ایک روز قبل سارے ملک میںیوم جمہوریہ جوش وخروش کے ساتھ منایا گیا ‘ جگہ جگہ پریڈ او رپرچم کشائی کا اہتما م کیاگیا لیکن یوم جمہوریہ سے عین قبل نیوز چینلوں نے سہمے ہوئے اسکولی بچوں کے چہرے‘ چیخیں ‘ آنسو اور بس کی سیٹوں کے نیچے چھپ کر جان بچانے کی کوشش کو دکھاکر یہ بتادیا کہ کرنی سینا اور دوسری ہندوتوا وادی تنظیمیں جمہوریت کا جشن نہیں اس کی برسی منانے کی تمنا رکھتی ہیں۔
ویسے بھی ہم سب جانتے ہیں کہ اس ملک میں ایسی بہت سی تنظیمیں ہیں جو اس ملک کو ہندوراشٹرا بنانے کی خواہش مند ہیں اور ہندو راشٹرا میں جمہوریت ائین یاعدالتی نظام کا کوئی گزر نہیں ہوگا ‘ ہندو راشٹرا کا پرچم ترنگا بھگوا ہوگا۔اس لئے ہندوراشٹرا کی وکالت کرنے والوں نے 26جنوری سے پہلے اپنا اصل چہرہ دکھادیااو ربچوں کی بس پر پتھراؤ کرکے یہ بتادیاکہ وہ اپنے مقاصد پورے کرنے کے لئے کسی بھی حد تک گرسکتے ہیں۔
یہ بات قابل تشویش ہے کہ ساری ہنگامہ آرائی بی جے پی کی قیادت والی ریاستوں میں ہی ہوئی اور حکومتوں نے کرنی سینا کے لیڈروں پر سختی کرنے کے بجائے ان کو ہر طرح کی سہولتیں فراہم کیں۔اس تشدد بھری تحریک کو بی جے پی کے ایک گروپ کی حمایت کس طرح حاصل تھی اس کا بھانڈا ایک انگریزی نیوز چینل نے پھوڑا جب اس نے مہارشٹرا اسمبلی میں بی جے پی کے چیف وہپ راج پروہت کا اسٹنگ کرکے یہ ثابت کردیا کہ بی جے پی کا ایک گروپ اندر ہی اندر اس پوری تحریک کی حمایت کررہا ہے ۔ ویسے کسی فلم کی مخالفت کرنا اس کے حصوں ر اعتراض کرنا اس کی نمائش پر ناراضگی کااظہار کرنا ایک جمہوری ملک کے عوام کا ویسا ہی حق ہے جیسا فلم بنانے والو ں کو اس ملک کے ائین نے اظہار خیال کی آزادی عطا کی ہے ۔
کرنی سینا والوں ‘راجپوتوں اور اعلی ذات کے ہندؤں کو اس بات کا پورا حق حاصل ہے کہ وہ فلم نہ دیکھیں‘ اپنے خیال لوگوں سے اپیل کریں کہ وہ فلم دیکھنے نہ جائیں اور خود ہی اپنے اوپر جنتا کرفیو لگائیں اور گھر سے نکلیں ‘ لیکن اپنی بات منوانے کے لئے تشدد اختیار کرنا ‘ چھوٹے چھوٹے بچوں کو نشانہ بنانااور بے قصور شہریوں کی گاڑیو ں او ردکانوں کو نشانہ بنانا کون سی آزادی ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ اس سارے معاملے کے پیچھے نہ تو کسی کے جذبات وابستہ ہیں نہ کسی کے سماج پر کوئی آنچ آرہی ہے ‘ یہ پوری تحریک سیاسی مقاصد کے تحت چلائی جارہی ہے ۔
کہاجاتا ہے کہ ملک بھر کی راجپوت برادری کا فی دن سے بی جے پی سے ناراض ہے ‘ اس لئے بی جے پی کی طرف سے کوشش ہورہی ہے کہ اس کی منھ بھرائی کرکے اس کو اپنی طرف راغب کیاجاسکے۔اس تشدد بھری تحریک کی بی جے پی کی طرف سے اب تک مذمت نہ ہونے اور وزیراعظم کی معنی خیز خاموشی سے ہر وہ ہندوستانی متفکر ہے جو کرنی سینا کی تحریک کو ملک کی بدنامی کا باعث سمجھتا ہے۔کتنی حیرانی کی بات ہے کہ جس فلم پر مسلمانو کو اعتراض کرنا چاہئے تھا اس پر راجپوت سماج ہنگامہ مچارہا ہے۔
فلم میں علاؤ الدین خلجی کی چتوڑ پر چڑھائی کو ایک خوبصورت خاتون کو حاصل کرنے کی کوشش قراردیاگیا ہے یعنی ایک طرح سے’’لوجہاد‘‘ کے جھوٹے پروپگنڈے کو فروغ دیاگیا ہے ‘ جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ درجن بھر دوسری ریاستوں کو بھی خلجی نے فتح کیاتھا۔ سچ تو یہ ہے کہ خلجی نے چتوڑ گڑپر ایک برہمن چیتن پروہت کی گزارش پر حملہ کیاتھا۔ قابل غور ہے کہ فلم کسی جس ہیروئن کی راجپوتی شان کو لے کر اتنا ہنگامہ مچایاجارہا ہے وہ راجپوت تھی ہی نہیں بلکہ سری لنکائی خاتون تھی ‘ ہاں اس کی شادی ایک ایسے راجپوت راجہ سے ضروری ہوئی تھی جس کے محل میں پہلے سے ایک راجپوت رانی موجود تھی‘ مگر پہلی رانی کے جذبات واحساسات کو مجرو ح کرتے ہوئے رتن سنگھ دوسری بیوی کی شکل میں پدماوتی کو اپنے محل میں لے آیاتھا۔
بہر کیف خوشی کی بات یہ ہے کہ اس ملک کے عوام کی اکثریت نے انتہا پسندوں کو بری طرح فیل کردیا اور خوف ودہشت کے ماحول میں بھی کئی شہروں میں سنیما گھر ہاوس فل نظر ائے جس سے معلوم ہوا کہ عام لوگ فلم دیکھنے سے زیادہ اس بات میں دلچسپی رکھتے تھے کہ زور زبردستی کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کی جائے۔