’’جموں اور لداخ کو چھوڑ کر کشمیر ،پاکستان کے حوالے کردیا جائے ‘‘

7 نائب وزیراعظم ہند سردار پٹیل کی تجویز 8

رِندؔ سرشار
کشمیرکا مسئلہ اتنا پیچیدہ ہے کہ اسے نہ تو رام مادھو طئے کرسکتے ہیں اور نہ امیت شاہ اور نہ وزیراعظم نریندر مودی۔ دراصل اس مسئلہ کو پیچیدہ بنانے اور وہاں دو فرقوں میں اختلاف پیدا کرنے کی کوشش بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اس کی حریف جماعتیں شروع ہی سے کرتی رہی ہیں۔ حال ہی میں بی جے پی نے مخلوط حکومت سے علیحدگی اختیار کرلی اور ساری ریاست میں اک انتشار پیدا کردیا۔ ایک طرف تو بی جے پی ریاست میں ایک مضبوط حکومت کے قیام کے لئے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) سے معاہدہ اس وعدہ کے ساتھ کیا گیا تھا کہ ریاست میں ایک مضبوط حکومت قائم کی جائے اور ریاست میں امن کی بحالی اور ترقی کی کوشش کی جائے اور دوسری طرف جموں اور لداخ میں ہندو ووٹ بینک کو مضبوط بنایا جائے۔ جموں اور لداخ میں ہندو اکثریت میں ہیں ، ایک ایسی ریاست میں جس کی کثیر آبادی مسلمان ہے، افترا پرواز طاقتوں نے کشمیری عوام کو کبھی بھی چین سے رہنے نہیں دیا۔
جموں میں 1952-53ء میں آر ایس ایس کے ایک رکن بلراج مدھوک نے ’’جموں پرجا پریشد‘‘ نامی ایک سیاسی پارٹی تشکیل دی اور اس نے شیخ عبداللہ کی حکومت کے خلاف زبردست تحریک شروع کی۔ جواہر لال نہرو نے شیخ محمد عبداللہ کو جیل سے رہا کرکے انہیں کشمیر کا وزیراعظم مقرر کردیا۔ شیخ عبداللہ اور پنڈت نہرو کے درمیان بڑے اچھے تعلقات سے دونوں نے ایک معاہدہ پر دستخط کئے جس میں کشمیر اور ہندوستان کے درمیان ایک دفاعی ڈھانچہ تیار ہو اور اس کے تحت ریفرینڈم کردیا جائے کہ کشمیری عوام ہند و پاکستان میں سے کسی ملک میں رہنما چاہتے ہیں۔ اس وقت کے پاکستانی وزیر محمد علی نے کئی بار ہندوستان کا دورہ کیا اور پنڈت نہرو اور شیخ عبداللہ سے ملاقات کرتے رہے۔ مگر جموں اور لداخ کے علاقہ میں اس معاہدہ کے خلاف (JPP) کی رہنمائی میں زبردست تحریک شروع کی گئی۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ شیخ عبداللہ نے کشمیر کی دستور ساز اسمبلی میں تنظیم اراضی کا ایک بِل منظور کروالیا جس کی وجہ سے جموں کے بڑے بڑے زمین داروں کے مفادات متاثر ہونے لگے۔ اس تحریک کے تحت ’’ایک ملک، ایک دستور اور ایک پرچم‘‘ کے نام سے ہنگامے کئے جانے لگے۔ یہاں تک اس کا اثر ہندوستان کے کئی علاقوں پر پڑنے لگا۔ جس میں ’’کُل ہند ہندو مہا سبھا‘‘ بھی شامل ہوگئی جس کے صدر شیاما پرشاد مکرجی تھے۔ انہوں نے 1953ء میں جموں اور کشمیر کا دورہ کیا۔ حکومت نے انہیں گرفتار کرکے نظرانداز کردیا اور اسی دوران دل کا دورہ پڑنے سے جیل میں ہی ان کا انتقال ہوگیا۔ شیخ عبداللہ نے اس تحریک کو دبانے مقدور بھر کوشش کی مگر ناکام رہے۔ اس کی وجہ سے کشمیر میں شیخ عبداللہ کا موقف کمزور ہوتا گیا جس کے نتیجہ میں کشمیر اور دہلی کے درمیان تعلقات کشیدہ ہونے لگے۔ اسی کے لئے کشمیر کا المیہ آج تک جوں کا توں موجود رہے۔ آج بی جے پی نہ صرف مرکزی حکومت پر قابض ہے بلکہ سارے ملک میں اس کا اثر بڑھتا ہی جارہا ہے۔ بی جے پی اب اس موقف میں آئی ہے کہ اس مسئلہ کو اپنے نظریہ کے مطابق حل کرلیا جائے۔
کشمیر کی اس صورتحال کی وجہ سے برصغیر کے کروڑوں عوام کی زندگی ایک بحران میں مبتلا ہے اور یہ اندیشہ لگا رہتا ہے کہ کب ہند و پاکستان کے درمیان جنگ ہوجائے ، ویسے تو ہماری آزادی کے ساتھ ہی دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کا آغاز ہوگیا تھا۔ اس فیصلہ پر دو خونی جنگیں لڑی جاچکی ہیں۔ 1947ء میں آزادی ملتے ملتے لاکھوں عوام کا خون پانی کی طرح بہنے لگا تھا۔ دونوں جانب کروڑوں سے خاندان اُجڑ گئے۔ ایک وقت کے دونوں ممالک کے عوام کے درمیان رشتے بڑے مضبوط تھے جس کی بناوٹ میں سینکڑوں برس کا حصہ رہا ہے، مگر عیّار سیاست دانوں کی وجہ سے ملک تقسیم ہوگیا۔ اب 72 سال کے بعد بھی وہی وحشت ناک ماحول باقی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد روس، یوروپ اور آفریقہ کی کئی ریاستیں آزاد ہوئیں اور ہر ایک نے اپنے آپسی اختلافات کو گفتگو کرکے ماحول کو سازگار بنالیا لیکن ہندوستان اور پاکستان کے درمیان نفرت کی جو دیوار تھی، وہ گرائی نہ جاسکی۔ خیال کیا جاتا رہا تھا کہ مرکز میں مضبوط حکومت اس مسئلہ کو حل کرلے گی، سیاسی مبصرین نے یہاں تک کہہ دیا کہ پنڈت جواہر نہرو یا پھر اٹل بہاری واجپائی اس مسئلہ کو حل کرلیں گے مگر یہ توقع بھی پوری نہ ہوسکی۔

خود موجودہ کشمیر کی تاریخ بڑی دلچسپ ہے۔ یہ ریاست 1820ء میں وجود میں آئی۔ اس سے پہلے اس کے تین حصے تھے۔ یہاں کے عوام میں نسلی، مذہبی اور سماجی تفاوت رہا ہے۔ مشرقی حصہ میں لداخ واقع ہے جہاں بدھ مت کے ماننے والے رہتے ہیں۔ نسلی اعتبار سے وہ تبت میں رہنے والوں سے نسبت رکھتے ہیں۔ جنوب میں جموں کا حصہ ہے۔ جس میں ہندو ، سکھ اور مسلمان رہتے ہیں، گلگت کے علاقہ میں آبادی کم ہے مگر وہاں شیعہ مسلمان رہتے ہیں۔ وادیٔ کشمیر کثیر آبادی والد علاقہ ہے جہاں مسلمان بستے ہیں اور معمول آبادی کشمیری پنڈتوں کی تھی۔ کشمیر کے مہاراجہ کی سخت گیر حکومت کی وجہ سے یہاں کے عوام کو کبھی تہذیبی اور سماجی یکجہتی نصیب نہ ہوسکی۔ تعجب تو یہ ہے کہ 1858ء کے غدر کے دوران کشمیری عوام نے انگریزوں کا ساتھ دیا جس نے یہ ریاست انگریزوں کے تحت دے دی گئی۔ پھر چند ہی برسوں میں ڈوگرا راج بحال کردیا گیا۔ اس خاندان کے راجہ ہری راج 1947ء تک حکمرانی کرتے رہے۔ آزادی کے بعد یہاں کے حکمران نے ڈوگرا حکومت کے خلاف بغاوت کردی لیکن مہاراجہ نے گولی بارود کا سہارا لیا، کئی دیہاتوں کو تباہ کردیا گیا مگر یہ بغاوت دبائی نہ جاسکی۔ پونچھ کے علاقہ میں تو لوگ ’’آزاد کشمیر‘‘ کا نعرہ بلند کیا اور اپنی حکومت قیام کرلی۔ اس بغاوت سے خوف کھاکر مہاراجہ ہری سنگھ نے مملکت پاکستان کے ساتھ Stand Still Agreement پر دستخط کردیئے اور دوسری طرف ہری سنگھ نے ہندوستان کے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے بھی اپیل کی کہ چونکہ وہ اور ان کے خاندان برسوں سے انگریز حکومت کا یار وفادار رہا ہے۔ اس لئے وہ ان کی مدد کو آئیں۔ گورنر جنرل نے کہا کہ جب تک کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ الحاق نہیں ہوتا، وہ کسی قسم کی مدد کیلئے مجبور ہیں۔ شیخ عبداللہ جو کشمیر کی جنگ آزادی کے صبر تھے۔ انہیں جیل سے رہا کردیا گیا اور پنڈت جواہر لال نہرو نے شیخ عبداللہ کو کشمیر کا وزیراعظم مقرر کردیا۔ اس وقت ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ ہونے لگی تھی۔ شیخ عبداللہ جنگ بندی پر راضی نہ تھے مگر پنڈت نہرو نے اس مسئلہ کو اقوام متحدہ سے رجوع کردیا۔ اقوام متحدہ نے ایک قرارداد منظور کرلی جس میں کہا گیا تھا کہ ہندوستان اپنے مقبوضہ علاقہ میں ایک مختصر سی فوج رکھ سکتا ہے مگر پاکستان کو اپنی فوج واپس بلا لینی چاہئے۔ اس کے بعد اقوام متحدہ کی نگرانی میں ریفرینڈم کروایا جائے گا اور عوام کی خواہش کے مطابق کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا۔ شیخ عبداللہ نے اس قرارداد کو منظور کرلیا اور جنگ بندی کا اعلان کردیا گیا مگر پاکستان نے یہ استدلال پیش کیا کہ چونکہ مہاراجہ ہری سنگھ نے پاکستان سے Stand Still Agreement پر پہلے ہی سے دستخط کرچکا ہے، اس لئے وہ ریاست کے ہندوستان کے اتحاد کے حق میں سے محروم ہوگیا ہے۔ اس استدلال کے ساتھ پاکستان نے اپنی فوجوں کو ہٹانے سے انکار کردیا۔ اس کے بعد اقوام متحدہ نے مزید چار قراردادیں منظور کریں۔ جس کو ہندوستان نے مسترد کردیا، اس طرح کشمیر کا مسئلہ اب تک حل نہ ہوسکا اور 72 سال سے یہ تنازعہ چل رہا ہے۔ حکومت برطانیہ کے ایوان بالا میں ہندوستان کی آزادی سے پہلے ایک قانون Instrument of India Independence منظور کیا گیا تھا جس کے تحت ہندوستان اور پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ اس قانون میں یہ صراحت کی گئی تھی کہ برٹش انڈیا میں جو دیسی ریاستیں ہیں وہ تو آزاد رہ سکتی ہیں یا پھر دونوں نوآزاد مملکتوں ہندوستان یا پاکستان میں سے کسی ایک ملک میں ضم ہوسکتی ہیں۔ ہندوستان کے پہلے نائب وزیراعظم اور وزیر داخلہ سردار پٹیل نے اس قانون کی اس مشق پر اعتراض اور چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو ہندوستان میں شامل کرلیا مگر جونا گڑھ، حیدرآباد اور کشمیر کا مسئلہ حل نہ ہوسکا۔ ریاست جوناگڑھ نے پاکستان میں شامل ہونے کا اعلان کردیا اور حیدرآباد کے حکمران آزاد رہنا چاہتے تھے۔ ان دونوں ریاستوں کے مسلمان حکمران تھے اور دونوں ریاستوں کی کثیر آباد ہندو تھی، ان پر فوج کشی کرکے ہندوستان میں شامل کردیا گیا مگر کشمیر کے حکمران ہندو تھے اور وہاں کی کثیر آبادی مسلمان تھی مگر ہندوستان کے وزیراعظم پنڈت جواہر نہرو اس اعتراض کو یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ ہندوستان دو قومی نظریہ کا کبھی قابل نہیں رہا ہے، اس لئے ریاست کشمیر کا ہندوستان میں الحاق واجبی ہے۔
اندرا گاندھی کے دور حکومت میں پارلیمان میں ایک قرارداد منظور کرلی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ کشمیر، ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے۔ جس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔

کشمیر کا مسئلہ اس وقت ہند و پاکستان کے درمیان زندگی اور موت کا مسئلہ بنا ہوا ہے جس کی وجہ سے کشمیری عوام بے پناہ مصائب کا شکار ہیں، اُن کو آج تک ہمارے ملک کے جمہوری حقوق، ترقی اور خوش حالی نصیب نہ ہوسکی۔ وہاں ایک منتخبہ اسمبلی موجود ہے۔ پھر بھی سرحدی شورشیں ہوتی رہتی ہیں جن کو فوجی طاقت سے دبا دیا جاتا ہے حالانکہ عوام ملک میں جو بھی سہولتیں حاصل ہیں، ان کے حق دار ہیں۔ ہندوستان میں ایسی طاقتیں موجود ہیں جو کشمیر کے خصوصی موقف کے مالی فوائد کو وہاں کے عوام کو دینے تیار نہیں ہیں۔ وہ دستور کے دفعہ 370 کو حذف کردینا چاہتی ہیں۔ جب بھی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بات چیت کا ماحول پیدا ہونا تو اس کو سبوتاج کردیا جاتا ہے۔ پنڈت نہرو نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں اس حقیقت کو تسلیم کیا تھا چنانچہ شیخ عبداللہ کو جیل سے رہا کرکے پاکستان روانہ کیا گیا مگر افسوس تو یہ ہے کہ شیخ عبداللہ اپنے پاکستان کے دورے کو ختم بھی نہ کرپائے تھے کہ پنڈت نہرو کا انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد لال بہادر شاستری کے دورِ حکومت میں پاکستان سے بڑی خونریز جنگ لڑی گئی۔ اندرا گاندھی نے اس مسئلہ پر توجہ نہ دی بلکہ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تلخیوں میں اور اضافہ ہوگیا۔ پی وی نرسمہا راؤ اور راجیو گاندھی کی حکومت بھی یوں ہی گزر گئی مگر اٹل بہاری واجپائی نے اس مسئلہ پر توجہ دی، وہ خود ایک بس میں سوار ہوکر ایک بڑے وفد کے ساتھ پاکستان پہونچ گئے اور جنرل پرویز مشرف کو پاکستان آنے کے دعوت دی۔ جنرل پرویز مشرف ہندوستان آئے دونوں ممالک کے درمیان بات چیت شروع ہوئی، بڑے امید افزاء نتائج برآمد ہونے کا اعلان کیا گیا مگر کیا بات ہوئی کہ جنرل مشرف یکایک پاکستان واپس ہوگئے۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ پنڈت نہرو خود کشمیری پنڈت تھے، اس لئے ان کو کشمیر سے جذباتی وابستگی تھی، ورنہ کانگریس کے دوسرے قائدین جو کچھ ہوا، اس پر راضی نہ تھے۔ کہا جاتا ہے کہ سردار پٹیل 1949ء میں کشمیر کے مسئلہ پر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہونے والی جنگ کو روکنے کیلئے تیار نہیں تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ فوجی پیش قدمی کے ذریعہ پورے کشمیر پر قبضہ کرلیا جائے۔ مگر حقیقت دور ہے اور نومبر 1948ء کو کلکتہ میں تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ’’جموں اور لداخ کے علاقہ کو ہندوستان میں شامل کرلیا جائے اور کشمیر کو پاکستان کے حوالے کردیا جائے‘‘۔
کشمیر کا مسئلہ اتنا گنجلک ہے کہ موجودہ حکومت اس کو حل کرنے کے قابل نہیں ہے۔ وہاںکے عوام اپنے حقوق کی حفاظت کیلئے سر سے کفن باندھے میدان میں اُتر چکے ہیں۔ اب تو یہ حال ہے کہ ایک باپ اپنے بیٹے کو سرحد پر یہ کہہ کر بھیجتا ہے کہ وہ واپس نہ آئے بلکہ شہید ہوجائے۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان مفاہمت کا کوئی فارمولہ دریافت کریں جس میں مقبوضہ کشمیر اور ہندوستان کے کشمیر کے نمائندے بھی شامل ہوں۔
شیخ عبداللہ نے 1949ء میں کہا تھا کہ فرقہ پرستی کے لئے کشمیر میں کوئی جگہ نہیں ہے اور مذہب کی بنیاد پر عوام کبھی متحد نہیں ہوسکتے۔ خود پنڈت جواہر لال نہرو نے کہا تھا کہ اگر جن سنگھ جیسی جماعت کشمیر میں قدم جمانے کی کوشش کرے تو وہاں کے عوام کا کیا حشر ہوگا۔
آج کشمیر میں کیا سارے ہندوستان میں بی جے پی کی حکمرانی ہے۔ پتہ نہیں ہندوستانی عوام کا شعور آئندہ دِنوں ان کو کس راہ پر جانے کیلئے رہنمائی کرتا ہے۔