہیں ، خارجی پالیسیاں بھی تباہ کن ثابت ہورہی ہیں اور ان تمام مسائل کی توجہ ہٹانے کیلئے بی جے پی حکومت میں ہندو۔ مسلم کے درمیان تفرقہ پیدا کیا جارہا ہے۔ خاص طور پر انتخابی موسم کے دوران جیسا کہ چار برسوں میں ہوئے ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں دیکھا گیا ہے فرقہ پرستی کی آگ جان بوجھ کر بھڑکائی جاتی ہے۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا کے واضح رہنمایانہ خطوط و ہدایات کے باوجود بی جے پی عوام کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنے سے نہیں شرماتی بڑی بے شرمی سے وہ عوام کے مذہبی جذبات کا استحصال کررہی ہے۔فی الوقت جنوبی ہند کی ریاست کرناٹک میں اُسے کانگریس سے سخت مقابلہ درپیش ہے اور ہر حال میں وہ کرناٹک میں اقتدار حاصل کرنے کی خواہاں ہے لیکن عوام جان چکے ہیں کہ بی جے پی ہر چیز کو فرقہ پرستی کے نقطہ نظر سے دیکھتی ہے۔ ہرچیز کو مذہبی رنگ دینا اس کا مقصد ہوتا ہے۔ ٹھوس کام کی بجائے باتیں اس کی عادت ہے۔اب چونکہ کوئی مسئلہ باقی نہیں رہا اس لئے شائد بانی پاکستان محمد علی جناح کی تصویر کا سہارا لیا جارہا ہے۔ اس تصویر نے نہ صرف علیگڑھ میں ایک ہنگامہ مچارکھا ہے اور اس ہنگامہ کو شائد ملک کے دوسرے حصوں میں بھی پہنچایا جائے گا تاہم محمد علی جناح کی تصویر کے بارے میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی طلبہ یونین، ممتاز صحافی کرن تھاپر ، گجرات کے بیباک سابق آئی پی ایس آفیسر سنجیو بھٹ، کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ششی تھرور، کمیونسٹ لیڈر سیتا رام یچوری، شبانہ اعظمی کے شوہر بالی ووڈ کے نغمہ نگار جاوید اختر، چیف منسٹر اتر پردیش یوگی آدتیہ ناتھ، یو پی میں بی جے پی کے ریاستی وزیر سوامی پرساد موریا، صحافی ابھیجیت مجمدار، مورخ رعنا صفوی اور مختلف شعبوں سے وابستہ شخصیتوں کے تاثرات سامنے آئے ہیں جن میں سے اکثر نے یہی کہا ہے کہ محمد علی جناح کا ہندوستان کی جدوجہد آزادی میں اہم رول رہا اور یہ تاریخ کا حصہ ہے جسے چھپایا جاسکتا ہے لیکن جھٹلایا نہیں جاسکتا۔
mriyaz2002@yahoo.com