جموں وکشمیر کے اسپیکرکا متنازع بیان۔ فوجی کیمپ پر حملے کو روہنگیاں پناہ گزینوں پر تھوپنے کی کوشش

نیشنل کانفرنس اور کانگریس پارٹی کا شدید احتجاج‘ ہنگامہ آرائی کے بعد تمام متنازع بیانات کو ایوان کی کاروائی سے حذف کرنے کی ہدایت جاری
جموں۔ جموں و کشمیر کے اسپیکر کویندر گپتا نے ایک متنازع بیان دیتے ہوئے کہاکہ جموں کے مضافاتی علاقے سنجوان میں واقعہ 32برگیڈ فوجی کیمپ پر فدائین حملہ علاقہ میں روہنگیا مسلمانوں کی موجودگی کی وجہہ سے پیش آیا ہے۔اپوزیشن نیشنل کانفرنس اور کانگریس نے اسپیکر کی جانب سے اسمبلی میں دیے گئے اس بیان پر شدید احتجاج کرتے ہوئے کہاکہ اسپیکر کی جانب سے ایک مخصوص کمیونٹی کو نشانہ بنایاگیا ہے ‘ تاہم اسپیکر نے بعد ازاں تمام متنازع بیانات کو ایوان کی کاروائی سے حذف کرنے کی ہدایت جاری کی۔ ہفتہ کی صبح جوں ہ قانون ساز اسمبلی کی کاروائی شروع ہوئی تو حکمراں جماعت بی جے پی کے بیشتر ممبران اپنی سیٹوں سے اٹھ کھڑے ہوئے او رپاکستان کے خلاف شدید نعرے بازی شروع کردی۔

اسی دوران پارٹی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر تمام اراکین نے سنجوان میں فوجی کیمپ پر ہوئے حملے کی مذمت کی ۔ بی جے پی کے احتجاجی اراکین جن کی قیادت پارٹی کے شعلہ بیان لیڈر رویندر رینا کررہے تھے‘ نے پاکستان مردہ باد اور پاکستان ہائے ہائے کے زوردار نعرے لگائے۔ بی جے پی ممبر اسمبلی وریاستی صدر ست شرما نے نعرے بازی کے درمیان کہاکہ اسپیکر صاحب آج آپ کے حلقہ انتخاب میں پاکستان کی طرف سے وحشیانہ حرکت کی گئی ہے ۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کو نشانہ بنایاگیا ہے ۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ اس دوران اسپیکر کو یندر گپتا جو گاندھی نگر حلقہ انتخاب سے بی جے پی رکن اسمبلی ہیں‘ نے کہاکہ یہ حملہ علاقے میں روہنگیا رفیوجیوں کی موجودگی کی وجہہ سے پیش آیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ سنجوان کا علاقہ انتخاب گاندھی نگر میںآتا ہے۔ اسپیکر کا کہناتھا کہ علاقہ میں روہنگیا پناہ گزینوں کی موجودگی ایک سکیورٹی خطرہ بن گئی ہے۔

حملے میں ان پناہ گزینوں کا بھی ہاتھ ہوسکتا ہے۔ اسپیکر کے بیان سے ایوان میں موجود اپوزیشن نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے اراکین غصے میںآگئے او رایون کی چاپ میں پہنچ کر اسپیکر کے سامنے جا کر زوردار احتجاج کرنے لگے۔ اپوزیشن اراکین کا کہناتھا کہ اسپیکر کی جانب سے ایک مخصوص کمیونٹی کو نشانہ بنایاگیا ہے ۔ اسپیکر صاحب اپنے ریمارکس پر معافی مانگیں۔ بصورت دیگر ہم ایوان کی کاروائی کو چلنے نہیں دیں گے۔شدید ہنگامہ آرائی کے بیچ اسپیکر کو یندر گپتا نے ایوان کی کاروائی پندرہ منٹ کے لئے ملتوی کردی۔

بعدازاں جب ایوان کی کاروائی دوبارہ شروع ہوئی تو اپوزیشن اراکین نے اسپیکر سے مطالبہ کیا کہ بعض ممبران کے ریمارکس کو ایوان کی کاروائی سے حذف کیاجائے ۔ اسپیکر نے تمام متنازعہ بیانات کو ایوان کی کاروائی سے حذ ف کرنے کی ہدایت جاری کی۔ ایوان نے متفقہ طور پر تمام اراکین پر زوردیا کہ وہ حساس معاملات پر متنازعہ بیانات دینے سے اجتناب کریں۔ اسمبلی میں اپنے متنازع بیان سے قبل اسپیکر گپتا حملے کے مقام پر گئے اور وہاں موجود نامہ نگاروں کو بتایا کہ روہنگیا مسلمان پہلے سے شک کے دائرے میں تھے۔ انہوں نے کہاکہ اس میں کوئی دورائے نہیں کہیں کہیں سیکورٹی کی چوک ہوئی ہے۔ یہاں رہنے والے لوگ ( روہنگیا مسلمان) پہلے سے ہی شک کے دائرے میں تھے۔ انتظامیہ نے پہلے ہی ان کے خلاف کاروائی کی ہے ۔

مجھے لگتا ہے کہ جلد ہی ان پر کوئی فیصلہ لیاجائے گا۔ بی جے پی او رپینتھرس پارٹی پہلے سے ہی جموں میں روہنگیائی مسلمانوں کی موجودگی کے خلاف ہیں۔ جموں میں اگرچہ مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے قریب تین لاکھ پناہ گزین بھی رہائش پذیر ہیں ‘تاہم بی جے پی او رپینتھرس پارٹی انہیں ہر ایک سہولت فراہم کئے جانے کے حق میں ہیں۔حکومتی اعداد وشمار کے مطابق جموں کے مختلف حصوں میں مقیم میانمار کے تارکین وطن کی تعداد محض پانچ ہزار سات سو ہے۔

یہ تارکین وطن جموں میں گذشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ سے مقیم ہیں۔ ایڈوکیٹ ہنر گپتا جوکہ بی جے پی کی لیگل سیل کے ممبر بھی ہیں نے ریاستی ہائی کورٹ میں مفاد عامہ کی ایک عرضی دائر کر رکھی ہے جس میں عدالت سے جموں میں مقیم برما کے روہنگیائی تارکین وطن کو بنگلہ دیشی شہریوں کی شناخت کرکے انہوں جموں بدر کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔

عرضی گذارنے الزام لگایا ہے کہ بنگلہ دیش اور میانمار سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی جموں میں موجودگی سے ریاست میں علیحدگی حامی او ربھارت مخالف سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا۔ ہنر گپتا نے دائرکردہ مفاد عامہ کی عرضی میں عدالت سے یہ کہتے ہوئے میانمار اور بنگلہ دیش کے تارکین وطن کو جموں وکشمیر سے کسی دوسری جگہ منتقل کرنے کی استدعا کی ہے کہ ریاست یااقوام متحدہ نے جموں وکشمیر کی کسی بھی جگہ کو رفیوجی کیمپ قرار نہیں دیا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ عرضی میں میانمار اور بنگلہ دیش کے تارکین وطن کو ریاستی خزانے سے فراہم کئے جانے والے فوائد کو روکنے کی عدالت سے ہدایت کی بھی استدعا کی ہے۔