جشنِ خسرو

رپورتاژ سید محمود الحسن ہاشمی
ہندوستان کے عہد وسطیٰ کی تاریخ کی ایک نادرروزگار عبقری شخصیت طوطی ہند حضرت امیر خسروؒ کی تعلیمات، پیغام اور آپ کی خدمات پر کل ہند مجلس چشتیہ کے زیر اہتمام مولانا محمد مظفر علی شاہ صوفی نے مختلف اداروں اور تنظیموں کے تعاون سے ایک سہ روزہ عالمی جشن خسرو 22 تا 24 نومبر منعقد ہوا۔
اس سہ روزہ جشن کے سلسلہ میں سب سے اہم پروگرام ’’تذکرۂ خسرو‘‘ کے زیر عنوان ایک زبردست عالمی سمینار ہوٹل تاج بنجارہ کے انجمن سے موسوم طویل و عریض ہال میں اتوار 23 نومبر کو 10.30 بجے دن منعقد ہوا تھا، جس میں شہر کے علاوہ ملک اور بیرون ملک کے نامور محققین ، پروفیسروں اور جامعات کے وائس چانسلروں نے حضرت امیر خسرو کی حیات و خدمات پیغام اور تعلیمات پر سیر حاصل ، معلومات آفریں مقالات پیش کئے اور آپ کی ہمہ جہت اور جامع کمالات شخصیت اور خدمات کو خوب سراہا۔

تلاوت کلام مجید سے سمینار کے آغاز کے بعد عالمی جشن خسرو کے کنوینر جناب مظفر علی صوفی ابوالعلائی نے استقبالیہ کلمات پیش کئے اور اس سمینار و جشن کے انعقاد کے مقاصد پر روشنی ڈالی اور تمام معاونین کا شکریہ ادا کیا ۔ صوفی صاحب کے بموجب اس پروگرام و سمینار کا مقصد چشتیہ سلسلہ کے صوفیہ اور بالخصوص امیر خسرو کی تعلیمات و پیغام کے حوالہ سے بلا لحاظ مذہب و ملت بھائی چارہ ، امن اور قومی یکجہتی کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانا اور بالخصوص نوجوان نسل کو اس سے روشناس کرانا تھا۔بعد ازاں سمینار کے پہلے مقرر پروفیسر وائی سدرشن راؤ چیرمین انڈین کونسل فار ہسٹاریکل ریسرچ نے ’’صوفی ازم اور قومی یکجہتی‘‘ کے موضوع پر ایک جامع تقریر کی ۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایک کثیر مذہبی ملک سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسلام اور عیسائیت کے اس ملک میں آنے سے پہلے ہی ہندوستان ایک کثیر مذہبی ملک اور قوم تھا۔ پروفیسر راؤ نے آج کل ملک میں پھیلی ہوئی مذہبی منافرت اور تعصب پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مذہبی رواداری ، تحمل اور قومی یکجہتی کو فروغ دینے اور ان پر بے حد توجہ دینے پر زور دیا۔ پروفیسر راؤ کی کونسل کا اس سمینار کو تعاون حاصل تھا۔
پروفیسر سنیتا سنگھ وائس چانسلر انگلش اینڈ فارن لینگویجس یونیورسٹی (ایفلو EFLU ) نے حضرت امیر خسرو کو نہ صرف سب کیلئے ایک نمونہ کی حیثیت رکھنے والی مثالی عبقری شخصیت قرار دیا بلکہ انہوں نے آپ کو ایک ایسی شخصیت بتایا جو دوسرے مختلف مکاتب فکر اور فلسفوں سے کچھ نہ کچھ اخذ کرتا ہے اور کسی ایک مکتب فکر پر تکیہ نہیں کرتی۔ ایسی شخصیت کو ہمہ گیر عبقری شخصیت کہا جاتا ہے۔

جناب شاہد مہدی سابق وائس چانسلر جامعہ ملیہ اسلامیہ نے اپنی پرمغز اور معلومات آفریں تقریر میں سامعین کو یاد دلایا کہ بیسویں صدی میں امیر خسرو کو دوبارہ زندہ کرنے میں حیدرآباد دکن کا بڑا دخل رہا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ ایک عماد الملک تو وہ تھے جو حضرت خسرو کے نانا تھے ۔ ان کے ہم نام حیدرآباد کے دوسرے عماد الملک سید حسین بلگرامی نے 1914 ء میں اینگلو اورینٹل کالج (جو ابھی علیگڑھ یونیورسٹی نہیں بنا تھا) کے نواب محمد اسحاق کو خط لکھ کر توجہ دلائی کہ امیر خسرو کے کلام کو جمع کرنے کی ضرورت ہے۔ یوں ان کی بازیافت ہوئی ۔ مہدی صاحب نے کہا ’’ویسے خسرو کبھی بھلائے نہیں گئے تھے، وہ ہمیشہ عوام کے حافظہ میں محفوظ رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا ’’ہندوستان پر خسرو کو فخر تھا میں کہتا ہوں ہندوستان کو بھی خسرو پر فخر کر نا چاہئے‘‘۔

جناب شاہد مہدی کی تقریر کے بعد عزت مآب ڈپٹی سی ا یم جناب محمد محمود علی نے عالمی جشن خسرو کے سوینئر کی رسم اجراء انجام دی، جس میں شرکاء سمینار کے اردو ، انگریزی ، ہندی اور تلگو میں امیر خسرو کی حیات و تعلیمات پر جامع مضامین شامل ہیں۔ علاوہ ازیں اس میں نائب صدر جمہوریہ عزت مآب محمد حامد انصاری ، وزیر اقلیتی امور محترمہ نجمہ ہپت اللہ وغیرہ کے پیامات بھی طبع کئے گئے ہیں۔ چوتھے مقرر جناب احمد پاشاہ قادری ایم ایل اے نے بھی سمینار سے خطاب کیا اور حضرت امیر حسرو کی تعلیمات کے حوالہ سے صوفیائے کرام کے امن و دوستی کے پیغام کی اہمیت کو اجاگر کیا۔

بعد ازاں پرو وائس چانسلر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی جناب خواجہ محمد شاہد نے بھی سمینار سے خطاب کیا اور فرمایا’’امیر خسرو نے خانقاہ حضرت نظام الدین اولیاء سے وابستہ رہتے ہوئے 11 بادشاہوں کا دور دیکھا اور سات درباروں سے جڑے رہے ۔ انہوں نے ایک خانقاہ اور حکمران وقت کے درمیان ایک پل کا کام کیا ہے ۔ حضرت نظام الدین اولیاء کسی بادشاہ کو اپنی خانقاہ میں آنے نہیں دیتے تھے مگر انہوں نے اپنے مرید امیر خسرو کو درباروں میں جانے کی اجازت دے رکھی تھی۔
سمینار کو آقائی مہر داد پہلوانی نے ایرانی قونصل جنرل کی نیابت میں خطاب کیا اور ا میر خسرو کی شاعری پر بڑی اچھی روشنی ڈالی ۔ انہوں نے بتایا کہ خسرو کی شاعری پر قدیم فارسی شعراء انوری ، قآنی اور جامی کے اثرات نظر آتے ہیں۔ انہوں نے ہندوستان و ا یران کے کئی ہزار سالہ روابط کے حوالہ سے امیر خسرو کو دونوں ملکوں کی مشترکہ میراث قرار دیا اور انہیں ان دونوں کے باہمی تعلقات و روابط کا نمائندہ ٹھہرایا۔ انہوں نے اپنی فارسی تقریر میں خسرو اور دیگر فارسی شعراء کے متعدد اشعار بھی سنائے۔ آقائی نیرومند نے ان کی پر مغز تقریر کا اردو میں ترجمہ پیش کیا ۔ ترکی کے قونصل جنرل مراد عمریگلو نے بھی سمینار سے اپنے خطاب میں ترکی و ایران کے درمیان روابط و تعلقات پر مختصراً روشنی ڈالی۔

ڈاکٹر عقیل ہاشمی سابق صدر شعبۂ اردو عثمانیہ یونیورسٹی نے امیر خسرو کے حالات زندگی اور ان کی عظمت کے کئی گوشوں پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ امیر خسرو کے علاوہ کسی اور نے ہندوستان کے بارے میں اتنا کچھ نہیں لکھا اور بتایا ہے ۔ وہ ہندوستان کو کہیں نہیں بھولتے یہاں تک کہ انہوں نے لیلیٰ مجنون کی داستان میں بھی ہندوستان کا ذکر کیا ہے۔ وہ ہر جگہ اپنے وطن کے ذکر کا موقع نکال لیتے ہیں ، وہ ہندوستان کے تہذیبی سفیر تھے ۔ اسی لئے دنیا نے بڑے بڑے بادشاہوں کو بھلا دیا مگر امیر خسرو کا ذکر اب تک لوگوں کی زبان پر ہے۔

پروفیسر شریف حسین قاسمی دہلی یونیورسٹی نے اپنی پر مغز تقریر میں بتایا کہ امیر خسرو ہندوستان کی رنگا رنگ تہذیب کی عظمت سے آشنا تھے اور سب کو اس سے واقف کرانے کی کوشش کی ہے۔ ہمیں ملک کی اس رنگا رنگی کا احترام کرنا چاہئے۔ جناب محمد محمود علی نائب وزیر اعلیٰ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ امیر خسرو ایک انسان دوست شخصیت کے حامل تھے ۔ وہ کسی کو پرایا نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ سب کو اپنا سمجھتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں کو بزرگان دین اور اولیاء کرام سے بے حد لگاؤ ہے چنانچہ جب وہ دہلی ہوتے تھے اس زمانہ میں انہوں نے درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء کی انتظامی کمیٹی کی رکنیت قبول کرلی تھی ۔ جناب محمود علی نے یقین دلایا کہ حکومت تلنگانہ شہر میں امیر خسرو کی ایک یادگار قائم کرے گی ۔ بعد ازاں تلگو یونیورسٹی کی پروفیسر الیکھیا پنجلا نے اپنی تلگو انگریزی ملی جلی تقریر میں بڑی دلچسپ اور معلومات آفریں خیالات پیش کئے اور امیر خسرو کے متعدد شعر سنائے۔انہوں نے کہا لوگ کہتے ہیں امیر خسرو نے یہ شعر کشمیر کے بارے میں کہا تھا ؎
اگر فردوس بر روئے زمین است
ہمین است و ہمین است و ہمین است
لیکن میں کہتی ہوں امیر خسرو نے یہ شعر ہندوستان کے بارے میں کہا تھا اور اس پر انہوں نے کئی دلیلیں بھی دیں کہ آخر حضرت آدم کو ہندوستان میں کیوں اتارا گیا تھا اور طاؤس (مور) جنتی پرندہ ہے وہ ہندوستان میں کیوں پایا جاتا ہے ۔ اسی لئے کہ ہندوستان جنت نشاں ہے وغیرہ۔اس کے بعد مولانا رومی یونیورسٹی قونیہ ترکی کے نوجوان پروفیسر ڈاکٹر محمد بہزاد فاطمی نے انگریزی میں اپنا مقالہ سناتے ہوئے اپنی شیریں بیانی سے سامعین کا دل موہ لیا ۔ انہوں نے کہا ’’امیر خسرو نے فارسی میں شاعری کی تھی اس لئے ایرانی انہیں اپنا آدمی سمجھتے ہیں۔ اس طرح مولانا جلال الدین رومی نے بھی فارسی میں شاعری کی اس لئے ایرانی انہیں بھی اپنا سمجھتے ہیں، لیکن افسوس ہے کہ آج دنیا مذہبی اساس پر بٹی ہوئی نظر آتی ہے ۔ آج دنیا میں یہ رجحان بڑا خطرناک لگتا ہے ۔ ایسے میں امیر خسرو کے پیام محبت کی معنویت اور کچھ بڑھ جاتی ہے۔

آخر میں مولانا آزاد یونیورسٹی کے رجسٹرار جناب رحمت اللہ نے اس سمینار کے سامعین کو خطاب کیا اور کہا کہ آج کی نئی نسل امیر خسرو کی تعلیمات اور زندگی سے حب الوطنی کا درس لے سکتی ہے اور ہمیں اسے خسرو کی زندگی و تعلیمات سے واقف کرانا چاہئے ۔ پروفیسر مجید بیدار صاحب نے بھی وقت کی تنگی کا خیال کرتے ہوئے مختصر وقت میں اپنے مقالہ کا خلاصہ پیش کیا تھا جس پر لوگوں نے انہیں سراہا۔ اس سمینار کی نظامت کے فرائض مولانا فصیح الدین نظامی نے بڑی خوبی سے انجام دیئے ۔ انہوں نے وقفہ وقفہ سے خوبصورت اشعار سناتے ہوئے دلچسپ تبصرے کرتے ہوئے سمینار میں سامعین کی دلچسپی برقرار رکھی۔
آخر میں مولانا خواجہ سجادہ نشین درگاہ محبوب الٰہی نے مختصر خطاب کیا۔ انہوں نے جناب مظفر علی صوفی صاحب کو اس سمینار کے انعقاد و انصرام پر مبارکباد دی اور اثر انگیز دعا سے نوازا۔