توکل کا مفہوم اور اُس کی وضاحت

جس کو آپ اپنی مشیت سمجھ رہے ہیں، بے شک وہ آپ کی مشیت ہے اور جس کو آپ اپنا ارادہ کہہ رہے ہیں، بے شک وہ آپ کا ارادہ ہے، لیکن ایک مشیت اور ایک ارادہ اللہ تعالی کا بھی ہے۔ آپ نے اس کو کیوں نظرانداز کردیا، حالانکہ دراصل کار فرما مشیت تو اسی کی ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد رب العالمین ہے: ’’تمہارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا، جب تک کہ اللہ تعالی نہ چاہے‘‘ (سورۂ دہر۔۳۰) جب ہماری آپ کی مشیت اللہ تعالی کی مشیت کے مطابق ہوتی ہے تو ہم اور آپ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں، لیکن ہماری آپ کی مشیت اگر اللہ تعالی کی مشیت سے مختلف ہوتی ہے تو ہم اور آپ ناکام ہو جاتے ہیں، کیونکہ اصل مشیت رب العزت ہی کی ہے، وہ جو چاہے گا وہ ہوگا اور جو ہم اور آپ چاہیں، اس کا ہونا ضروری نہیں ہے۔
اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ اپنی مشیت کے لئے جدوجہد بھی نہیں کرتے، اسباب بھی فراہم نہیں کرتے اور جدوجہد کرتے بھی ہیں تو اَلل ٹپ کرتے ہیں، ڈھنگ سے نہیں کرتے، اس میں تسلسل ہوتا ہے نہ ربط، نہ تنظیم نہ سلیقہ، پھر بھی آپ کی مشیت پوری ہو جاتی ہے، کیوں؟ اس لئے کہ اللہ تعالی کی مشیت بھی وہی تھی، جو آپ کی تھی، اس لئے وہ پوری ہوگئی۔ مختصر یہ کہ فی الحقیقت کارفرما اللہ تعالی کی مشیت ہے۔
مستقبل کے ہر کام میں قدم قدم پر ہم کو ’’ان شاء اللہ تعالی‘‘ کہنے کا جو حکم دیا گیا ہے، اس کا منشاء یہی ہے کہ ہم اپنی مشیت کی نفی اور مشیت الہٰی کا اثبات کرتے رہیں، تاکہ ہمارے دل و دماغ میں یہ عقیدہ اچھی طرح بیٹھ جائے کہ اس کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ اللہ تعالی کی مشیت سے ہو رہا ہے اور اللہ تعالی کی مشیت سے جو فیصلہ بھی ہوتا ہے یا جو نتیجہ بھی سامنے آتا ہے، اس میں اللہ تعالی کی کوئی حکمت اور مصلحت ضرور ہوتی ہے، خواہ وہ حکمت و مصلحت ہماری سمجھ میں آئے یا نہ آئے، وہ فیصلہ اور نتیجہ ہمارے لئے بہرحال خیر ہوتا ہے۔ اگر وہ فیصلہ ہماری مشیت کے خلاف ہو تو ہمیں اس پر صبر کرنا چاہئے، اسی کو صبر فی المشیت کہتے ہیں۔ یہاں مشیت سے مراد مشیت الہی ہے اور اس کی مشیت پر صبر کرنا اور اس کے فیصلہ پر راضی رہنا ہی رضا بالقضا کہلاتا ہے۔
فرض کریں اگر ہم اللہ تعالی کے فیصلہ سے ناخوش ہوتے ہیں اور تقدیر کے فیصلہ پر راضی نہیں ہوتے تو بتائیں اس کا حاصل سوائے غم و اندوہ، رنج و الم، دکھ، پریشانی، مایوسی، اعصابی تناؤ (ڈپریشن) کے اور کیا ہوگا؟۔ ایسی صورت میں ہماری زندگی عذاب بن کر رہ جائے گی، کیونکہ ہمارے عدم قبول سے مشیت الہی اور تقدیر کا فیصلہ تو تبدیل نہ ہوگا۔ سکون و عافیت اسی میں ہے، مایوسی اور اعصابی تناؤ سے نجات کی صورت یہی ہے کہ ہم مشیت الہٰی کے فیصلہ کو قبول کرکے اس پر راضی رہیں۔
بعض لوگ کم فہمی کی وجہ سے عقیدۂ تقدیر کو بے عملی کا بہانہ بنا لیتے ہیں اور یوں سوچتے ہیں کہ جو ہونا ہے وہ ہو جائے گا، ہم کیوں خواہ مخواہ جدوجہد کریں، فراہمی اسباب کے چکر میں کیوں پڑیں، اللہ تعالی پر بھروسہ کرکے ہاتھ پر ہاتھ دھرے کیوں نہ بیٹھ جائیں۔ یہ سوچ بالکل غلط اور غیر اسلامی ہے۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین رکھئے کہ عقیدۂ تقدیر کا مظاہرہ وقوعہ اور نتیجہ کے بعد ہے، اس سے پہلے نہیں، کیونکہ وقوعہ اور نتیجہ کے بعد تقدیر سامنے آگئی، اس لئے فیصلۂ تقدیر کو مان لینا اور تقدیر سے سمجھوتہ کرلینا ضروری ہے۔ جب تک تقدیر پردۂ خفا میں ہے، اس وقت تک اسباب فراہم کرنا اور اپنے مقصد و مدعا کے لئے جدوجہد کرنا ہم پر فرض ہے۔ بیماری سے شفا کے لئے کوشش کرنا ہمارا فرض ہے، اگر شفا حاصل ہو جائے اور نتیجہ ہماری جدوجہد کے مطابق برآمد ہو جائے تو اللہ تعالی کا شکر ادا کریں اور نتیجہ ہماری خواہش اور مشیت کے خلاف برآمد ہو تو اللہ تعالی کے فیصلہ پر راضی رہیں اور تقدیر سے سمجھوتہ کرلیں۔

جب اللہ تعالی کسی بات کا فیصلہ فرمادیتا ہے تو مؤمن سے مطالبہ اسی بات کا ہے کہ وہ اللہ تعالی کے فیصلہ پر راضی رہے، شکوہ و شکایت نہ کرے، ہائے وائے نہ کرے، آہ و زاری نہ کرے، کیونکہ ایسا کرنا اللہ تعالی کی مقرر کردہ تقدیر پر اعتراض اور اس کے فیصلہ پر ناراضی کا اظہار ہے، جو ایمانیات کے خلاف ہے اور بارگاہ خداوندی میں سخت بے ادبی اور گستاخی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’جب اللہ تعالی کوئی فیصلہ فرمادیتا ہے تو چاہتا ہے کہ بندہ اس فیصلہ کو قبول کرے اور اس پر راضی رہے‘‘۔ رضا بالقضا اسی کا نام ہے، اس میں ہمارے لئے سکون و عافیت ہے۔ قضائے الہٰی پر راضی نہ ہونے سے وہ فیصلہ تبدیل نہ ہو جائے گا، لیکن ہم مایوسی اور اعصابی تناؤ کا شکار ہو جائیں گے، جو کئی تکلیفوں اور مصیبتوں کا باعث ہوگا۔
بنیادی بات یہ ہے کہ اسباب کو مؤثر حقیقی نہیں سمجھنا چاہئے، کیونکہ مؤثر حقیقی صرف مشیت الہی ہے۔ اللہ تعالی چاہے تو اسباب، اسباب رہتے ہیں اور اگر وہ نہ چاہے تو سارے اسباب خس و خاشاک کا ڈھیر بن جاتے ہیں۔ اسباب میں تاثیر آتی ہی اس وقت ہے، جب مشیت الہٰی اس کے ساتھ ہوتی ہے۔ چوں کہ تقدیر پردہ خفا میں ہے، اس لئے ترک اسباب گناہ ہے اور اسباب کو مؤثر حقیقی سمجھنا اس لئے گناہ ہے کہ یہ مشیت الہٰی کا انکار ہے۔ اس لئے اسباب ضروری کریں، لیکن بھروسہ (توکل) اللہ تعالی کی ذات پر رکھیں، کیونکہ توکل کرنے والوں کو اللہ تعالی پسند فرماتا ہے۔ توکل ایمان کا لازمی تقاضا ہے، چنانچہ رب تعالی کا ارشاد ہے: ’’اللہ پر بھروسہ رکھو اگر تم مؤمن ہو‘‘ (سورۂ مائدہ۔۲۳) حضرت موسی علیہ السلام سے اسی تعلیم کی ترجمانی یوں کرائی گئی: ’’موسیٰ علیہ السلام نے کہا: اے میرے قوم! اگر تم واقعی اللہ پر ایمان رکھتے ہو تو اس پر بھروسہ کرو اگر مسلمان ہو‘‘۔ (سورۂ یونس۔۸۴)
بھروسہ اور توکل ترک اسباب کا نام نہیں، بلکہ یہ اسباب فراہم کرنے کے بعد ہونا چاہئے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک بدوی صحابی حاضر ہوئے، جو اونٹ پر سوار ہوکر آئے تھے۔ سواری سے اترکر انھوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: ’’یارسول اللہ! اونٹنی کو باندھوں یا اللہ تعالی پر بھروسہ کرکے اسے یونہی کھلا چھوڑدوں‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’پہلے باندھو، پھر اللہ تعالیٰ پر توکل کرو‘‘۔ (اقتباس)