جذباتی فیصلوں سے مسلمانوں کو نقصان

ظفر آغا
شکست مسلمانوں کی قسمت بن چکی ہے ۔ تب ہی تو ابھی حال ہی میں ہندوستانی سپریم کورٹ میں مسلم پرسنل لا کے معاملے میں اپنا جو فیصلہ سنایا اس میں بھی مسلمانوں کو شکست ہی نصیب ہوئی ۔ 1980 کی دہائی سے اب تک مسلم پرسنل لا بورڈ جس مسلم پرسنل لا کے تحفظ کی جد وجہد کررہا ہے وہ لڑائی اب پوری طرح ہار کر ختم ہوئی نظر آرہی ہے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کی یہ جد وجہد کیا ہے ؟ کتنی صحیح ہے اور کیا دور حاضر میں مسلم پرسنل لا کا موقف اس تعلق سے مناسب ہے ؟ جذبات کی رو میں بہے بغیر مسلم علماء اور مسلم معاشرے دونوں کو ان سوالات پر بحث کرنا لازمی ہے کیونکہ اگر مسلم روش کی طرح پھر اس مسئلہ میں جذبات سے کام لیا گیا تو اب نہ صرف شکست ہاتھ آئے گی بلکہ اس کے بے حد سنگین سیاسی و سماجی نتائج بھی ہاتھ آئیں گے ۔ چنانچہ آیئے ذرا سنجیدگی سے مسلم پرسنل لا کے معاملے پر ماضی اور حال کے پس منظر میں پہلے ایک نگاہ ڈالیں ۔

دراصل مسلم پرسنل لا کا معاملہ 80 کی دہائی میں اس وقت قومی سطح پر اٹھ کھڑا ہوا جبکہ سپریم کورٹ نے اس وقت شاہ بانو کیس میں اپنا فیصلہ سنایا ۔اس کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ یہ تھا کہ شاہ بانو جسے ان کے شوہر نے طلاق دے دی تھی ان کو یہ حق ہے کہ انکے شوہر طلاق کے بعد شاہ بانو کو ان کی گزر بسر کے لئے maintenance دیں ۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ پر اس وقت مسلم پرسنل لا بورڈ کا شدید ردعمل آیا ۔ نہ صرف یہ کہ مسلم پرسنل لا بورڈ نے اس فیصلے کو غیر قانونی قرار دیا بلکہ یہ مانگ کی کہ اس وقت کی راجیو گاندھی حکومت آئین میں ترمیم کرکے مسلمانوں کو ’’مسلم پرسنل لا‘‘ کے تمام حقوق واپس کرے ۔ مسلم پرسنل لا کی اس مانگ کے ساتھ ساتھ اس وقت مسلم تنظیموں نے ملک گیر سطح پر مسلم پرسنل لا بچاؤ تحریک شروع کردی جو کہ بہت کامیاب ہوئی ۔ ہزارہا مسلمان نعرہ تکبیر کی صداؤں کے ساتھ سڑکوں پر نکل آئے ۔ جیسا کہ ہندو فرقہ پرستوں کا شیوہ رہا ہے کہ مسلمانوں کے احتجاج کے ردعمل میں انہوں نے ملک میں ہندو ۔ مسلم نفاق پیدا کردیا ۔ ہندو تنظیموں کی طرف سے اس تحریک کے جواب میں یہ پروپگنڈہ شروع ہوگیا کہ مسلمان ایک دوسرا پاکستان بنارہے ہیں ۔ جس کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے ملک شاہ بانو فیصلہ کے بعد دو حصوں میں بٹ گیا ۔ ایک طرف ملک کی کم و بیش تمام سیاسی جماعتیں اور ہندو تنظیمیں تھیں جو بہ بانگ دہل کہہ رہی تھیں کہ عورت ، عورت ہوتی ہے ، کسی شوہر کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اپنی زوجہ کو طلاق دے اور پھر اس کو گزر و بسر کے لئے مناسب رقم بھی نہ دے ۔ یہ بات حقوق نسواں کے خلاف ہے چنانچہ شاہ بانو کو گزر بسر کے لئے رقم ملنی چاہئے اور سپریم کورٹ کا فیصلہ مناسب ہے ۔ دوسری جانب مسلم تنظیمیں اور مسلم پرسنل لا بورڈ تھا جو اس معاملے کو مسلم شریعت کا ایشو کہہ کر اپنی جد و جہد چلارہے تھے ۔ آخر راجیو گاندھی نے مسلمانوں کی مانگ تسلیم کی اور پارلیمنٹ میں عورتوں کے معاملے میں ایک ترمیمی بل پیش کرکے آئین میں رد وبدل کرکے مسلمانوں کی اور پرسنل لا بورڈ کی جو مانگ تھی اس کو منظوری دے کر سپریم کورٹ کا فیصلہ رد کردیا ۔

شاہ بانو کیس میں مسلم پرسنل لا بورڈ اور مسلم تنظیمیوں کی مانگ صحیح تھی یا غلط یہ مسلم سماج کی اپنی بحث ہے ۔ لیکن اس بات سے قطعاً انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کی اس مانگ پر جس طرح راجیو گاندھی حکومت جھکی اسکے انتہائی سنجیدہ سیاسی اور سماجی نتائج پیدا ہوئے جن کے انتہائی گہرے اثرات اس وقت سے آج تک ہندوستانی سیاست اور مسلم معاشرہ پر برقرار ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ شاہ بانو فیصلے نے ملک کی سیاست کا رخ ہی بدل دیا تو کسی حد تک یہ بات غلط نہیں ہوگی ۔ اور اس بات سے بھی قطعاً انکار نہیں کیا جاسکتا کہ شاہ بانو کیس میں آئین میں ترمیم کے بعد سے اب تک مسلم سماج کو اس فیصلے کا جس قدر خمیازہ بھگتنا پڑا ہے اور اس کا جو نقصان مسلمانوں کو ہوا اور ہورہا ہے اس کا اندازہ غالباً اس وقت مسلم پرسنل لا بورڈ اور مسلم تنظیموں کو نہیں تھا ۔ وہ کیوں اور کیسے ؟
شاہ بانو کیس میں شدید مسلم ردعمل کے تحت دو بہت اہم ردعمل ابھر کر سامنے آئے ۔ پہلی بات تو یہ ہوئی کہ ملک کی ایک بہت بڑی لابی ملک میں ہندوؤں اور دوسروں کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگئی کہ مسلم شریعت حقوق نسواں کی مخالف ہے ۔ پروپگنڈہ یہ تھاکہ اسلام میں عورت کو کوئی حق حاصل نہیں ہے اس کا شوہر جب چاہے عورت کو طلاق ، طلاق ،طلاق کہہ کر گھر سے باہر کردے اور پھر اس کی زوجہ کو گزر بسر کے لئے کسی قسم کی کوئی راحت بھی نہ دے ۔ ظاہر ہے کہ یہ بہت ہی anti – women پوزیشن تھی ۔ چنانچہ مسلم تنظیمیں اس سلسلے میں اپنی تحریک جس قدر تیز کرتی گئی اسی قدر ملک میں مسلمانوں کے خلاف غصہ پیدا ہوتا گیا اور مسلم مخالف لابی نے اس کا خوب فائدہ اٹھایا ۔ اس سیاسی فضا کا ردعمل جو ہوا وہ اس قدر سنگین تھا کہ جس کا اندازہ غالباً کسی کو نہیں تھا ۔ شاہ بانو کیس میں مسلم تحریک کے کم و بیش ساتھ وشوا ہندو پریشد نے بابری مسجد کو ہٹا کر وہاں رام مندر قائم کرنے کی مانگ اور تحریک شروع کردی تھی ۔ حقیقت یہ ہے کہ شاہ بانو معاملہ سے قبل اس مانگ پر ہندو کان نہیں دھرتے تھے ۔ لیکن جس طرح عورتوں کے حقوق کو برطرف کرکے راجیو گاندھی حکومت نے شاہ بانو معاملہ میں ’اسلامی شریعت‘ کے دفاع میں آئین میں ترمیم کردی لیکن رام مندر بنانے کی مانگ کو کوئی ترجیح نہیں دی گئی اس سے ملک کے ہندوؤں میں غصہ اور ردعمل پیدا ہوگیا ۔ سنگھ اور بی جے پی نے اس کا کھل کر فائدہ اٹھایا ۔ پورے ملک میں پروپگنڈہ شروع ہوگیا کہ مسلمان اس ملک کو ایک مسلم ملک یا دوسرا پاکستان بنارہے ہیں جبکہ اس ملک میں ہندوؤں کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔ اس دلیل میں باضابطہ خاصا دم تھا ۔ اسکا اتنا شدید ردعمل پیدا ہوا کہ 1947 کے بعد ملک میں پہلی بار سیاسی اور سماجی دونوں سطح پر ایک بہت بڑی ہندو لابی اٹھ کھڑا ہوئی جس کا سامنا کانگریس اور راجیو گاندھی کے لئے کرپانا ناممکن ہوگیا ۔

بس یہیں سے ہندوستان کی سیاست میں وہ تبدیلی آئی جس کے بعد ہندوستانی مسلمان محض شکست کا شکار ہوتا رہا ۔ پہلی تبدیلی جو آئی وہ تھی وشوا ہندو پریشد جس کو شاہ بانو فیصلے اور عورت بل سے قبل کوئی پوچھتا بھی نہ تھا وہی وشوا ہندو پریشد نعرہ تکبیر کے جواب میں جئے سیارام کے نعروں کے ساتھ رام مندر کے دفاع میں سڑکوں پر اتر پڑی ۔ بھگوان رام اب ’’ہندو سمان‘‘ کا ایشو بن گئے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے ملک ہندو ۔ مسلم کھائی میں بٹ گیا ۔ سارے ملک میں ہندو ۔ مسلم فساد پھوٹ پڑے ۔ جلد ہی بابری مسجد کا تالا کھل گیا ۔ فسادات میں ہزاروں مسلمان مارے گئے ، سماجی سطح پر اب مسلمانوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں تھا ۔ ہندو ردعمل کے خوف سے راجیو گاندھی بھی گھبراگئے ۔ نتیجتاً اس وقت راجیو گاندھی بھی 1989 کے پارلیمانی چناؤ سے قبل ’’رام راج‘‘ کی باتیں کرنے لگے ۔ اور سب سے سنگین بات جو ہوئی وہ یہ تھی کہ اس وقت لال کرشن اڈوانی کی قیادت میں بی جے پی نے سیکولرازم کو ’’سیوڈو سیکولرزم‘‘ کا رنگ دے کر ملک میں بی جے پی کو ملک کی اہم ترین پارٹیوں کی صف میں کھڑا کردیا ۔
وہ دن اور آج کا دن مسلمان اس ملک میں اپنی کمر سیدھی نہیں کرسکے ۔ بابری مسجد گئی ، ممبئی اور گجرات جیسے مسلم مخالف فسادات میں ہزارہا مسلمان مارے گئے اور اب پورے ملک پر بی جے پی کا پرچم لہرارہا ہے ۔ کوئی اس بات کو تسلیم کرے یا نہ کرے ان تمام واقعات پر شاہ بانو کیس کے فیصلے کے بعد ’شریعت بچاؤ تحریک‘ کا گہرا اثر ہے ۔ اب یہ عالم ہے کہ سپریم کورٹ جب یہ فیصلہ سنارہا ہے کہ نہیں مسلمان شوہر کو اپنی طلاق شدہ زوجہ کو گزر بسر کے لئے رقم دینی ہوگی تو مسلمان خوفزدہ ہے کہ کہیں پھر شریعت بچاؤ تحریک چلے اور پھر ہندو ردعمل پیدا ہو۔ ایک خاموشی ہے جو مسلم تنظیموں پر چھائی ہوئی ہے اور مسلمان شکست کا شکار گردن جھکائے سپریم کورٹ کے خلاف چند بیانات دے کر خاموشی سے زندگی بسر کررہا ہے ، بغیر سوچے سمجھے جذباتی تحریک چلانے کے کتنے سنگین نتائج ہوسکتے ہیں اس کا اندازہ مسلم پرسنل لا کے ایشو سے لگایا جاسکتا ہے ۔