تلنگانہ میں 2019کے پیش نظر فرقہ وارانہ ماحول بنانے کی مذموم کوشش ؟۔اویسی بمقابلہ راجہ سنگھ

حیدرآباد۔ایسا محسوس ہورہا ہے کہ پرامن حیدرآباد کی فضاء کو مکدر کرنے کی ایک پہل کے طور پر دوفرقہ پرست جماعتیں سرگرم عمل ہوگئی ہیں۔اپنے اشتعال انگیز بیانات کے لئے پہچانے جانے والے دونوں لیڈران 2019کے انتخابات کی تیاری کررہے ہیں‘ مگراس بار نچلی سطح تک حالات چلے گئے ہیں جس میں روڈ پر خاندان کو کھینچ لیاگیا ہے۔

اس سب کی شروعات پیغمبراسلام ﷺ ‘ جنھوں نے کسی دوسرے مذہب اور عقائد کے لوگوں کے متعلق غلط غیر بات کرنے منع کیا ہے اور آپؐ کے میلاد کے موقع پر منعقد جلسہ عام سے خطاب کے دوران ہوئی۔ جی ہاں ہم نے دیکھا ہے کہ اکثر مسلم لیڈرس اپنی تقاریر ان تعلیمات کو یکسر فراموش کردیتے ہیں۔ زیادہ تر ایسے واقعات سیاسی مفادات کے پیش نظر ہی پیش آتے ہیں۔

حیدرآباد درالسلام کے اندر منعقدہ جلسہ میلا دالنبیؐ سے خطاب کے دوران صدر کل ہند مجلس اتحاد المسلمین مسٹر اسد الدین اویسی ’’ اورنگ آباد کا پان‘‘ کے حوالے سے اپنے ریمارکس میں بالراست بھگوا طاقتوں مسلمانوں کے مقابلے بچے پیدا کرنے میں ناکام قراردیا۔

اویسی نے کہاکہ ’’ اگر تمہارے پاس بچہ پیدا نہیں ہوتا ہے تو ‘ پھر اورنگ آباد میں ایک تارا پان شاپ ہے جہاں سے 5000روپئے کا پان کھاؤ پھر دیکھو ٹن ٹناٹن بچہ پیدا ہوگا‘ اس پان میں زعفران ‘ شہید اور ادرک وغیرہ ڈالی جاتی ہے‘‘۔ مشورہ کے طور پر اویسی نے کہاکہ ’’ کھاؤ اگر تم کامیاب ہوگئے تو واپس آکر ہمیں میٹھائی کھلاؤ‘‘۔

بشکریہ این 24نیوز

جیسے ہی اسدالدین اویسی کی تقریر کا یہ ویڈیو وائیرل ہوا اسی کے ساتھ ان کے فرقہ وارنہ ہم منصب بی جے پی کے راجہ سنگھ نے نہایت بے ہودہ انداز میں اس کاجواب دیا۔راجہ سنگھ نے اس کے جواب میں اویسی کے پان کو اسلام کی چودہ سال کی قدیم تاریخ سے جوڑ دیا ۔

یہاں پر ہمیں مقدس قرآن کے سورۃ یاد آجاتی ہے ‘ قرآن شریف کی سورۃ الانام کی آیات نمبر 108۔

راجہ سنگھ یہاں پر ہی خاموش نہیں رہا‘ اس نے اویسی کے خاندان کو بھی اس سیاسی اکھاڑے میں کھینچ لیا اور ان کی ازدواجی زندگی اور بچوں پر بھی تبصرہ کیا۔سب سے زیادہ افسوس تو اس بات پر ہوتا ہے کہ دونوں جانب کے ماننے والے ان سیاسی لیڈروں کی جال میں آسانی کے ساتھ پھنس جاتے ہیں جن کا مقصد امن اورترقی سے کچھ لینا دینا نہیں ہے مگر مجوزہ انتخابات کے لئے میدان تیار کرنا ضرور ہے۔

یوپی انتخابات میں مسلم لیڈروں کے بیانات مقابل پولرائزشن کا سبب بنا اور بھگوا پارٹی کے لئے اکثریتی کمیونٹی کے ووٹ ہتھیار بن گئے۔

کیا ہم تلنگانہ میں بھی ایسے ہی تجربہ سے دوچار ہونگے جہاں پر 85فیصد آبادی ہندوؤں کی ہے جو بی جے پی کے ووٹ بینک میں بدل جائیں گے؟ یا پھر یہ کرناٹک کے مجوزہ اسمبلی انتخابات کی بڑی جنگ کے لئے تیاری کی جارہی ہے؟۔