سوال : ایام قربانی سے قبل کچھ دینی ادارے بکرا و بقر کو ذبح کر کے مکمل گوشت دیہاتوں کے غرباء میں تقسیم کرنے کا اشتہار شائع کر رہے ہیں۔ کیا ایسا قربانی کا نظم شرعاً باعث ثواب ہوگا کیونکہ اس میں جا نور کی رقم مکمل پیشگی ادا کی جاتی ہے ؟
محمد فاروق ، گوشہ محل
جواب : کوئی شخص اپنی طرف سے قربانی دے تو قربانی کے گوشت میں اپنے اور اہل خانہ کے ساتھ ، عزیز و اقارب ، ہمسایوں ، رشتہ داروں اور فقراء و مساکین کو شامل کرنا چاہئے اور اگر کوئی شخص مکمل گوشت فقراء و مساکین کو دینا چاہتا ہے تو اس کو اختیار ہے اور یہ عمل باعث اجر و ثواب ہے۔
جس طرح صاحب قربانی اصالتاً بذات خود قربانی کرسکتا ہے۔ اسی طرح وہ اپنی قربانی کیلئے کسی دوسرے کو وکیل بھی بناسکتا ہے ، دوسرا شحص نیا بتا اس کی طرف سے قربانی دے اور سارا گوشت غرباء و مساکین میں صاحب قربانی کی اجازت سے تقسیم ہو تو شرعاً درست ہے ۔ اجر و ثواب کا باعث ہے ۔ لہذا جو ادارہ قربانی کر کے گوشت کو غرباء و مساکین میں تقسیم کرنے کا اشتہار دے رہا ہے ، آپ اس کی امانت ، دیانت ، صداقت سے مطمئن ہیں تو اس کو دینے میں شرعاً کوئی مضائقہ نہیں، واضح رہے کہ قربانی واجب ہے جس کو آپ ا پنا نائب یا وکیل بنارہے ہیں۔ اس کی امانت سے آپ کا مطمئن ہونا ضروری ہے ۔ محض اشتہار دیکھ کر قربانی کے پیسے حوالے کردینا مناسب نہیں ہے۔
احرام کی حالت میں خوشبودار ٹیوب لگانا
سوال : میرے والد حج کیلئے گئے ہوئے ہیں، سفر کی وجہ سے یا آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے ان کی طبیعت ٹھیک نہیں رہی، مکہ پہنچنے کے بعد وہ عمرہ سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ بیمار ہوگئے۔ ان کے پاؤں اور ہاتھ میں کچھ ورم آگیا ہے ، اس کیلئے وہ ایک ٹیوب کا استعمال کر رہے ہیں، انہوں نے بتایا کہ ٹیوب میں خوشبو ہے تو کیا وہ احرام کی حالت میں بھی اس ٹیوب کو لگا سکتے ہیں یا نہیں۔اگر وہ ٹیوب لگا لیں تو کیا انہیں دم یا کفارہ دینا ہوگا ؟
براہ کرم جلد سے جلد اس کا جواب عنایت فرمائیں تو مہربانی ۔ واضخ رہے کہ اس ٹیوب کا استعمال ناگزیر ہے ورنہ ورم کے بڑھ جانے کے امکانات ہیں ۔
محمد عادل، مراد نگر
جواب : شرعاً احرام کی حالت میں خوشبو کا استعمال منع ہے ۔ البتہ ایسی دوا جو حقیقی حوشبو مثلاً مشک و عنبر نہ ہو تو اس دوا کا استعمال ازروئے شرع جائز ہے۔ در مختار برحاشیہ ردالمحتار جلد 2 ، کتاب الحج صفحہ : 601 مطبعہ دارالفکر بیروت میں ہے : (أو خضب رأسہ بحناء او ادھن بزیت أوخل ولو خالصین فلو اکلہ أو داوی بہ) جراحۃ أو (شقوق رجلیہ أو اقطر فی اذنیہ لا یجب دم ولا صدقۃ) اتفاقاً (بخلاف المسک والعنبر والخالبیۃ)
لہذا احرام کی حالت میں بطور دوا استعمال کئے جانے والے ٹیوب کو لگانے میں شرعاً کوئی مضائقہ نہیں، اس سے دم یا صدقہ لازم نہیں آتا۔
اسلامی ذبیحہ کی حکمتیں
سوال : اسلام میں حلال طریقہ سے جانور کو ذبح کرنے کا کیا صحیح طریقہ ہے اور غیر اسلامی طریقہ سے ذبح کرنے پر کیوں جانور حرام ہوجاتا ہے ۔ عیدالاضحی قریب ہے ، برائے کرم تفصیلی بتلائیں۔؟
محمد فردوس، مقطع مدار
جواب : ذبح کا اسلامی طریقہ یہ ہے کہ جانور کو بائیں پہلو پر اس طرح لٹایا جائے کہ جانور کا رخ قبلہ کی طرف ہو۔ جانور کو ذبح کرنے کے لئے آلہ تیز ہونا چاہئے تاکہ وہ غیر ضروری اذیت سے محفوظ رہے ۔ بہت سے جانوروں کو ایک ہی دفعہ اکھٹا ذبح کرنا مکروہ ہے۔ اسی طرح یہ بھی مکروہ ہے کہ ٹھنڈا ہونے سے پہلے جانور کے کسی عضو کو کاٹ کر الگ کردیا جائے یا اس کی کھال اتار دی جائے۔
ذبح کی ان سب احتیاطوں میں (شرعی اصطلاح میں) ’’ حلال ‘‘ طعام کا تصور مدنظر ہے، یعنی جانور ، مجموعی طور سے زہروں سے پاک ہو اور ایسا ہو جس سے زندگی کی حالت میں کوئی کراہت یا نجاست یا کثافت خاص وابستہ نہ ہو۔ ذبح کیا ہوا جانور ہر زہریلے مادے سے پاک ہونا چاہئے اور کوشش یہ ہو کہ جانور کو کم سے کم تکلیف ہو اور جتنی تکلیف دی جارہی ہے اسے بشری ضرورتوں کے لئے اضطراری بات سمجھ کر ، خدا کے پاک تصور سے وابستہ کر کے ایک تمدنی اجازت کے طور پر روا سمجھا گیا ہے اور ایذا رسانی کے ہر شائبے سے پاک ہے۔
چرم قربانی سے زکوٰۃ کی ادائیگی
سوال : سال گزشتہ رمضان شریف میں ، میں نے زکوٰۃ ادا کی ، لیکن زکوٰۃ کی تھوڑی رقم ادا کرنا باقی تھا، میں ادا نہیں کرسکا، بقرعید کے موقع پر میرے ایک عزیز نے کہا کہ چرم قربانی کی قیمت معلوم کر کے قصاب کو یا فقیر کو زکوٰۃ کی نیت سے دید و جو زکوٰۃ کی باقی رقم آپ کے ذمہ ہے ، وہ ادا ہوجائے گی ۔ میں نے ایسا ہی کیا ۔ کیا اس طرح چرم قربانی دینے سے زکوٰۃ ادا ہوتی ہے یا نہیں ۔
ممتاز خان، ملک پیٹ
جواب : شریعت مطہرہ میں قربانی کے گوشت اور اس کے چمڑے کا ایک ہی حکم ہے۔ ہدایہ ج : 4 ، ص : 432 کتاب الاضحیۃ میں ہے ’’واللحم بمنزلۃ الجلد فی الصحیح‘‘۔
اور گوشت کو اگر کوئی شخص زکوٰۃ کی نیت سے فقیر کو دے تو اس کی زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی۔ عالمگیری ج : 5 ، ص : 301 میں ہے ’’واذا دفع اللحم الی فقیر بنیۃ الزکوٰۃ لا یحسب عنھا فی ظاھر الروایۃ‘‘ اور اس کے ص : 308 میں ہے ’ ’تصدق بلحم الاضحیۃ علی الفقراء بنیۃ الزکوٰۃ لا یجزئہ فی ظاھر الروایۃ‘‘ یعنی اگر کوئی قربانی کا گوشت فقراء کو زکوٰۃ کی نیت سے دے تو اس کی زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی ۔ بناء بریں چرم قربانی اگر زکوٰۃ کی نیت سے دی جاتی ہے تو شرعاً زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔
شوہر سے نااتفاقی اور حج کو روانگی
سوال : میری بیٹی اور داماد دونوں ملکر تین سال سے مسلسل میرے ساتھ حج کیلئے درخواست دیتے آرہے ہیں۔ مگر تین سالوں میںبھی ہمارا نام نہیں آیا۔ اب چوتھی بار میں بغیر ڈرا کے نام آنے کی امید ہے ۔ میںاور میری بیٹی آئندہ سال حج پر جانے کی پوری تیاری کرلئے ہیں ۔ مگر افسوس کہ میری بیٹی اور داماد میں حالات بگڑ گئے ہیںاور وہ لوگ میری بیٹی کو لاکر میرے گھر چھوڑدیئے ہیں اور لڑکی بھی واپس جانا نہیں چاہتی۔ حج پرجانے کیلئے مزید ایک سال سے زیادہ وقت ہے پتہ نہیں اس عرصہ میں کیا حالات ہوں گے ۔ اگر حالات بہتر ہوں گے تو سفر حج کی خوشیاں لوٹ آئیں گی ورنہ ان تین سال کی محنت کا کیا حل نکلے گا اللہ اور اللہ کے رسول بہتر جانتے ہیں۔ ان تمام حالات میں کیا میں اپنی بیٹی کو اپنے ساتھ آئندہ سال میں حج پر لے جاسکتا ہوں یا نہیں ؟
عبدالکریم، نامپلی
جواب : عورت کے لئے سفر حج میں شوہر یا عاقل و بالغ محرم دو میں سے کسی ایک کا ہونا شرط ہے۔در مختار جلد 2 صفحہ 510 مطبعہ دار الفکر بیروت کتاب الحج کے آغاز میں ہے: (و) مع (زوج أومحرم) ولو عبدا أوذمیا أوبرضاع (بالغ عاقل والمراھق کبالغ) اور عورت کے سفر حج میں اس کا محرم ساتھ ہو تو پھر شوہر بیوی کو فریضہ حج ادا کرنے سے منع نہیں کرسکتا۔ اسی میں ہے : ولیس لزوجھا منعھا عن حجۃ الاسلام اور رد المحتار میں ہے : (ولیس لزوجھا منعھا) أی اذا کان معھا محرم والا فلہ منعھا کما یمنعھا عن غیر حجۃ الاسلام۔پس صورت مسئول عنہا میں آپ کی صاحبزادی اپنا فریضہ حج ادا کر رہی ہوں اور اس کے سفر حج میں آپ (والد) ساتھ ہوں تو وہ حج پرجاسکتی ہیں۔ محرم ساتھ ہونے کی صورت میں شوہر کو منع کرنے کا حق نہیں ہے۔
ذی الحجہ کے ابتدائی ایام میں عمرہ کرنا
سوال : میں سعودی عرب میں ملازم ہوں۔ بقرعید کے چھٹیوں میں میں گزشتہ سال جب اپنے گھر حیدرآباد آیا تو ذی الحجہ کے پہلے ہفتہ میں مکہ مکرمہ گیا اور عمرہ ادا کیا ۔ پھر اپنے وطن واپس آیا ۔ مجھے خلش ہے کہ ذی الحجہ کے دس دنوں میں اگر عمرہ کریں تو اس کے ساتھ حج کرنا ضروری ہے یا عمرہ کی بالکل اجازت نہیں۔ آپ کی اطلاع کے لئے میں فرض حج ادا کرچکا ہوں۔ ایسی صورت میں کیا میرا عمرہ ادا ہوا یا نہیں۔ بیان فرمائیں تو مہربانی ہوگی۔
محمد الیاس ، وٹے پلی
جواب : فقہاء کرام نے عمرہ کے وقت کے بابت صراحت کی ہے کہ سال کے بارہ مہینوں میں کبھی بھی عمرہ ادا کیا جاسکتا ۔ البتہ ایام تشریق یعنی 9 ذی الحجہ سے 13 ذی الحجہ تک عمرہ کرنا غیر قارن (حج قران کرنے والے کے علاوہ) کے لئے مکروہ ہے ۔ تاہم اگر کوئی ان ایام تشریق میں عمرہ ادا کرے تو عمرہ کراہت کے ساتھ ادا ہوجائے گا۔ عالمگیری جلد اول ص : 237 میں ہے : (ووقتھا) جمیع السنۃ الاخمسۃ ایام تکرہ فیھا العمرۃ لغیر القارن کذا فی فتاوی قاضی خان ۔ وھی یوم عرفۃ و یوم النحر و ایام التشریق ۔ والاظھر من المذہب ماذ کرنا ولکن مع ھذا لوادا ھا فی ھذہ الایام صح و یبقی محرما بھا فیھا کذا فی الھدایۃ۔
اگر کوئی شخص حج نہ کیا ہو اور وہ اشھر حج : شوال ، ذوالقعدۃ اور ذوالحجۃ کے دس دنوں میں خانہ کعبہ کو دیکھے تو اس پر حج کرنا فرض ہے۔ لیکن زندگی میں ایک ہی بار حج فرض ہونے کی وجہ آپ پر دوبارہ حج فرض نہیں کیونکہ آپ پہلے ہی فریضہ حج کی تکمیل کرچکے ہیں۔ لہذا جو عمرہ آپ نے ذی الحجہ کے ابتدائی ہفتہ میں ادا کیا ہے۔ شرعاً وہ صحیح ہے۔
دوران حج عورت ایام میں کیا کرے ؟
سوال : عورت اپنی ماہواری میں نماز ادا نہیں کرتی اور رمضان ہو تو روزے نہیں رکھتی، روزوں کی قضاء کرتی ہے ، حج کے دوران عورت کے ایام شروع ہوجائیں تو اسے کیا کرنا چاہئے ؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب مرحمت فرمالیں ؟
محمد سمیع اللہ ، ڈی آر ڈی ایل
جواب : مناسک حج ادا کرنے کے دوران عورت کے ایام آجائیں تو حج کے تمام ارکان ادا کرسکتی ہے۔ البتہ مسجد حرام میں داخل نہ ہو اور طواف نہ کرے جیسا کہ صحیح بخاری شریف ج: 1 ص: 223 میں ہے ۔ ’’ عن عائشۃ انھا قالت قدمت مکۃ وانا حائض ولم اطف بالبیت ولا بین الصفا والمروۃ قالت فشکوت ذلک الی رسول اللہ صلی علیہ وسلم فقال افعلی کما یفعل الحاج غیر ان لا تطوفی بالبیت حتی تطھری ۔
ترجمہ : ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے ، فرماتی ہیں : میں مکہ مکرمہ آئی جبکہ میں ایام میں تھی میں نے بیت اللہ شریف کا طو اف نہیں کیا اور نہ صفا مروہ کے درمیان سعی کی۔ حضرت عاشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں، میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں معروضہ کی تو آپ نے فرمایا جو حاجی کرتے ہیں وہ کرتی رہو مگر بیت اللہ کا طواف مت کرو جب تک کہ حیض سے پاک نہ ہوجاؤ۔
لہذا عورت صرف مسجد حرام نہ جائے اور طواف نہ کرے، اس کے سوا منیٰ ، عرفات اور مزدلفہ جائے ، رمی ، جمار ، قربانی اور باقی تمام امور انجام دے۔ اگر دس ، گیارہ ، بارہ ذی الحج کے دوران کبھی بھی ایام ختم ہوجائیں۔ بارہ کے غروب آفتاب سے پہلے تک طواف زیارت کرنے کی گنجائش ہے ۔ بارہویں کے غروب آفتاب کے بعد ایام ختم ہوں تو دم حیض منقطع ہوتے ہی غسل کر کے طواف زیارت کرلے تاخیر کرنے کی صورت میں دم واجب ہوگا۔