تیسرا محاذ سیکولر ووٹ کی تقسیم کا سبب بن سکتا ہے

غضنفر علی خان
کمیونسٹ پارٹیوں اور سیکولر جماعتو ںکی جانب سے تیسرا متحدہ محاذ بنانے کی خبریں گرم ہیں۔ سیکولر پارٹیوں کے متحد ہونے کی بات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن اس اتحاد سے ملک کے سیکولر ووٹوں کا منقسم ہونا بھی ضروری ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ ملک بھر میں سیکولر ووٹ بینک بی جے پی اور سنگھ پر یوار سے بہت زیادہ ہے ۔ اگر یہ سیکولر ووٹ بینک مختلف سیکولر پارٹیوں میں تقسیم ہوجائے تو پھر فرقہ پرست بی جے پی ہی کو فائدہ ہوگا ۔ تیسرے محاذ کی تشکیل کی ان کوششوں سے پہلے بھی سیکولر ووٹ بینک کے تقسیم ہونے کا خدشہ تو تھا ہی لیکن اب اگر مجوزہ تیسرا محاذ تشکیل پاتا ہے تو سیکولر ووٹ تقسیم در تقسیم کا شکار ہوجائے گا اور یہ صورتحال ملک کے وفاقی ڈھانچہ ، سیکولر اقدار اور جمہوریت کیلئے نقصان دہ ہوگا ۔ بی جے پی نے تو فرقہ پرستی کی بنیاد پر اپنے ووٹ یکجا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ ایک طرف فرقہ پرستی کا زہر گھولا جارہا ہے تو دوسری طرف سیکولر پارٹیاں محاذ بنانے کی سعی کر رہی ہیں۔ ایک اور بات اہم ہے کہ تیسرا مجوزہ محاذ غیر کانگریسی اور غیر بی جے پی ہونے کا دعویٰ کر رہا ہے۔ ابھی تک کانگریس پارٹی ملک کی سب سے بڑی سیکولر اور قومی سطح کی پارٹی تھی اور شاید ہے بھی۔ افسوسناک نظریہ ہے کہ کانگریس کی عوامی مقبولیت اس کی مسلسل غلطیوں کی وجہ سے گھٹ گئی ہے ۔ سیکولر ووٹ میں پہلے ہی سے کانگریس کا حصہ Ratio Share کم ہوگیا ہے ۔ اب تیسرے محاذ کے بعد یہ حصہ اور بھی کم ہوجائے گا ۔ اگر تیسرا محاذ بنتا ہے تو پھر اس میں تمام سیکولر پارٹیوں کو شامل ہونا چاہئے ۔ کانگریس اپنے کھوٹے سیکولرازم کے باوجود سیکولر پارٹی ضرور کہلاتی ہے ۔ اگر سیکولر ووٹ تقسیم ہوتا ہے تو (جسکا قوی امکان ہے) پھر سب سے زیادہ نقصان کانگریس پارٹی کو ہوگا ۔ مجوزہ تیسرے محاذ میں گیارہ پارٹیاں شامل ہیں، لیکن ان تمام پارٹیوں کا دائرہ اثر محدود ہے، بلکہ بیشتر یا سب کی سب علاقائی نوعیت کی ہیں۔ جنتا دل سیکولر، جنتا دل یونائٹیڈ، لالو پرساد یادو کی اپنی پارٹی راشٹریہ جنتا دل آسام گن پریشد اپنی اپنی ریاستوں میں سمٹی ہوئی ہیں۔ ان ریاستوں میں ان کا اثر و رسوخ ضرور ہے لیکن یہ اثر و رسوخ قومی سطح تک پہنچنے پر ناقابل لحاظ ہوجاتا ہے ۔ کمیونسٹ پارٹیوں میں مارکسسٹ کمیونسٹ پارٹی ، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا ، فارورڈ بلاک اور کچھ سوشلسٹ عناصر بھی مجوزہ محاذ میں شامل ہوں گے ۔ ایک لحاظ سے اس مجوزہ محاذ میں سب سے زیادہ منظم اور وسیع بنیاد رکھنے والی جماعتوں میں صرف کمیونسٹ پارٹیوں ہی کو شامل رکھا جاسکتا ہے ۔ ان کمیونسٹ پارٹیوں میں کمیونسٹ پارٹی راشٹریہ جنتا دل آف انڈیا (سی پی آئی) تو بے حد کمزور ہوگئی ہے ۔ یو پی کے دو ایک مخصوص حلقوں سے اگر اس کے نمائندے یا اسسٹنٹ تک پہنچتے بھی ہیں (جیسا کہ پچھلے برسوںسے دیکھنے میں آیا ہے) تو اس کو کوئی فورس یا سیاسی طاقت نہیں کہا جاسکتا ۔ اس کے علاوہ مارکسسٹ کمیونسٹ پارٹی (سی پی ایم) ہے جو مغربی بنگال میں زائد از 28 برسوں تک حکمراں رہی لیکن اب مغربی بنگال میں اس کو زوال آچکا ہے ۔ یہاں ترنمول کانگریس کی حکومت بن چکی ہے اور ممتا بنرجی نے سی پی ایم کو اقتدار سے بیدخل کردیا ۔ سی پی ایم تریپورہ میں اور کسی حد تک کیرالا میں بھی اپنا وجود رکھتی ہے ۔ کمیونسٹ بلاک فارورڈ تو عرصہ دراز سے بے اثر ہوکر رہ گیا ہے حالانکہ اس کی بنیاد مجاہد آزادی سبھاش چندر بوس نے رکھی تھی ۔ کمیونزم ایک تحریک کی حیثیت سے اپنا اثر ہندوستان میں کھوچکا ہے ۔ مغربی بنگال میں سیاسی زوال کے بعد تو رہی سہی کسر پوری ہوگئی ۔ سیکولر اقدار پر ایقان رکھنے والے کسی بھی ہندوستانی شہری کو اس بات کا افسوس رہے گا کہ کمیونسٹ پارٹیوں کا یہ زوال ملک کے سیکولرازم کے لئے کاری ضرب ثابت ہوا ہے ۔ اس پس منظر میں اگر سی پی ایم کے جنرل سکریٹری پرکاش کرت یا سی پی آئی کے بزرگ بردھن تیسرے محاذ کی تشکیل میں آگے آگے ہیں تو اس سے بھی کوئی خاص فائدہ اس محاذ کو نہیں ہوسکتا۔ غرض تشکیل شدنی تیسرا محاذ سیکولر ووٹوں کی تقسیم کا سبب بن سکتا ہے اور یہ صورتحال فرقہ پرست بی جے پی کے لئے نہایت سودمند ثابت ہوسکتی ہے۔ ان دنوں عصری سیاست ہمارے ملک میں بے حد نازک دور سے گزر رہی ہے۔ ایک طرف بی جے پی ٹھیٹ فرقہ پرستی کی بنیاد پر اپنے ووٹ بینک کو منظم کر رہی ہے تو دوسری طرف سیکولر طاقتیں انتشار کی شکار ہیں۔ سب سے دلچسپ بات تو یہ ہے کہ سیکولر پارٹیاں متحد ہوبھی جائیں تو اس کا اس لئے کوئی فائدہ نہیں کہ سیکولر ذہن و فکر رکھنے والا ہندوستانی ووٹر ایک قسم کی الجھن Confusion کا شکار ہوجائے گا اور یہ سیکولر ووٹ کانگریس سے کٹ کر ان متحد ہونے والی پارٹیوں میں تقسیم ہوجائے گا جبکہ بی جے پی اپنے فرقہ پرست ایجنڈے پر مزید سختی سے قائم رہے گی ۔ سیکولر پارٹیوں کو یہ سمجھنا چاہئے کہ وہ بی جے پی کے فرقہ پرست ووٹ بینک میں سے تھوڑا بہت حصہ بھی نہیں لے سکتیں۔ فرقہ پرست ووٹ بینک صحیح و سالم رہے گا جبکہ سیکولر ووٹ ان تمام پارٹیوں میں بٹ جائے گا ۔ اس کا سب سے زیادہ نقصان کانگریس پارٹی کو ہوگا جو پہلے ہی سے شکست و ریخت کی شکار ہے۔ ہمارے ملک میں ابھی کانگریس کو الگ کر کے سیکولر ووٹ بینک میں حصہ داری کا تصور پیدا نہیں ہوا ہے، جیسا کہ راقم الحروف نے ابتداء میں لکھا ہے آج بھی اس بینک کی سب بڑی حصہ دار یہی کانگریس پارٹی ہے ۔ حالانکہ کانگریس پارٹی ، اس کی حکمت عملی اس کی پالیسی اب صحیح معنوں میں سیکولر نہیں رہی ۔ ووٹر کانگریس کا تقابل بی جے پی سے کرتا ہے اور اس تقابل میں کانگریس ہی بہتر معلوم ہوتی ہے یا زیادہ مناسب بات یہ ہے کہ ملک کے سیکولر ووٹ بینک کی مجبوری ہے کہ اس کے سامنے قومی سطح کی کوئی سیکولر پارٹی نہیں ہے ۔ تیسرا محاذ تیسری طاقت بن سکے گا یا نہیں یہ بھی غور طلب بات ہے ۔ بی جے پی ، کانگریس کے علاوہ اروند کجریوال کی عام آدمی پارٹی بھی میدان میں ہے۔ تیسرا محاذ کہیں چوتھی طاقت نہ بن جائے ۔ کجریوال کی سیاسی غلطیوں کے باوجود ابھی عام آدمی پارٹی کو سیاسی پنڈتوں نے طور پر مسترد نہیں کیا ہے ۔ یہ پارٹی بھی 2014 ء کے انتخابات میں زائد از 300 سیٹوں پر مقابلہ کرنے والی ہے ۔ عام آدمی پارٹی کا امیج بھی سیکولر ہے ۔ اس لئے سیکولر ووٹ بینک میں اس کا بھی حصہ ہوگا۔ اس طرح سے یہ ووٹ کانگریس ، تیسرے محاذ اور عام آدمی پارٹی کے تکون میں بھی تقسیم ہوسکتا ہے ۔ یہ صورتحال بھی بی جے پی کے لئے بھی حوصلہ افزاء ثابت ہوگی۔
2019 ء کے عام انتخابات قطعی طور پر یہ طئے کریںگے کہ کہ آیا ہندوستان میں سیکولرازم باقی رہے گا یا پھر فرقہ پرست طاقتیں حاوی ہوجائیں گی۔ اب مقابلہ راست طور پر فرقہ پرستی اور سیکولرازم کے درمیان ہورہا ہے ۔ سیکولر ووٹ ہی ملک کی سیاسی تقدیر کا فیصلہ کرے گا ۔ یہ ووٹ اگر تقسیم کا شکار ہوتا ہے، جسکے امکانات بہت زیادہ دکھائی دے رہے ہیں، تو پھر سیکولرازم اس سیاسی دیوالیہ پن کا شکار ہوگا ۔ تیسرا محاذ اگرچیکہ نیک نیتی سے قائم ہونے جارہا ہے لیکن اس کے عواقب اور نتائج بہتر اور مثبت ہوں گے ، اس بات کا امکان کم ہی دکھائی دیتا ہے ۔ کانگریس نے خود کو سیکولر پارٹیوں اور طاقتوں کے سامنے بے اعتبار بنادیا ہے ۔ کانگریس اس لئے بھی بیشتر سیکولر پارٹیوں کے لئے قابل قبول نہیں ہے بلکہ اس نے نہ صرف کرپشن (بدعنوانیاں) کیا ہے بلکہ اس کی سرپرستی کی ہے ، کمزور حکمرانی ، خاندانی سیاست نے بھی پارٹی کے امیج کو بری طرح تباہ کردیا ہے ۔ 2014 ء کے عام انتخابات میں ابھی 3 تا 4 ماہ کا وقت ہے۔ بہتر ہوگا کہ کانگریس اپنے برانڈ کے سیکولرازم کو دیگر سیکولر پارٹیوں پر مسلط کرنے کے بجائے ان کے سیکولرازم کو قبول کرے سیکولرازم کی وہ ٹھیکہ داری جو برسوں سے کانگریس نے لے رکھی تھی اب چلنے والی نہیں ہے ۔ کانگریس کو خود اپنے آپ سب کیلئے قابل قبول سیکولرازم اپنے اندر پیدا کرنا چاہئے ۔ نہ کانگریس یکا و تنہا سیکولر ووٹ لے سکتی ہے اور نہ تیسرا محاذ (تھرڈ فرنٹ) یہ کام انجام دے سکتاہے اور جب تک سیکولر ووٹ کو تقسیم ہونے سے بچایا نہیں جائے گا ، فرقہ پرست طاقتوں کو ہی فائدہ ہوگا ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ملک کی غیر فرقہ پرست جماعتیں اس وقت بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی کا مقابلہ کریں یہ کام علحدہ علحدہ سیکولر فرنٹ بنا کر نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کے لئے ایسی تمام پارٹیوں کو اپنے باہمی اختلافات کو دور کر کے فرقہ پرستی کا مقابلہ کرنا چاہئے لیکن یہ ہوتا دکھائی نہیں دیتا ہے ۔ فرقہ پرست طاقتیں تو اپنا ایک ہی محاذ رکھتی ہیں جبکہ سیکولر پارٹیاں آج بھی نفاق کا شکار ہیں۔ اس طرح سے تیسرا محاذ سیکولر ووٹوں کی تقسیم کا سبب بن سکتا ہے۔