تیسری سمت کا دباؤ ہے کیا

رشیدالدین
کوئی بھی ملک دوست تبدیل کرسکتا ہے لیکن پڑوسی تبدیل نہیں کئے جاسکتے۔ لہذا پڑوسیوں سے اختلافات طویل عرصہ تک برقرار رکھنا اچھی علامت نہیں ہے۔ دنیا میں کئی مثالیں موجود ہیں جہاں کٹر دشمن سمجھے جانے والے ممالک نے طویل عرصہ سے جاری اختلافات کو خیرباد کہہ دیا۔ امریکہ اور ایران کے درمیان نیوکلیئر معاہدہ تازہ مثال ہے۔ ان دونوں میں دوستی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا لیکن قومی مفادات کے نام پر ایران اپنے انقلابی رہنما آیت اللہ خمینی کے ’’مرگ بہ امریکہ‘‘ کے نعرہ کو بھلانے کے لئے تیار ہوگیا۔ امریکہ نے ایران سے معاہدہ کیلئے اسرائیل سے مخالفت کی پرواہ نہیں کی۔ الغرض تیزی سے  بدلتے حالات اور ضرورتوں اور مجبوریوں نے دشمن ممالک کو بھی قریب آنے پر مجبور کردیا ۔ دنیا پر اپنی طاقت کے زور سے کنٹرول کرنے کا خواب دیکھنے والی طاقتیں بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے لگی ہیں کہ جنگ یا ٹکراؤ کے بجائے مذاکرات اور بات چیت کے ذریعہ سنگین مسائل کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان  عالمی سطح پر قبول کردہ اس فارمولہ کو سمجھنے سے کیوں قاصر ہیں؟ تقسیم ہند اور آزادی کو 68 برس مکمل ہوگئے لیکن یکساں مسائل، تہذیب و تمدن میں یکسانیت کے باوجود دونوں ممالک میں کشیدگی برقرار ہے۔ دونوں کے درمیان لڑائیاں بھی ہوئیں لیکن پھر بھی تسلی نہیں ہوئی۔

سرحد پر فوج کی گولیاں ایک دوسرے کے خون کی پیاسی بنی ہوئی ہیں ۔ کیا اختلافات کے خاتمہ میں دونوں ممالک کی قیادت سنجیدہ نہیں ہے یا پھر کوئی تیسری طاقت دونوں کی ڈور ہلا رہی ہے ؟ گزشتہ چند برسوں کے تجربات سے دونوں ممالک کے عوام سوچنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ آخر یہ کشیدگی کب تک برقرار رہے گی۔ جس سے دونوں ممالک کی ترقی متاثر ہورہی ہے۔ مذاکرات اور گولہ باری و دراندازی ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزیوں اور اندرون ملک حملوں کے باوجود نریندر مودی حکومت نے مشیر قومی سلامتی کی ملاقات کے پروگرام کو برقرار رکھا ہے جبکہ پاکستان کی جانب سے مشتعل کرنے کی حد درجہ کوششیں کی گئیں۔مذاکرات کے مسئلہ پر اچانک تجسس پیدا ہوگیا ہے۔لمحہ آخر میں دونوں جانب سے ڈرامائی تبدیلیوں کے بعد غیر یقینی صورتحال پیدا ہوچکی ہے۔ مذاکرات کے ایجنڈہ پر دونوں ممالک اپنی اپنی شرائط پر قائم ہیں۔ مسئلہ کشمیر اور حریت قائدین سے ملاقات کا مسئلہ مذاکرات میں تعطل کا سبب بنتا جارہا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مذاکرات میں کسی بھی پیشرفت کو چھپانے کیلئے دونوں ممالک اپنے اپنے داؤ پر ہے اور کوئی بھی اس تعطل کی ذمہ داری لینے کیلئے تیار نہیں۔ اس ڈرامہ بازی میں نہ صرف دونوں ممالک بلکہ حریت کے اعتدال پسند اور کٹر پسند قائدین برابر کے حصہ دار دکھائی دے رہے ہیں۔ پاکستان کے مشیر قومی سلامتی سرتاج عزیز نے کشمیر مسئلہ کے ساتھ دیگر امور پر مذاکرات کی بات کہی ہے۔ ان حالات میں لمحہ آخر تک مذاکرات کی پیشرفت کے بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔
ہندوستان کی یوم آزادی سے سرحد پر جنگ بندی کی خلاف ورزیاں اور شہری علاقوں پر گولہ باری کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستانی فائرنگ میں کئی عام شہری ہلاک ہوئے اور سرحد سے متصل کئی دیہاتوں کا تخلیہ کردیا گیا۔ مذاکرات سے عین قبل پاکستانی ہائی کمشنر نے حریت قائدین کو سرتاج عزیز سے ملاقات کی دعوت دی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان مذاکرات کو دہشت گردی سے کشمیر تنازعہ کی طرف موڑنے کی کوشش کرے گا۔ پاکستانی مبصرین کا ماننا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو ہر فورم میں اٹھانا پاکستان کی مجبوری ہے۔ پاکستان میں کوئی حکومت ہو ، اس کے ایجنڈہ میں مسئلہ کشمیر سرفہرست رہتا ہے اور اسی سے سیاسی دکان چلائی جاتی ہے۔ پاکستان کی مسلسل اشتعال انگیزیوں کے باوجود نریندر مودی حکومت کا مذاکرات کے حق میں موقف ناقابل فہم ہے۔ دہشت گرد حملوں ، سرحد پر گولہ باری اور گولیوں کے سائیے میں امن کی بات چیت نہیں کی جاسکتی۔ مذاکرات کی برقراری کے ذریعہ مرکزی حکومت دنیا کو آخر کیا پیام دینا چاہتی ہے؟ اگست 2014 ء میں پاکستانی ہائی کمشنر نے حریت قائدین کو دعوت دی تھی جس سے برہم ہوکر ہندوستان نے معتمدین  خارجہ کی ملاقات کو منسوخ کردیا تھا۔ حریت قائدین کو مدعو کرنے پر ہندوستان نے اس قدر برہمی دکھائی لیکن آج مسلسل حملوں اور اشتعال انگیزی پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں ۔

معتمدین خارجہ کی ملاقات کو منسوخ کرنے کا فیصلہ درست تھا یا پھر قومی سلامتی مشیروں کی بات چیت جاری رکھنے کا فیصلہ درست ہے؟ اس کا جواب مرکز کو دینا ہوگا۔ ایک سال کی مدت میں پالیسی میں اس قدر تبدیلی کیوں؟ معتمدین خارجہ کی بات چیت کی منسوخی کے بعد مودی حکومت نے خارجہ سکریٹری کو سارک یاترا کے نام پر پاکستان روانہ کیا تھا۔ بعد میں تیسرے ملک میں مودی اور نواز شریف کی ملاقات ہوئی۔ اپوزیشن اور اقتدار میں بی جے پی کے دوہرے معیارات پر عوام حیرت میں ہیں۔ اپوزیشن میں رہ کر پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کا مطالبہ کرنے والی بی جے پی کی حمیت وطنی اور جذبہ حب الوطنی کو کیا ہوگیا ۔ آخر مرکزی حکومت اس قدر مجبور اور بے بس کیوں ہوچکی ہے۔ کس نے موقف بدلنے پر مجبور کیا اور کس کے اشارہ پر حکومت کام کر رہی ہے۔ گرداس پور اور ادھم پور حملوں کے بعد حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ مشیران قومی سلامتی کی ملاقات کو منسوخ کردیتی۔ کیا سرحد پر فائرنگ کے تبادلہ کا دونوں ممالک میں مقابلہ چل رہا ہے؟ دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کے دعوے کئے جارہے ہیں لیکن عوام کو بتایا جائے کہ جوابی کارروائی میں دوسری جانب کیا نقصانات ہوئے۔ بے قصور اور بھولے بھالے عوام کی زندگیوں پر یہ سیاسی کھیل آخر کب تک جاری رہے گا۔ سرتاج عزیز سے ملاقات روکنے کیلئے حریت قائدین کو نظربند کیا گیا لیکن چند گھنٹوں میں نظربندی ختم کردی گئی۔ ظاہر ہے کہ کشمیر برسر اقتدار پی ڈی پی کے اشارہ پر یہ فیصلہ کیا گیا ۔

حریت قائدین کی پاکستانی نمائندوں سے ملاقات کی ہرگز اجازت نہیں دی جاسکتی اور مرکزی حکومت کو اس سلسلہ میں اپنا سخت گیر موقف برقرار رکھنا چاہئے ۔ مشیران قومی سلامتی کی ملاقات یا اس کے بعد بھی حریت قائدین کو پاکستانی نمائندوں سے ملاقات کا کوئی جواز نہیں ہے۔  یوں بھی پاکستان کو پہلے اپنے گھر کو درست کرنا چاہئے، بجائے اس کے کہ ہندوستان کے داخلی مسائل میں مداخلت کرے۔ مرکزی حکومت پہلے کشمیری قیادت اور عوام کو اعتماد میں لے۔ الغرض جن حالات اور کشیدہ ماحول میں قومی سلامتی مشیروں کی ملاقات ہونے جارہی ہے، اس کے معنی خیز یا نتیجہ خیز ہونے کی امید نہیں کی جاسکتی۔اگر ملاقات ہوتی بھی ہے تو دونوں ایک دوسرے پر الزام تراشی کے بعد رسمی مسکراہٹ کے ساتھ رخصت ہوجائیں گے۔
وزیراعظم نریندر مودی نے متحدہ عرب  امارات کے دورہ سے واپسی کے ساتھ ہی بہار کا دورہ کیا اور اسمبلی انتخابات کیلئے بی جے پی کی  مہم شروع کی۔ مرکز کو انتخابات سے عین قبل بہار کی پسماندگی کا خیال آیا ہے۔ نریندر مودی حکومت نے ایک لاکھ 25 ہزار کروڑ روپئے کے پیاکیج کا اعلان کردیا۔ مودی جس انداز میں پیاکیج کا اعلان کر رہے تھے ، ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے وہ بہار کی پسماندگی کے خاتمہ کیلئے فنڈس کا اعلان نہیں بلکہ بہار کے ہراج کی بولی لگا رہے ہیں۔ اقتدار میں آتے ہی نریندر مودی نے راجہ مہاراجاؤں کی طرز پر اعلانات کا آغاز کردیا ۔ ان کے طرز حکمرانی اور عوامی مسائل پر خاموشی سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ جمہوریت میں نہیں بلکہ شاہی میں خود کو ڈکٹیٹر تصور کر رہے ہیں۔ انہیں جمہوریت کے طرز حکمرانی میں واپس لوٹنا ہوگا۔ بہار کیلئے ایک لاکھ  25 ہزار کرو ڑ کہاں سے آئیں گے ، اس کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔ انتخابات سے قبل نریندر مودی نے جو وعدے کئے تھے ، ان کا انجام کیا ہوا، عوام اچھی طرح جانتے ہیں۔ بہار کے عوام ایک لاکھ 25 ہزار کروڑ کے پیاکیج کو سابقہ اعلانات کی طرح محسوس کر رہے ہیں۔ اقتدار کے 100 دن میں ہر ایک کے بینک اکاؤنٹ میں 15 لاکھ جمع کرنے کا وعدہ تھا لیکن 15 ماہ گزرنے کے باوجود عوام کے بینک اکاؤنٹ میں 15 روپئے بھی نہیں آئے۔ ظاہر ہے کہ ایک لاکھ 25 ہزار کروڑ کے وعدہ کا وہی حشر ہوگا۔ دوسری طرف آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کی کوششوںکے خلاف تحریک کا اعلان کیا ہے ۔ دین اور دستور بچاؤ تحریک کا مقصد دستور کے بنیادی اقدار کا تحفظ ہے جس میں سیکولرازم ، مساوی انصاف، مذہبی آزادی ، مساوات اور بھائی چارہ شامل ہیں۔ سیکولرازم کے نام پر ایک مخصوص مذہب کی روایات کو مسلط کرنے کی کوشش یقینی طور پر ناقابل قبول ہے لیکن اس کا مقابلہ صرف تحریک کے ذریعہ نہیں کیا جاسکتا۔

عدلیہ اور سیاسی طاقت کے ذریعہ حکومت پر دباؤ بنانا چاہئے ۔ شریعت کے خلاف ملک کی کئی عدالتوں میں فیصلے سنائے گئے لیکن تمام فیصلوں کو ابھی تک چیلنج نہیں کیا گیا۔ عدالتوں کے معاملات کو سڑکوں پر حل نہیں کیا جاسکتا۔ جس طرح شاہ بانو مقدمہ میں حکومت کو دستوری ترمیم کیلئے مجبور کیا گیا، اسی طرح کے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ واجپائی دور حکومت میں قائم کردہ جین کمیشن نے ملک میں یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی سفارش کی ہے۔ بی جے پی کے انتخابی منشور میں یکساں سیول کوڈ کا وعدہ شامل ہے۔ لہذا کمیشن کی سفارشات پر عمل آوری کے سلسلہ میں پیشرفت کا مرکزی حکومت کو موقع ہاتھ لگ جائے گا۔ ملک میں یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی تیاری اور شریعت اسلامی کے خلاف مہم کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک نام نہاد تنظیم کے ذریعہ ملک بھر میں طلاق کے مسئلہ پر سروے کیا گیا۔ اس سروے رپورٹ کو میڈیا کے ذریعہ غیر معمولی تشہیر کی جارہی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مسلم خواتین کی اکثریت زبانی طور پر طلاق کے خلاف ہے۔ ظاہر ہے کہ اس طرح فرضی سروے کا مقصد مسلمانوں کو شریعت اسلامی سے بدظن کرنے کی کوشش ہے۔ کوئی بھی مسلمان شریعت اسلامی سے بغاوت کا تصور نہیں کرسکتا۔ چند نام نہاد اور آزاد خیال عورتوں کا سہارا لیکر اسلام کے خلاف مہم چلائی جارہی ہے۔ اس طرح کی تنظیموں اور رسوائے زمانہ مصنفہ تسلیمہ نسرین میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جب تک دستور کے دفعہ 44 برقرار رہے گی، اس وقت تک یکساں سیول کوڈ کی تلوار لٹکتی رہے گی۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کو قانون کی دائرہ میں رہ کر جدوجہد کے ساتھ سیکولر جماعتوں کی تائید حاصل کرتے ہوئے دفعہ 44 کی تنسیخ کیلئے حکومت پر دباؤ بنانا چاہئے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ ایک نمائندہ ادارہ ہے جسے شاہ بانو کیس کے وقت کی گئی ٹھوس کوششوں کا اعادہ کرنا ہوگا ورنہ سنگھ پریوار اپنے ایجنڈہ کو بتدریج لاگو کرتا رہے گا۔ ہند۔پاک مشیران قومی سلامتی کی ملاقات پر ڈاکٹر راحت اندوری کے یہ اشعار صادق آتے ہیں  ؎
سرحدوں پر بہت تناؤ ہے کیا
کچھ پتہ تو کرو چناؤ ہے کیا
خوف بکھرا ہے دونوں سمتوں میں
تیسری سمت کا دباؤ ہے کیا