جادو سے حفاظت

سوال :  مجھ پر جادو کرادیا گیا ہے ۔ وقفہ وقفہ سے میری طبیعت جادو کے اثر سے خراب ہوجاتی ہے ۔ آپ سے گزارش ہے کہ اس سے محفوظ رہنے کیلئے قرآنی عمل بتلائیں تو بہتر ہوگا ۔
رضوانہ مبین، حیدرآباد
جواب :  جادو ایک باطل علم ہے اور اس کا سیکھنا حرام ہے ۔ جادوگر اور اس کے پاس جانے والے شب قدر و شب برات میں بھی مغفرت سے محروم رہیں گے ۔ تاوقتیکہ وہ اپنے گناہ سے سچی توبہ نہ کرلیں۔ تاہم اگر کسی پر جادو کرایا جائے تو متاثرہ شخص کے سر پر ہاتھ رکھ کر آیۃ الکرسی (سورہ بقرہ 255 ) ، فوقع الحق و بطل ماکانوایعملون … ساجدین (سورہ اعراف 119/117 فلما جاء السحرۃ قال لھم موسیٰ القو اما انتم ملقون … ان اللہ سیبطلہ ان اللہ لا یصلح عمل المفسدین (سورہ یونس 82/79) والق مافی یمینک تلقف ماصنعوا… ولا یفلح الساحر حیث اتی (طہ 68 ) سورہ الکافرون  سورۃ الاخلاص معوذتین (قل اعوذبرب الفلق ۔ قل اعوذ برب الناس) تین تین مرتبہ پڑھیں  اور پانی پر دم کردیں اور وقفہ وقفہ سے مریض کو وہی پانی پلائیں اور بوقت غسل اس پانی کو شامل کر کے نہائیں ۔ پورے یقین کے ساتھ یہ عمل کیا جائے تو انشاء اللہ شفاء ہوگی۔ اگر مریض خود بھی یہ عمل کرے تو بہتر ہے۔

دو بیویوں کے درمیان باری تقسیم
سوال :  میں نے دو شادیاں کیں اور دونوں بیویوں سے اولاد ہوئی، میں نے بلا لحاظ سب کو اچھا پڑھایا اور ان کی شادیاں کردیں، پہلی بیوی کے دو لڑکے اپنی ماں کے ساتھ رہتے ہیں، دوسری بیوی کا ایک لڑکا اپنی ماں کے ساتھ رہتا ہے ۔ میں نے بڑی مشکل سے دو بیویوں کے درمیان زندگی بسر کی ہے ۔ اب ساری ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوگیا ہوں۔ اب میں مہینے میں چار پانچ روز اپنے آبائی مکان میں اپنے بھائی بہنوں اوران کی اولاد کے ساتھ رہتا ہوں۔ میری بھی جائیداد مشترکہ ہے اور شہر میں دو مکانات ہیں جس میں دو بیویوں کو علحدہ رکھا ہوں۔
اب دونوں بیویوں کا تقاضہ ہے کہ آپ وہاں اکیلے نہیں رہ سکتے ۔ ہم کو یہاں چھوڑ کر ایک ایک ہفتہ رہنا غلط ہے۔ کیا شریعت میں میرا یہ عمل درست نہیں ہے ؟ کیا مجھے اپنے ہی گھر میں اپنے بھائی بہنوں کے ساتھ رہنے کا حق نہیں ؟ جبکہ میں ان دونوں سے کہتا ہوں کہ تم بھی آکر رہو تو وہ آنے تیار نہیں ہوتے۔
براہ کرم شریعت کی روشنی میں میری رہنمائی فرمائیں ؟
عام مخفی
جواب :   شرعاً دو بیویوں کے درمیان باری باری سے رہنا لازم ہے۔ اگر ایک رات ایک بیوی کے پاس رہے تو دوسری شب دوسری بیوی کے پاس گزارنا لازم ہے۔ تاہم ہمیشہ ہر رات کسی ایک کے پاس رہنا ضروری نہیں۔ اگر وہ کچھ راتیں تنہائی یا کسی دوسرے کام میں یا کسی دوسرے مقام اپنے عزیز و اقارب کے پاس رہنا چاہتا ہے تو شرعاً منع نہیں ہے۔ رد المحتار جلد 3 کتاب النکاح باب القسم ص : 229 میں ہے : اللازم انہ اذا بات عند واحدۃ لیلۃ یبیت عندالا خری کذلک لا نہ یجب ان یبیت عند واحد منھمادائما فانہ لو ترک المبیت عندالکل بعض اللیالی وانفرد لم یمنع من  ذلک اھ ۔ یعنی بعد تمام دورھن سواء انفرد بنفسہ او مع جواریہ فافھم۔
پس صورت مسئول عنہا میں اگر آپ مہینے میں چار پانچ دن اپنے آبائی مکان میں اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو شرعاً اس میں کوئی ممانعت نہیں۔

چرم قربانی کا مصرف
سوال :  چرم قربانی ایسے عربی مدارس کو دیئے جاتے ہیں جہاں طلبہ کے قیام و طعام کا انتظام ہوتا ہے یا ایسے بیت المال اور اداروں کو دیئے جاتے ہیں جو خدمت خلق کا کام کرتے ہیں۔ محلے کے تبلیغی جماعت کے لوگ تبلیغی جماعت کیلئے چرم قربانی جمع کرتے ہیں جبکہ محلہ کی مساجد میں بیت المال بھی ہوتا ہے ۔ شرعاً کیا حکم ہے ؟
نام مخفی
جواب :  چرم قربانی کے مصارف وہی ہیں جو زکوٰۃ کے مصارف ہیں۔ رد ا لمحتار جلد 2 کتاب الصرف میں ہے: وھو مصرف ایضا لصدقتہ الفطر والکفارۃ والنذر و غیر ذلک من الصدقات الواجبت۔ یعنی جن کو زکوٰۃ دینا صحیح ہے انہی کو چرم قربانی و دیگر صدقات واجبہ دیئے جاسکتے ہیں اور جو زکوٰۃ کے مستحق نہیں ہیں ان کو چرم قربانی بھی نہیں دی جاسکتی۔
چرم قربانی ایسے مدارس کو دی جاسکتی ہے جہاں پوری امانت کے ساتھ غیر سید ضرورتمند طلباء کے قیام و طعام پر اس کی رقم کو صرف کیا جاتا ہو اور ایسے بیت المال اور ادارہ جات کو بھی دے سکتے ہیں جو مسلم مستحق طلباء پر وہ رقم خرچ کرتے ہوں، مطلق خدمت خلق کی تنظیموں کو دینا درست نہیں ہے۔ پس تبلیغی جماعت کے افراد  چرم قربانی وصول کرے اور وہ رقم ضرورتمند و مستحق مسلمانوں پر دیانت کے ساتھ خرچ کرتے ہوں تو فبھا اور اگر وہ ضرورتمند و مستحق ز کوٰۃ مسلمانوں پر خرچ نہیں کرتے ہیں بلکہ ایسی چیزوں پر خرچ کرتے ہیں جس میں کسی غریب و محتاج مسلمان کی تملیک نہیں ہوتی تو ان کو چرم قربانی نہیں دی جاسکتی۔ زکوٰۃ کی ادائیگی اور چرم قربانی کی ادائیگی میں نہایت احتیاط ضروری ہے۔ کئی ایک ادارے  زکوٰۃ و چرم قربانی وصول کر رہے ہیں لیکن اس کے مصارف میں خرچ نہیں کر رہے ہیں۔
استنجاء کیلئے ڈھیلے کا استعمال
سوال :   اگر استنجاء کے لئے پانی اور ڈھیلا دونوں ہوں تو ہمیں استعمال کے لئے زیادہ اہمیت کس کو دینا چاہئے ۔ کیا پانی موجود نہیں رہنے کی صورت میں ہمیں ڈھیلا استعمال کرنا چاہئے ؟
شاہداحمد، ملک پیٹ
جواب :   استنجاء سے اصل مقصود نجاست کا دور کرنا ہے۔ طہارت کے لئے پانی کا استعمال پسندیدہ ہے۔ ڈھیلا اور پانی کا استعمال افضل ہے۔
نور الایضاح ص : 28 میں ہے۔ ’’ و ان یستنجی بجر منق و نحوہ والغسل بالماء احب والافضل الجمع بین الماء والحجر‘‘ ۔ اور جو لوگ طہارت کے لئے ڈھیلا اور پانی دونوں کا استعمال کرتے ہیں ان کی قرآن مجید میں تعریف آئی ہے ۔ ’’ فیہ رجال یحبون ان یتطھروا واللہ یحب المطھرین ‘‘ (التوبہ 108/9 )
(اس میں ایسے چند لوگ ہیں جو خوب پاکیزگی کو پسند کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ خوب پاکی کا اہتمام کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے) یہ آیت شریفہ مسجد قباء کی تعریف میں نازل ہوئی جس میں وہاں رہنے والے انصار صحابہ کی صفائی و ستھرائی کی تعریف کی گئی ۔ سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ تم کیسے طہارت حاصل کرتے  ہو تو انہوں نے کہا کہ ہم طہارت میں پتھر اور پانی کا استعمال کرتے ہیں۔ تو آ پ نے دیگر صحابہ کو بھی اس کا حکم فرمایا۔ ’’ فقالوا کنا نتبع الجمارۃ بالماء فقال ھو ذاک فعلیکموہ (تفسیر جلالین ص : 167 )

قربانی کا گوشت غیر مسلم کو دینا
سوال :   عرض خدمت یہ ہے کہ کیا قربانی کا گوشت غیر مسلم یعنی (ہندوؤں) کو دے سکتے ہیں یا نہیں ؟ براہ کرم جواب بذریعہ سنڈے ایڈیشن روزنامہ سیاست سے مرحمت فرمائیں تو عین نوازش ہوگی۔ عید قربان نزدیک ہے‘ اس لئے جواب کا منتظر رہوں گا۔
محسن شریف، مہدی پٹنم
جواب :   قربانی کے گوشت سے متعلق قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فکلوامنھا و اطعموا البائس الفقیر (سورۃ الحج : 28 ) ترجمہ : تم قربانی کے جانوروں سے کھاؤ اور خستہ حال محتاج کو بھی کھلاؤ۔ اسی سورہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔ فکلوا منھا واطعموا القانع والمعتر (سورۃ الحج : 36 ) پس تم قربانی کے جانوروں سے کھاؤ اور قناعت سے بیٹھنے والے اور سوال کرنے والے کو کھلاؤ۔
حدیث شریف میں ہے : اذا ضحی احد کم فلیأکل من اضحیتہ و یطعم منہ غیرہ (اخرجہ احمد 391/2/ ) جب تم میں سے کوئی قربانی دے تو چاہئے کہ وہ اپنے قربانی کے گوشت کو کھائے اور دوسروں کو کھلائے۔
مذکورالصدر آیات قرآنی اور حدیث شریف میں قربانی کے گوشت کو صاحب قربانی کے تناول کرنے محتاج و مسکین اور دوسروں کو کھلانے کی ترغیب دی گئی ہے ۔ محتاج و ضرورت مند میں مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تخصیص و قید نہیں ہے ۔ شریعت میں غیر مسلم کو مسلمان کا ازراہ عبادت و ا طاعت دیا جانے والا مال و صدقہ میں تفصیل ہے ۔ غیر مسلم کو زکوٰۃ کی رقم بلا اختلاف نہیں دی جاسکتی اور فطرہ صدقہ واجبہ ہے اور فقہ حنفی میں امام ابو یوسف کے نزدیک صدقہ فطر غیر مسلم کو دینا جائز نہیں۔ البتہ نفل صدقات غیر مسلمین کو دیئے جاسکتے ہیں اور قربانی کا گوشت صدقہ نافلہ ہے ۔ صدقہ واجبہ نہیں‘ اگر صدقہ واجبہ ہوتا تو خود صاحب قربانی اس گوشت کو استعمال نہیں کرسکتا‘ صاحب قربانی کا اپنی قربانی کے گوشت کو کھانے اور دوسروں کو کھلانے کی ترغیب اس کے صدقہ نافلہ ہونے کا ثبوت ہے۔
بدائع ضائع جلد 6 مطبعہ دارالکتب العلمیہ بیروت صفحہ 33 میں ہے:   ثم کل دم یجوز لہ أن یأکل منہ لایجب علیہ أن یتصدق بہ بعد الذبح اذ لو وجب علیہ التصدق لما جازلہ أن یأکلہ منہ و کل دم لایجوز لہ أن یأکل منہ یجب علیہ أن یتصدق بہ بعد الذبح اور اسی میں ہے : ولو تصدق بالکل جاز ‘ ولو حبس الکل لنفسہ جاز‘ لأن القربۃ فی الاراقۃ و اما التصدق باللحم فتطوع۔ اسی کتاب کی جلد دوم کتاب الزکاۃ صفحہ 474 میں ہے: وأما صدقۃ التطوع فیجوز صرفھا الی الغنی لأنھا تجری مجری الھبۃ۔
پس صورت مسئول عنہا میں نفس قربانی اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ذریعہ ہے اور اس کا گوشت تقسیم کرنا صدقہ نافلہ ہے اور صدقہ نافلہ مسلمان مالدار و تنگدست اور غیر مسلم مالدار و محتاج کو دیا جاسکتا ہے ۔ لہذا قربانی کا گوشت غیر مسلم کو دینے میں شرعاً کوئی مضائقہ نہیں۔ علاوہ ازیں عہد رسالت میں صحابہ کرام نے غیر مسلمین کو بطور صدقہ مال وغیرہ دینے کو ناپسند کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت شریفہ نازل فرمائی۔ لیس علیک ھداھم ولکن اللہ یھدی من یشاء وما تنفقوا من خیر فلأ نفسکم وما تنفقون الاابتغاء وجہ اللہ وما تنفقوا من خیر یوف الیکم وانتم لا تظلمون (سورۃ البقرۃ472/2 ) جس کا مفہوم یہ ہے کہ غیر مسلمین کو ہدایت دینا یا نہ دینا اللہ کا معاملہ ہے لیکن جو کچھ بھلائی تم خرچ کروگے وہ تمہارے حق میں ہوگا اور جو کچھ بھلائی تم خرچ کروگے‘ تم کو اس کا پورا بدلہ دیا جائے گا ۔ اس آیت کے نزول کے بعد صحابہ کرام نے غیر مسلمین کو فرض صدقہ چھوڑ کر نفل صدقہ دینا جاری رکھا۔