جناب صدر

میرا کالم مجتبیٰ حسین
بچپن میں جب پہلی بار ہمیں ایک جلسہ میں شریک ہونے کا موقع ملا تو دیکھا کہ جلسہ کا ہر مقرر ’جناب صدر‘ ’جناب صدر‘ کی گردان کررہا ہے اور وقت بے وقت ’جناب صدر‘ کی اجازت سے ایسی باتیں کہہ رہا ہے جن کے کہنے کے لئے بظاہر کسی کی بھی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ ہم نے اپنے طور پر یہ پتہ چلانے کی کوشش کی کہ آخر یہ ’جناب صدر‘ کون ہے اور کہاں واقع ہے ۔ ایک شخص کودیکھا جوبڑی مستعدی کے ساتھ جلسہ گاہ کے آخری حصے میں دریاں بچھارہا ہے اور پٹرومکسوں کو ادھر ادھر منتقل کررہا ہے۔ چونکہ اس وقت یہ شخص جلسہ کا سب سے کارکرد اور اہم شخص نظر آرہا تھا ، اس لئے ہم نے سوچا کہ ہو نہ ہو یہی شخص ’جناب صدر‘ ہے ۔ ہم اس کے قریب گئے اور پوچھا ’’بھئی کیا جناب صدر تم ہی ہو؟‘‘ ۔ وہ شخص اچانک بپھر گیا اور بولا ’’ذرا منہ سنبھال کے بات کرو ،کسے جناب صدر کہتے ہو ؟ کیا میں تمہیں ناکارہ ، مفلوج اور بیکار آدمی نظر آتا ہوں جو تم مجھے ’جناب صدر‘ کہہ رہے ہو ۔ ابھی تو میرے قوی اچھے ہیں ، میں اپنی روزی خود کماتا ہوں ۔ میں ابھی اتنا اپاہج نہیں ہوا کہ تم مجھے ’جناب صدر‘ کہو ۔ جناب صدر تووہ ہے جو ڈائس پر اپنے سامنے پھولوں کے ہار رکھے یوں بیٹھا ہے جیسے شیر اپنے مارے ہوئے شکار کو سامنے رکھتا ہے‘‘ ۔ یہ کہتے ہوئے اس نے اس شخص کی طرف اشارہ کیا جو کرسی صدارت پر تقریباً اونگھ رہا تھا ۔ اس دن کے بعد سے آج تک ہم بے شمار جلسوں میں شرکت کرچکے ہیں بلکہ دو ایک جلسوں کی صدارت کا آفر بھی ہمیں آیا تھا لیکن جب ہم نے اس آفر کو قبول کرنے کے بارے میں غور کیا تو ہمیں اس شخص کی بات یاد آگئی اور ہمیں احساس ہوا کہ ابھی تو ہم اپنی روزی خود کماسکتے ہیں اور ہم ابھی اتنے اپاہج بھی نہیں ہوئے کہ ’جناب صدر‘ بننے کا اعزاز حاصل کریں ۔

آپ نے بہت سے صدر دیکھے ہوں گے اور آپ کو اس بات کا یقین بھی آچکا ہوگا کہ ہر صدر دوسرے صدر سے ملتا جلتا ہوتا ہے ۔ خدا نے انسان کے ایک ہاتھ کی پانچوں انگلیاں برابر نہیں بنائی ہیں ، لیکن تعجب ہے کہ اس نے سارے صدر ایک جیسے کس طرح بنائے ۔ ان کی سرگرمیاں مشترک ہوتی ہیں ، ان کی حرکتیں مشترک ہوتی ہیں اور ان کے کاروبار بھی مشترک ۔ ’’جناب صدر‘‘ کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ کرسی صدارت پر گوند لگا کر بیٹھ جائے اور کبھی ’’کرسی‘‘ سے ہٹنے کی کوشش نہ کرے ۔ اسے صرف اتنی رعایت حاصل ہوتی ہے کہ اگر ایک ہی رخ پر مسلسل بیٹھنے کی وجہ سے اس کے اعضاء میں درد ہونے لگے یا کرسی صدارت میں سے کوئی کھٹمل نکل کر ’’جناب صدر‘‘ کو بے تاب کرنے لگے ، تب وہ صرف اپنا پہلو بدل سکتا ہے لیکن کرسی سے اپنا پہلو نہیں بچاسکتا ۔ بعض صدور کو صدارت کی کرسی پر اتنی دیر تک بیٹھنا پڑتا ہے کہ ایک منزل وہ بھی آجاتی ہے جب کرسی اور صدارت میں کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا ۔ حاضرین جلسہ کو یہ اندازہ لگانے میں دشواری پیش آتی ہے کہ کرسی کہاں ختم ہورہی ہے اور ’’جناب صدر‘‘ کہاں سے شروع ہورہا ہے ۔ ’’کرسی‘‘ اور ’’صدر‘‘ یک جان دوقالب بن جاتے ہیں ۔ ہمیں اس وقت اس بچہ کی یاد آرہی ہے جس نے کرسی صدارت پر ایک صدر کو لگاتار دو گھنٹوں تک دیکھتے رہنے کے بعد اپنے باپ سے ہوچھا تھا ’’ڈیڈی ! کیا جناب صدر کی چھ ٹانگیں ہوتی ہیں؟‘‘ ۔اس پر باپ نے بڑے پیار سے بیٹے کو سمجھایا تھا ’’نہیں بیٹے ان چھ ٹانگوں میں سے دو ٹانگیں جناب صدر کی ہیں اور بقیہ چار ٹانگیں ’’کرسی صدارت‘‘ کی ہیں‘‘ ۔

اگرچہ مثل مشہور ہے کہ ’’صدر ہر جا کہ نشیند صدارست‘‘ لیکن اس کے باوجود ’’صدارت‘‘ کے لئے ’’کرسی صدارت‘‘ کا ہونا نہایت ضروری ہوتا ہے ۔ بلکہ ایک صاحب کا تو یہاں تک خیال ہے کہ ’’صدارت‘‘ میں ’’کرسی صدارت‘‘ کے سوائے کچھ بھی نہیں ہوتا ۔ کرسی ہٹالیجئے تو صدارت خود بخود غائب ہوجائے گی ۔ کرسی صدارت پر بیٹھنے کے لئے بڑے تجربہ اور مہارت کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ ہم تو سمجھتے ہیں کہ پیشہ ور صدر اس فن میں باضابطہ تربیت بھی حاصل کرتے ہیں ،کیونکہ ایک ہی کرسی پر خواہ مخواہ گھنٹوں بیٹھے رہنا بھی تو آخر کرتب کا درجہ رکھتا ہے ۔ بعض ماہر جناب صدر تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو ’’کرسی صدارت‘‘ پر کچھ اس طرح جم کر بیٹھ جاتے ہیں کہ ’’صدارت‘‘ کی کرسی آیتہ الکرسی پڑھنے لگتی ہے اور بالآخر ٹوٹ جاتی ہے مگر جناب صدر نہیں ٹوٹتے ۔ ایسے ’’کرسی توڑ صدر‘‘ کے لئے تابڑ توڑ نئی کرسی صدارت ریزرو میں رکھتے ہیں کہ آفت کی گھڑی جناب صدر کی اجازت لے کر نہیں آتی ۔
جناب صدر دو قسم کے ہوتے ہیں ۔ ایک پیدائشی صدر اور دوسرا نمائشی صدر ۔ ویسے ایک صاحب کا کہنا ہے کہ یہ تقسیم بھی کچھ مناسب نہیں ہے ، کیوں کہ صدر چاہے پیدائشی ہو یا نمائشی ، وہ ہر حالت میں نمائشی ہوتا ہے اور پھر دونوں ہی اقسام کے صدر ایک ہی قسم کی حرکتیں کرتے ہیں ۔ ان کی حرکتوں کی تفصیل کچھ اس طرح ہوتی ہے کہ جب مقرر تقریر کررہا ہو تو وہ ٹکٹکی باندھے مقرر کو گھورتے رہتے ہیں اور وقت بے وقت اپنی گردن بھی ہلادیتے ہیں ۔ یہ گردن بھی اس لئے ہلائی جاتی ہے کہ کہیں حاضرین جلسہ یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ ’’کرسی صدارت‘‘ پر ’’صدر جلسہ‘‘ کے بجائے صدر جلسہ کا مجسمہ بیٹھا ہوا ہے ۔ اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے ’’صدر جلسہ‘‘ کو اور بھی بہت سے فرائض انجام دینے پڑتے ہیں ۔ یعنی کبھی جلسہ کے سکریٹری کوبلایا جاتا ہے اور اس کے کان میں پوچھا جاتا ہے ’’کیا آپ نے کسی فوٹوگرافر کا انتظام نہیں کیا ہے ۔ جلسہ کی کارروائی بڑی بے جان سی چل رہی ہے ۔ فوراً کسی فوٹوگرافر کو پکڑ کر لایئے‘‘ ۔ میز پر رکھے ہوئے پیڈ کو صدر اپنے سامنے کھینچ لیتا ہے اور مقرر کی طرف دیکھ دیکھ کر کچھ لکھنے لگتا ہے ۔ حاضرین سمجھتے ہیں کہ وہ ضرور کوئی اہم پوائنٹ لکھ رہا ہے لیکن آپ غلط فہمی میں مبتلا نہ رہیں ۔ کیوں کہ وہ اس وقت اصل میں ان ہاروں کا حساب لکھنے میں مصروف رہتا ہے جو اسے پہنائے گئے ۔ اس کے بعد وہ پیڈ کو آگے بڑھادیتا ہے ۔ پھر حاضرین پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالتا ہے ، ان کی تعداد کا اندازہ لگاتا ہے اور دل ہی دل میں خوش بھی ہوتا ہے ۔ بعض صدور جلسہ اپنے ساتھ اپنی بیویوں کو بھی لے آتے ہیں تاکہ بیویوں پر ان کی دھونس جمی رہے ۔ وہ تھوڑے تھوڑے وقفہ سے اپنی بیوی کی طرف کچھ ایسی نگاہوں سے دیکھتاہے جیسے وہ اپنی بیوی کو پہلی بار دیکھ رہا ہو یا جیسے وہ اسے پہچانتا ہی نہ ہو صدر جلسہ کی بیوی جلسہ گاہ میں بیٹھی پیچ و تاب کھاتی ہے مگر کچھ کر نہیں سکتی ، اس لئے کہ کرسی صدارت تک اس کی رسائی ممکن نہیں ہوتی اور صدر جلسہ بھی جانتا ہے کہ جب تک وہ کرسی صدارت پر براجمان ہے اس وقت تک وہ ساری آفات اور خود اپنی بیوی سے ہر طرح سے محفوظ ہے ۔

عام طور پر جلسوں میں وہ منظر بڑا دل نشین ہوتا ہے جب صدر جلسہ کو ہار پہنائے جاتے ہیں اور جلسوں کی روایت کے مطابق پہلے صدر کو ہار پہنائے جاتے ہیں اور تب کہیں جلسہ کی کارروائی شروع ہوتی ہے ۔ ہمارا خیال ہے کہ یہ روایت بھی ’’صدر جلسہ‘‘ کی طرف سے ہی ڈالی گئی ہے کیوں کہ جلسہ سے پہلے ہار پہنادئے جائیں تو دل کو بڑا سکون رہتا ہے ورنہ یہ اندیشہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ جلسہ کے بعد منتظمین ہاروں کے معاملے میں بالکل ہی خاموش اور انجان بن جائیں کہ غرض نکل جانے کے بعد کون کسی کی ضرورت کے بارے میں سوچتا ہے ۔ لہذا ’’صدور‘‘ پہلے ہار پہنتے ہیں اور بعد میں جلسہ شروع کرتے ہیں ۔ ویسے ہار پہننے کے بعد کم از کم ’’صدر جلسہ‘‘ کے لئے تو جلسہ تقریباً برخاست ہوجاتا ہے ۔ وہ تو بس تکلفاً بیٹھا رہتا ہے ، جب اسے ہار پہنائے جاتے ہیں فوٹوگرافر کی موجودگی نہایت ضروری ہوتی ہے ۔ جب تک فوٹوگرافر نہ آئے اس وقت تک ’’صدر جلسہ‘‘ ہاروں میں اپنی گردن نہیں ڈالتا ۔ ہم ایک جلسہ کے عینی شاہد ہیں جس میں صدر جلسہ کی گردن ہار کی طرف بڑھ رہی تھی اور ہار گردن کی طرف بڑھ رہا تھا کہ اچانک فوٹوگرافر کے کیمرہ میں کوئی خرابی پیدا ہوگئی ۔ جب صدر جلسہ کو اس خرابی کا پتہ چلا تو انہوں نے ایک جھٹکے کے ساتھ اپنی گردن ہار میں سے نکال لی ۔ لیکن جلسہ کا سکریٹری برابر ان کی گردن کا تعاقب کررہا تھا ۔ یقین مانئے کہ ’’صدر مذکور‘‘ نے ہار پہننے کے معاملہ میں اس دن ایسی ہی حرکت کی جیسے کوئی اڑیل گھوڑا منہ میں لگام ڈالنے کے وقت کرتا ہے ۔ بالآخر جب کیمرہ درست ہوگیا تو ’’صدر جلسہ‘‘ کو چمکار کر ہار کی طرف لایا گیا اور جب کیمرے کا فلیش بلب جل اٹھا تو لوگوں نے دیکھا کہ صدر کی گردن ہار میں داخل ہوگئی ہے ۔ صدر جب ہار پہن لیتا ہے تو اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل جاتی ہے اور یہ دیکھ کر اسے پہنائے گئے ہاروں کے پھول خود بخود مرجھا جاتے ہیں ۔

صدر جلسہ اس وقت بہت خوش ہوتا ہے جب جلسہ کا صدر استقبالیہ اپنی خیرمقدمی تقریر میں ’’صدر جلسہ‘‘ کی اعلی صفات کا ذکر کرتا ہے ۔ جب اس کی تعریف ہونے لگتی ہے تو ’’صدر جلسہ‘‘ جان بوجھ کر چھت کی طرف دیکھنے لگتاہے اور اگر جلسہ زیر سماں ہورہا ہو تو تارے گننے میں مصروف ہوتا ہے ، اس کی نظر تو اوپر ہوتی ہے لیکن کان صدر استقبالیہ کی طرف مڑے ہوئے ہوتے ہیں ۔ واضح رہے کہ ہر صدر بڑا مصروف رہتا ہے اور وہ اپنی گوناگوں مصروفیات میں سے تھوڑا سا وقت بڑی مشکل سے نکالتا ہے ، حالانکہ جناب صدر کے قریبی حلقے بخوبی جانتے ہیں کہ جناب صدر کے سامنے وقت کا ایک وسیع سمندر ہمیشہ ٹھاٹھیں مارتا رہتا ہے اور اس سمندر میں ’’صدارتوں‘‘ کی حیثیت ان جزیروں کی سی ہوتی ہپے جہاں ’’جناب صدر‘‘ تھوڑی دیر کے لئے سستالیتا ہے ۔
سب سے آخر میں ’’جناب صدر‘‘ اپنی صدارتی تقریر کے لئے اٹھ کھڑا ہوتا ہے تو پہلے اپنی گھڑی کی طرف دیکھتا ہے اور حاضرین کو یہ موقع عطا کرتاہے کہ اس کے کرسی صدارت سے اٹھ کر مائیکروفون کے قریب پہنچنے تک وہ تالیاں بجاسکیں ۔ پھر وہ بڑی سادگی کے ساتھ صدر استقبالیہ کی تقریر کے خلاف ایک تردیدی بیان جاری کرنے لگتاہے کہ آپ نے میرے بارے میں جو کچھ کہا ہے وہ صرف ذرہ نوازی ہے ورنہ خاکسار تو اس قابل بھی نہیں کہ اسے کسی جلسہ میں شرکت کی دعوت دی جائے ۔ وہ اپنی تقریر میں منتظمین کو جلسہ کے انعقاد پر مبارکباد دیتا ہے اور مستقبل میں بھی ایسی غلطیوں کا ارتکاب کرنے کا پرخلوص مشورہ دیتا ہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہتا ہے کہ وہ ہر وقت منتظمین سے تعاون کرنے کے لئے تیار ہے ۔ اس تعاون کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اگلی بار بھی صدارت کرنے کے لئے تیار ہے ۔ صدر جلسہ کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ ہر موضوع پر اظہار خیال کرسکتا ہے ۔وہ کسی جلسہ میں ’’پولٹری فارمنگ‘‘ پر اظہار خیال کرتا ہے تو دوسرے جلسہ میں ’’ماہی گیری کی اہمیت‘‘ پر روشنی ڈالتا ے ۔ کہیں ’’دیا سلائی بنانے کی صنعت کے فوائد‘‘ بیان کرتا ہے تو کہیں ’’صابن سازی‘‘ کے موضوع پر اظہار خیال کرتاہے ۔ آپ یقین کریں کہ آدمی جب ایک بار ’’صدر جلسہ‘‘ بن جاتا ہے تو پھر زندگی بھر وہ ’’صدر جلسہ‘‘ ہی برقرار رہتا ہے ۔ کرسی صدارت اس سے چمٹ کر رہ جاتی ہے اور معاملہ وہی ہوتاہے کہ میں کمبل کو چھوڑنا چاہتا ہوں ، کمبل مجھے نہیں چھوڑتا ۔

یاد رکھئے کہ صدر جلسہ ہمیشہ جلسہ میں دیر سے آتا ہے ۔ اس کے دیر سے آنے کی کئی وجوہات ہوتی ہیں ۔ وہ لوگوں کو اپنے انتظار میں مبتلا کرکے اپنی اہمیت ان پر واضح کرنا چاہتا ہے ۔ حالانکہ وہ صبح ہی سے شام کے جلسہ کی ’’صدارت‘‘ کی تیاریاں شروع کردیتا ہے ۔ کپڑوں پر استری کرواتا ہے ، جوتوں کے ساتھ ساتھ خود اپنی صدارتی تقریر کو پالش کرواتا ہے ۔ آئینہ کے سامنے ٹھہر کر ’’کرسی صدارت‘‘ پر بیٹھنے کے مختلف ’’پوزوں‘‘ کا جائزہ لیتا ہے لیکن اس کے باوجود جلسہ میں دیر سے پہنچتا ہے ۔ ہمیں اس وقت اس ’’صدر جلسہ‘‘ کا لطیفہ یاد آرہا ہے جسے زندگی میں پہلی بار ’’صدر جلسہ‘‘ بننے کا موقع ملا تھا ۔ اس نے اپنی صدارت کے لئے خوب سارا اہتمام کیا لیکن جلسہ میں بہت دیر سے پہنچا ۔ منتظمین نے کافی دیر تک انتظار کرنے کے بعد ایک ’’ریڈی میڈ صدر‘‘ کی خدمات حاصل کیں اور صدارت کے فرائض اسے سونپ دئے ۔ پہلا صدر اس بات پر بہت برہم ہوا ۔ منتظمین نے جب اس سے دیر سے آنے کی وجہ پوچھی تو وہ بولا ’’بھائی میں دراصل جلسہ کے کاموں میں ہی مصروف تھا ۔ چونکہ یہ جلسہ میری صدارت میں ہورہا تھا اس لئے میں دن بھر جلسہ کے پوسٹر شہر کی دیواروں پر چسپاں کرتا رہا ۔ پوسٹر لگانے سے اب فرصت ملی ہے تو جلسہ میں آیا ہوں‘‘ ۔