مرکزی حکومت پر چیف منسٹر دہلی ارویند کیجروال کا سنگین الزام
نئی دہلی 31 اکتوبر (سیاست ڈاٹ کام) دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے وزیر اعظم نریندر مودی کی موجودگی میں سنگین الزام لگاتے ہوئے آج کہا کہ ججوں کے فون ٹیپ ہو رہے ہیں جو عدلیہ کی آزادی کے لئے بڑا خطرہ ہے تاہم مرکز نے اسے مکمل طور مسترد کرتے ہوئے الزام کو غلط قرار دیا۔ دہلی ہائی کورٹ کی گولڈن جوبلی تقریب میں یہاں وگیان بھون میں مسٹر کیجریوال نے ججوں کی تقرری کے نظام کلیجیم کے تعلق سے مرکزی حکومت اور سپریم کورٹ کے درمیان گزشتہ ایک سال سے جار رسہ کشی کا بالواسطہ طور پر ذکر کرتے ہوئے کہاکہ ’’میں نے دو ججوں کو بات کرتے سنا ہے کہ فون پر بات مت کرو یہ ٹیپ کئے جا رہے ہیں۔۔۔میں نہیں جانتا کہ یہ صحیح ہے یا نہیں لیکن اگر یہ صحیح ہے تو یہ خطرناک ہے۔۔۔پھر عدلیہ کی آزادی کہاں رہی‘‘ انہوں نے کہا کہ اگریہ بھی پتہ چل جائے کہ کوئی جج کچھ غلط کررہا ہے تو بھی ان کے فون ٹیپ کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے ۔ ان کے خلاف دوسرے طریقوں سے شہادتیں یکجا کی جانی چاہئیں۔ اسی پروگرام میں موجود وزیر قانون روی شنکر پرساد نے اپنے خطاب میں فون ٹیپ کے الزامات کو سرے سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ دو سال تک وزیر مواصلات رہے ہیں اور ججوں کے فون ٹیپ کئے جانے کے الزام کی تردید کرتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ’’میں مکمل معلومات کی بنیاد پر دعوے سے اس بات کی تردید کرتا ہوں کہ ملک میں ججوں کے فون ٹیپ کئے جا رہے ہیں۔‘‘ اعلی عدالتوں میں ججوں کی خالی عہدوں کا ذکر کرتے ہوئے مسٹر کیجریوال نے کہا کہ اعلی عدالتوں میں 1100 عہدوں میں سے تقریبا 450 خالی ہیں۔ نتیجے میں مقدموں کا بوجھ بڑھ رہا ہے ۔ ’’میں نے اخبار میں پڑھا ہے کہ سپریم کورٹ نے کئی ماہ پہلے ججوں کی تقرری کی سفارش کی تھی لیکن یہ سفارش اب بھی مرکزی حکومت کے پاس پڑی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ایک افواہ یہ ہے کہ ایک وزیر نے جن تین ججوں کی تقرری کی سفارش کی تھی ان کی تقرری نہ ہونے کی وجہ سے ججوں کی تقرری کی سفارش رکی پڑی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ کے کام میں عاملہ کی دخل اندازی غیرمناسب ہے اور یہ پورے ملک اور اس کے جمہوری ڈھانچے کے لئے اچھا نہیں ہے . انہوں نے کہا کہ مختلف اداروں کا احترام کیا جانا چاہئے اور کلیجیم کی سفارش کے 48 گھنٹے کے اندر اس کے نافذ کر دیا جانا چاہئے ۔ مسٹر کیجریوال نے کہا کہ اب عاملہ بہت طاقتور ہے اور اس کے کئی ہاتھ ہیں جبکہ عاملہ اور عدلیہ کے درمیان توازن ہونا ضروری ہے ۔ دہلی کے وزیر اعلی نے کہا کہ آزادی کی لڑائی کے دو مقصد تھے ، ایک تو انگریزوں سے نجات اور دوسرا جمہوریت قائم کرنا. پہلا کام تو ہو گیا لیکن جمہوریت کا یہ حال ہے کہ عوام کی طاقت چھیننے کی کوشش کی جا رہی ہے اور یہ طاقت ایک ادارے کو دی جا رہی ہے ۔ آزادی کی لڑائی اس لیے نہیں لڑی گئی تھی کہ ملک میں آمریت قائم ہو جائے ۔ ججوں کی تقرری کے بارے میں مسٹر پرساد نے کہا کہ یہ اہم مسئلہ ہے اور ججوں کی تقرری ضروری ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کلیجیم کی اپنی اہمیت ہے لیکن اس نظام میں بہتری اور خوشگوار حل کے قدم اٹھائے جا رہے ہیں۔ مسٹر کیجریوال کے الزامات اور پھر مسٹر روی شنکر پرساد کے ارتداد سے ماحول عجیب سا ہو گیا تھا اور پروگرام کے آخر میں جب مسٹر مودی بولنے آئے تو انہوں نے اس پر چٹکی لیتے ہوئے کہاکہ ’’بڑا سنجیدہ ماحول نظر آرہا ہے ۔ 50 سال پورے ہونے کی تقریب مسکرا کر منائی جائے۔‘‘