تلنگانہ کا ادتیہ ناتھ یوگی بے اثر

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
انتخابات کے موسم میں سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کو بے نقاب کرنے لگتی ہیں ۔ ان کی اچھائیاں ، برائیاں عوام کے سامنے آتی ہیں ۔ کشتی ڈبونے کے قریب ہوتی ہے تو وہ بھی کنارہ پر پہونچنے کی امید کرتے ہیں ۔ جن کی کشتی ڈبونے کی کوشش کی جاتی ہے وہ خود کی کشتی کو ڈوبنے سے بچانے میں ناکام ہوتے ہیں ۔ بعض پارٹیوں کے اندر ایسے قائدین بھی ہوتے ہیں جو جس کشتی کی سواری کرتے ہیں اس میں چھید کرتے ہیں ۔ حکمراں پارٹی کو ان دنوں اندر ہی اندر شدید ناراضگیوں کا سامنا ہے ۔ ٹی آر ایس کی قیادت بڑی ہمت کے ساتھ اپنی پارٹی کی خرابی کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش کررہی ہے ۔ ان انتخابات میں ٹی آر ایس کو درپیش خطرات نمایاں ہوتے جارہے ہیں ۔ ٹی آر ایس کے رائے دہندوں کی بڑی تعداد اس لیے بھی ناراض ہے کیوں کہ حکومت نے ریاست میں غریبوں کی صحت پر دھیان دینا ترک کردیا ہے ۔ حکومت نے اپنی چار سالہ حکمرانی کے دوران کئی اہم کام انجام دینے کا دعویٰ کیا ہے ۔ ان بڑے دعوؤں میں ایک دعویٰ لاکھوں عوام کو سرکاری ہیلت پالیسیوں سے فائدہ پہونچانے کا دعویٰ بھی اہم ہے ۔ لیکن عوام جانتے ہیں کہ ان کی صحت کا احترام نہیں کیا گیا ۔ حکومت کی پالیسیوں میں کئی خامیاں تھیں ۔ ٹی آر ایس حکومت نے ہیلت شعبہ کو ہی بری طرح نظر انداز کردیا ۔ کسانوں کو فائدہ پہونچانے کی دھند میں غریبوں کی صحت کو ابتر بنادیا گیا ۔ شعبہ صحت کے لیے مختص سالانہ بجٹ کو بھی استعمال میں نہیں لایا گیا ۔ عصری ہیلت سنٹرس کے قیام کا وعدہ پورا نہیں ہوا ۔ موجودہ پالیسیوں کو روبہ عمل نہیں لایا گیا ۔ ٹی آر ایس دراصل اپنی پروگریس رپورٹ میں بری طرح ناکام ہوئی ہے ۔ ریاست میں آروگیہ شری ہیلت کیر ٹرسٹ ایک سب سے بڑی ہیلت پالیسی ہے ۔ اس پالیسی کا اصل مقصد سطح غربت سے نیچے زندگی گذارنے والوں کو بھی یکساں طبی سہولیات فراہم کرنا ہے ۔ سال 2016-17 میں شعبہ صحت کے لیے 1,142.73 کروڑ روپئے مختص کئے گئے لیکن اس بڑے بجٹ میں سے صرف 824 کروڑ روپئے ہی خرچ کیا گیا ۔ 318 کروڑ روپئے سرکاری خزانے میں ہی پڑے رہے ہیں ۔ میڈیکل ہیلت ڈپارٹمنٹ نے فنڈس کا استعمال ہی نہیں کیا ہے ۔ دواخانوں کی ابتر حالت ہے خاص کر حیدرآباد کے تاریخی دواخانہ عثمانیہ کی عمارت بوسیدہ ہوچکی ہے ۔ اسے بری طرح نظر انداز کردیا گیا ہے ۔ شعبہ تعلیمات کو بھی بری طرح نظر انداز کرنے کی آئے دن شکایت سامنے آرہی ہے ۔ اسکالر شپس کی اجرائی بھی مسدود ہے ۔ شعبہ صحت میں کئی عہدے خالی ہیں ۔

سرکاری دواخانوں میں نرس اسٹاف کی جملہ جائیدادیں 2208 ہیں لیکن صرف 2027 نرس کام کررہی ہیں ۔ 181 خالی ہیں ۔ لیبارٹری ٹکنیشنوں کی تعداد 749 ہے لیکن صرف 597 ہی تقررات ہوئے ہیں ۔ 152 مخلوعہ ہیں ۔ ریڈیو گرافرس کی 87 جائیدادیں ہیں صرف 57 جائیدادیں کام کررہے ہیں ۔ 30 خالی ہیں ۔ جنرل ڈیوٹی میڈیکل آفیسرس کی جائیدادیں 184 ہیں صرف 145 کام کررہے ہیں ۔ 39 خالی ہیں جب کہ سرجنوں ماہر امراض خواتین کی 320 جائیدادیں ہیں یہاں صرف 112 ڈاکٹرس کام کررہے ہیں ۔ 208 جائیدادیں مخلوعہ ہیں ۔ اس طرح ریاست کے کسی سرکاری شعبوں کے ساتھ بھی ٹی آر ایس حکومت کا رویہ معاندانہ ہی رہا ہے ۔ چیف منسٹر ریلیف فنڈس سے امدادی رقومات کی اجرائی کا بھی کوئی ریکارڈ نہیں ہے اور ان امداد سے مستفید ہونے والوں کی تفصیلات بھی نہیں ہیں ۔ حکومت نے چیف منسٹر ریلیف فنڈ سے 84.9 کروڑ روپئے تقسیم کئے مگر اس رقم کو حاصل کرنے والے کون ہیں اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے ۔ یہ امداد غریب سے غریب تر کو دی جاتی ہے ۔ مگر اندھا دھند طریقہ سے سی ایم فنڈس کا استعمال ہوا ہے ۔ ریاست میں اب تک کوئی مضبوط اپوزیشن نہ ہونے سے ٹی آر ایس حکومت نے من مانی کی ہے ۔ لیکن اب 7 دسمبر کو ہونے والے انتخابات کے بعد اگر ٹی آر ایس کو اتفاقاً دوسری مرتبہ حکومت کرنے کا موقع ملتا ہے تو اس کے مقابل ایک مضبوط متحد اپوزیشن بھی ہوگی ۔ اپوزیشن متحد ہو تو بلا شبہ حکومت پر وائرل اٹیک کرتے ہوئے اس کی خرابیوں کو درست کرسکتی ہے ۔ مگر افسوس یہ ہے کہ اپوزیشن اپنی کئی غلطیوں کے باوجود خود کو درست کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ اس کی سست الوجود نیت نے ہی ٹی آر ایس کو چار سال تک اپنی مرضی کی حکومت کرنے کا موقع مل گیا ۔ ریاست کے عوام کی فلاح و بہبود کیا ہوتی ہے ۔ اسے فراموش کردیا گیا ہے ریاست کی موجودہ کیفیت پر آپ اگر نظر ڈالیں تو آپ کو میڈیا کے تبصروں اور اپوزیشن اتحاد کے پیش نظر حکمراں پارٹی کے امکانات کو دھکہ پہونچنے کا امکان ظاہر ہورہا ہے ۔ چیف منسٹر کی حیثیت سے کے سی آر ’ غم آرزو ‘ کے ساتھ انتخابی مہم چلا رہے ہیں تو ان کی پارٹی کی خفیہ حمایتی پارٹیاں بی جے پی اور مجلس نے کے سی آر پر اپنی خود اعتمادی کا انتہا سے زیادہ اظہار کیا ہے ۔ بی جے پی نے ٹی آر ایس کے انتخابی امکانات کو دھکہ نہ پہونچانے کی کوشش کی ہے اس لیے بی جے پی کے امیدوار خاص کر سوامی پری پورنندا بی جے پی میں داخل ہو کر بھی ٹی آر ایس کے خلاف اُف تک نہیں کررہے ہیں ۔ انہیں بی جے پی والوں نے تلنگانہ کا آدتیہ ناتھ یوگی بنانے کا ارادہ کرلیا تھا لیکن یو پی کی سیاسی صورتحال اور تلنگانہ کا سیاسی ماحول یکسر مختلف ہے ۔ تلنگانہ میں مسلمانوں کی آبادی ریاست کی جملہ آبادی کا 12 فیصد ہے اگر یہاں بی جے پی کے امیدوار کی حیثیت سے سوامی پری پورنندا نے یو پی کے ادتیہ کا تلنگانہ اوتار بننے سے اس لیے بھی گریز کیا ہوگا کیوں کہ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو پھر کانگریس کے عظیم اتحاد کو فائدہ ہوگا ۔ ٹی آر ایس اور بی جے پی کے ووٹ تقسیم ہوں گے تو اس کا راست فائدہ کانگریس کو ہوگا ۔ مگر بی جے پی صدر امیت شاہ نے تلنگانہ میں پارٹی کی کمزور قیادت کا سخت نوٹ لے کر ہی سوامی پری پورنندا کو لایا ہے تاکہ تلنگانہ بی جے پی میں پائے جانے والی قائدانہ فرق کو ختم کر کے ایک ہندوتوا چہرہ کو نمایاں کیا جائے ۔ اب یہ ہندوتوا چہرہ بی جے پی کے لیے اگر تلنگانہ کا یوگی ثابت ہوتا ہے تو ٹی آر ایس کو دھکہ پہونچے گا ۔ بظاہر سوامی پری پورنندا تلنگانہ میں یوگی طرز کی مہم چلانے سے بھی قاصر ہیں ۔ بہر حال تلنگانہ ریاست کا سیاسی کلچر سیکولر مزاج کا ہے ۔ یہاں بی جے پی کے یوگی یا سوامی کا منتر نہیں چلے گا ۔ البتہ بی جے پی پہلے سے زیادہ خود کو مضبوط بنانے کی کوشش ضرور کرے گی لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کوشش کررہی ہے کہ اس کی وجہ سے ٹی آر ایس صدر کے چندر شیکھر راؤ کو کوئی سیاسی گزند نہ پہونچے ۔ سوامی پری پورنندر تو اپنی ہلکی پھلکی انتخابی ہم کے ذریعہ عوام سے اپیل کررہے ہیں کہ وہ بی جے پی کو ووٹ دے کر ہندوؤں کی بہبود کو یقینی بنائیں ۔ انہوں نے کانگریس کو یہودیوں کی پارٹی قرار دیا اور کہا کہ اگر کانگریس کو ووٹ دیا گیا تو ریاست میں یہودی حکومت آئے گی اور اگر ٹی آر ایس کو دوبارہ اقتدار دیا گیا تو ریاست میں نظام کی حکمرانی ہوگی ۔ یہ دونوں پارٹیاں ریاست میں ہندوؤں کے مفادات کے لیے خطرہ ہیں ۔ سوامی کی ان باتوں کا رائے دہندوں پر کتنا اثر ہوگا یہ تو نتائج ہی بتائیں گے ۔ کٹر پسند ہندوتوا مہم کے درمیان میں بی جے پی کہیں سیکولر اور کہیں درمیانی سطح کی مہم بھی چلاتے دکھائی دے رہی ہے ۔
kbaig92@gmail.com