تو نیا ہے تو دکھا صبح نئی شام نئی

2015 ء …مودی کے بیرونی دورے
عوام کے حصے میں صرف وعدے…ایودھیا پر مہیش شرما کی شرانگیزی

رشیدالدین
جس طرح ہر گزرتا سال اپنے پیچھے کچھ خوشگوار اور تلخ یادوں کو چھوڑتا ہے ، ٹھیک اسی طرح 2015 ء بھی ہم سے وداع ہوگیا اور اس نے ملک کی حکومت اور عوام کیلئے ملے جلے تجربات چھوڑے ہیں۔ مرکز میں برسر اقتدار بی جے پی کیلئے 18 ماہ مکمل ہوگئے لیکن وزیراعظم نریندر مودی کیلئے 2015 ء چند ایک کامیابیوں اور ڈھیر ساری ناکامیوں کا سال ثابت ہوا۔ اسی طرح عوام کو بھی 2015 ء میں صرف سہانے خواب اور خوش کن وعدوں پر اکتفا کرنا پڑا۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ 2015 ء نریندر مودی کے پرکشش وعدوں کا سال ثابت ہوا۔ عوام اچھے دن کی امید اور آس میں حکومت کا مسئلہ تکتے رہ گئے ۔ حکومت کے 18 ماہ گزرنے کے باوجود آج تک اچھے دن اور سب کا ساتھ سب کا وکاس کے نعروں پر عمل آوری کا دور دور تک پتہ نہیں ہے۔ گزشتہ برس نریندر مودی کو 2 ریاستوں میں پارٹی کی شرمناک شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ سال کے آغاز پر دہلی اور سال کے اختتامی مرحلہ میں بہار کی ناکامی میں بی جے پی کیلئے نئے سال کے جشن کو پھیکا کردیا ہے۔ نریندر مودی 2015 ء کے آغاز کے وقت ایک مقبول اور پارٹی میں ناقابل تسخیر قائد کے طور پر مستحکم موقف کے حامل تھے لیکن سال کے اختتام تک پارٹی اور اس کے باہر مودی کیلئے چیلنجس میں اضافہ ہوگیا ۔ اتنا ہی نہیں سنگھ پریوار بھی ان سے ناخوش دکھائی دے رہا ہے ۔ بی جے پی میں مودی کے خلاف بغاوت کے سر عام بلند ہورہے ہیں۔ 2015 ء میں حکومت اورپارٹی پر نریندر مودی کی گرفت کمزور ہونے لگی اور ان کے مشیران کی اہمیت گھٹ چکی ہے۔ اپنے امیج کو بہتر بنانے نریندر مودی سنگھ پریوار سے فاصلہ برقرار رکھنے کی ناکام کوشش کرتے دیکھے گئے لیکن آر ایس ایس نے حکومت میں شامل اپنے نمائندوں کے ذریعہ مودی کا تعاقب جاری رکھا اور مختلف تنازعات کے ذریعہ ان کی مشکلات میں اضافہ کیا۔ اس طرح نریندر مودی کیلئے 2015 ء کبھی خوشی کبھی غم کا سال رہا۔ اندرون ملک مسائل سے بچنے کیلئے مودی نے بیرونی دوروں کا سہارا لیا ۔ ایک سال کے عرصہ میں نریندر مودی نے تقریباً 30 ممالک کادورہ کیا جو ہندوستان کے کسی بھی وزیراعظم کے ایک سال میں بیرونی دوروں کا ایک ریکارڈ ہے۔

مودی نے 2016 ء کے بیرونی دوروں کی فہرست ابھی سے تیار کرنی شروع کردی ہے اور ابتدائی لسٹ میں 10 سے ممالک شامل ہوچکے ہیں۔  نریندر مودی ملک کے باہر تو اپنے رنگ میں دکھائی دیتے ہیں لیکن گھر واپسی کے ساتھ ہی مختلف تنازعات ان کے منتظر ہیں۔ حکومت اور پارٹی پر کمزور گرفت کا اندازہ لگانے کیلئے مودی کے وزیر باتدبیر امیت شاہ کا اچانک پس منظر میں جانا کافی ہے۔ بہار میں پارٹی کی کامیابی کیلئے ہر طرح کی تدبیریں کرنے والے امیت شاہ کی تمام تدبیریں الٹی پڑگئیں اور بہار شکست کے بعد ’’شاہ جی‘‘ لو پروفائل‘‘ ہوگئے۔ جاریہ ماہ پارٹی صدر کی حیثیت سے امیت شاہ کی میعاد ختم ہورہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آیا مودی انہیں دوبارہ منتخب کرانے میں کس حد تک کامیاب ہوپائیں گے۔ کہاں ہیں امیت شاہ جنہوں نے مودی کے ساتھ مل کر تمام بزرگ قائدین کو اقتدار سے دور کردیا، آج وہی بزرگ قائدین حکومت کے فیصلوں کے خلاف کھل کر رائے زنی کر رہے ہیں۔ نریندر مودی اپنی جادو بیانی اور لفاظی کے ذریعہ ملک کے باہر ہندوستان کے باہر اور غیر ملکیوں میں مقبولیت برقرار رکھنے میں بھلے ہی کامیاب ہوئے لیکن داخلی محاذ پر ان کی کارکردگی اور مقبولیت کا گراف گرنے لگا ہے۔ چیف منسٹر گجرات کی حیثیت سے مودی نے جن قائدانہ اور انتظامی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا تھا ، مرکز میں اس مظاہرہ سے وہ قاصر رہے۔ حکومت اور پارٹی پر وہ وزیراعظم کی حیثیت سے اثر اندازہونے میں شائد ہی کامیاب رہے ہوں۔

گزشتہ سال سنگھ پریوار کا پس منظر رکھنے والے قائدین نے نفرت کا خوب کھیل کھیلا۔ مذہبی اقلیتوں پر حملے اور ان کے خلاف اشتعال انگیز بیانات جاری کئے، جن میں گورنر سے لیکر مرکزی وزراء ، ارکان پارلیمنٹ سبھی شامل تھے لیکن نریندر مودی ایک کے خلاف بھی کارروائی کی ہمت نہ کرسکے۔ سنگھ پریوار سے فاصلہ اور تعلقات میں سرد جنگ کی صورتحال آنے والے دنوں میں مودی کے مسائل میں اضافہ کا سبب بن سکتی ہے۔ سنگھ پریوار سے دوری کا یہ ڈرامہ کس حد تک سچا ہے ، اس کا اندازہ اترپردیش کے مجوزہ اسمبلی انتخابات میں ہوجائے گا جہاں رام مندر کی تعمیر کے مسئلہ کو سنگھ پریوار نے اچھال دیا ہے۔ مرکزی وزیر مہیش شرما جو متنازعہ بیانات کیلئے شہرت رکھتے ہیں، انہوں نے رام مندر کی تعمیر کو حکومت کا ایجنڈہ قرار دیتے ہوئے صورتحال کو گرما دیا ہے۔ مہیش شرما کی شرانگیزی کا جواب وزیراعظم یا پھر وزیر داخلہ کو دینا چاہئے تھا۔ برخلاف اس کے مختار عباس نقوی کو وضاحت کیلئے آگے کردیا گیا۔ مہیش شرما کا بیان دراصل سپریم کورٹ کی توہین ہے اور انہیں وزارت میں برقراری کا کوئی حق نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ رام مندر ، یکساں سیول کوڈ اور دفعہ 370 بی جے پی کے منشور میں شامل ہے لیکن مندر کی تعمیر کو حکومت کی ذمہ داری قرار دینا مسلم اقلیت کے زخموں پر نمک چھڑکنے کی کوشش ہیں ۔ ایودھیا کے قریب تعمیری سرگرمیوں کیلئے پتھر جمع کرنا ایک سنگین مسئلہ ہے۔ اگر صورتحال سے لاء اینڈ آرڈر کی طرح نہیں نمٹا گیا تو 1992 ء کی طرح دھماکو حالات پیدا ہوسکتے ہیں۔ مہیش شرما نے دادری میں اخلاق حسین کے قتل کو یہ کہتے ہوئے حق بجانب قرار دینے کی کوشش کی کہ ان کے گھر میں جو گوشت پایا گیا وہ گائے کا تھا۔ فارنسک رپورٹ میں حالانکہ اسے میٹ قرار دیا گیا لیکن مہیش شرما اسے گائے کا گوشت بتا رہے ہیں۔ شائد مہیش شرما نے اخلاق کے گھر سے برآمد شدہ گوشت کو چکھا ہے یا پھر وہ بیف اور میٹ کے ماہر ہیں۔ پولیس کو ان کے گھر اور فریج کی تلاشی لینی چاہئے ، شائد وہاں سے بیف برآمد ہو۔ وزارت میں شامل اس طرح کے شرپسند عناصر کے تعلق سے وزیراعظم کی خاموشی معنی خیز ہے۔
2015 ء کے دوران نریندر مودی اپوزیشن جماعتوں سے تعلق کی استواری میں ناکام رہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ان کا رویہ ایسا ہے جیسے انتخابی ماحول میں رہتاہے، یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ میں جی ایس ٹی سمیت دیگر اہم بلز کو منظوری نہیں دی جاسکی۔ برخلاف اس کے سیاسی انتقامی کارروائیوں نے اپوزیشن کو متحد ہونے کا موقع فراہم کردیا۔ کانگریس قیادت کے خلاف نیشنل ہیرالڈ کا مقدمہ اور اروند کجریوال کے دفتر میں سی بی آئی کے دھاوے نے حکومت کے انتقامی جذبہ کو آشکار کیا ہے۔ 2015 ء کی تکمیل پر مودی۔نواز بعض نیوز چینلس نے سروے کے نام پر عوام میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ مقبولیت کے اعتبار سے نریندر مودی نمبر ون پوزیشن پر ہیں جبکہ کجریوال دوسرے اور نتیش کمار تیسرے نمبر پر ہیں۔ اگر مودی کی مقبولیت ہوتی تو دہلی اور بہار میں بی جے پی کو شکست کا سامنا نہ ہوتا۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ مودی فوبیا کو شکست دینے والے افراد دوسرے اور  تیسرے نمبر پر دکھائے جارہے ہیں۔ دراصل مودی کے خلاف پارٹی میں اٹھنے والی آوازوںکو روکنے کیلئے میڈیا کا استعمال کیا جارہا ہے ۔ سیاسی مبصرین نے 2015 ء کو نریندر مودی کیلئے مقبولیت میں کمی، بی جے پی کی رفتار پر بریک لگنے ، اندرون پارٹی مخالف مودی عناصر کے استحکام اور مودی کی سنگھ پریوار سے بڑھتی دوری کا سال قرار دیا ہے۔ اگر پارٹی اور حکومت کی یہی صورتحال رہی تو اترپردیش ، آسام ، مغربی بنگال ، کیرالا اور ٹاملناڈو کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کا راستہ مزید دشوار کن ہوسکتا ہے۔ اسے محض اتفاق کہیں یا کچھ اور 2015 ء کا آغاز امریکی صدر براک اوباما کے دورہ ہندوستان سے ہوا تھا جبکہ سال کا اختتام نریندر مودی کے دورہ پاکستان سے ہوا۔ 26 جنوری یوم جمہوریہ تقاریب میں اوباما مہمان خصوصی تھے جبکہ 25 ڈسمبر کو مودی اچانک لاہور پہنچ گئے۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ اوباما نے جنوری میں جو سبق سکھایا تھا ، مودی نے سال کے اختتام پر عمل کیا۔ 2015 ء میں نریندر مودی ملک سے زیادہ بیرون ملک نظر آئے ۔ وہ وزیراعظم سے زیادہ وزیر خارجہ اور وزیر سیاحت کے رول میں دکھائی دیئے۔ ان کے بیرونی دوروں پر کئی لطیفے بن چکے ہیں۔

ایک سال کے دوران یہ اندازہ کرنا مشکل تھا کہ مودی کب کس ملک میں رہیںگے ، آج تک ملک کی تمام 29 ریاستوں کا دورہ نہیں کیا لیکن 40 ممالک کی تفریح مکمل کرلی۔ اندرون ملک صورتحال کی نزاکت محسوس کرتے ہوئے مودی نے ایک سالہ ریکارڈ میں پاکستان کو شامل کرنے بن بلائے مہمان کی طرح لاہور پہنچ گئے۔ شائد کسی جیوتشی نے اقتدار کی برقراری کیلئے زیادہ سے زیادہ بیرون ملک وقت گزارنے کا مشورہ دیا ہے۔ شکر ہے نریندر مودی نیا سال منانے کسی ملک کے دورہ پر نہیں نکل پڑے۔ اندرون ملک نیا سال مناکر مودی نے ملک اور عوام پر جیسے احسان کیا ہو۔ پاکستان کے اچانک دورہ سے سنگھ پریوار میں سناٹا چھاگیا ۔ ان قائدین کی زبانیں آج گنگ ہیں، جو بات بات پر مسلمانوں کو پاکستان کا راستہ دکھاتے رہے۔ کہاں ہیں امیت شاہ جنہوں نے کہا تھا کہ بہار میں بی جے پی کی شکست پر پاکستان میں پٹاخے جلیں گے۔ امیت شاہ سے کوئی پوچھے کہ کیا نریندر مودی آتشبازی کی تقریب میں حصہ لینے لاہور گئے تھے؟ پاکستان کے ایک سینئر صحافی امتیاز متین کا کہنا ہے کہ آئرن (لوہا) کی تجارت کیلئے دونوں وزرائے اعظم نے ملاقات کی۔ افغانستان کے راستہ کے بجائے راست واگھا سے لوہے کی منتقلی کا ہندوستان خواہاں ہے۔ سردار پٹیل جنہیں آئرن میان کہا جاتا ہے ، انہیں آئیڈیل ماننے والے وزیراعظم نے آئرن کی تجارت پر بات کی۔ یوں بھی گجرات کے چیف منسٹر کی حیثیت سے مودی کے پاکستان سے خوشگوار تجارتی روابط رہے۔ اس پس منظر میں دونوں وزرائے اعظم سے زیادہ اسے تاجرین کی ملاقات کہا جاسکتا ہے۔ 2015 ء کے آخری دن وزیراعظم نے اپوزیشن کو مشورہ دیا کہ وہ 2016 ء میں پارلیمنٹ کی کارروائی میں خلل پیدا نہ کرنے کا عہد کریں۔ نریندر مودی کو پہلے 2016 ء میں بیرونی دوروں کے بجائے ملک میں رہ کر انتخابی وعدوں کی تکمیل کا عہد کرنا چاہئے ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ 2016 ء میں بھی وہ بیرون ملک گھومتے نظر آئیں اور عوام اپنے مسائل کے حل اور اچھے دن کی امید میں گھومتے رہ جائیں۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے  ؎
آسماں بدلا نہ افسوس بدلی نہ زمیں
ایک ہندسے کا بدلنا کوئی جدت تو نہیں
تو نیا ہے تو دکھا صبح نئی شام نئی
ورنہ ان آنکھوں نے دیکھے ہیں نئے سال کئی