تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
تلنگانہ حکومت میں چوروں کی کوئی ملامت نہیں کررہا ہے بلکہ شہریوں کی ہی غفلت پہ سبھی کوس رہے ہوتے ہیں ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کو اپنی ریاست کی ابتر حالت کا اگر علم نہیں ہے تو ان کی لا علمی کی گواہی اس ریاست کے دن کے اجالے دیں گے جو لوگ چھپ کے اندھیروں میں عوام کے ووٹ کی امانت میں خیانت کرتے ہیں ۔ وہ ایک دن عوام کے ووٹ لینے کی زحمت نہیں کرسکیں گے ۔ تلنگانہ میں سرکاری دواخانوں میں غریب مریضوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔ یہ صدمہ خیز حقیقت ہے کہ ڈاکٹرس کی موجودگی برائے نام ہے جس دواخانہ میں ایک واچ مین کی بیوی مریضوں کو انجکشن دے رہی ہو ان کے امراض کے بارے میں علاج کررہی ہو اور وہیں ڈاکٹر کرسی پر بیٹھ کر موبائل فون میں مصروف ہو تو ایسی صورتحال مریضوں کو بے موت مار دیتی ہے ۔ حکومت کی بے رخی جب ایک خاص حد پر آجاتی ہے تو عوام کے لیے یوں سمجھئے گردش ایام شروع ہوگئے ہیں جب تک یہ حکومت رہے گی گردش بھی ان کا تعاقب کرتے رہے گی ۔ تلنگانہ میں صحت عامہ اور آلودگی کا مسئلہ سنگین بن گیا ۔ سرکاری ہو یا خانگی دواخانے لاپرواہی اور من مانی سے مریضوں کی اموات کے واقعات میں اضافہ ہوتا رہا ہے ۔ زندہ بچی کو مردہ قرار دیا جاتا ہے تو خانگی دواخانوں میں علاج معالجہ کے لیے بھاری مصارف عائد کئے جاتے ہیں ۔ تلنگانہ حکومت کی خرابیوں کی گنتی کرنے والے ووٹروں کو بہت جلد اس حکومت کے خلاف فیصلہ کرنے کا موقع ملنے والا ہے تو انہیں ان پانچ سال کے ریاستی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے ووٹ دینے کا فیصلہ کرنا پڑے گا کیوں کہ اس وقت حالات کے قدموں پر قلندر گرنے کا دور نہیں ہے اور آسمان پر اگر تارا ٹوٹ بھی جائے تو وہ تلنگانہ کی سرزمین پر نہیں گرے گا ۔ تلنگانہ کے سنہرے بہاروں کا حکمراں بناکر عوام نے اپنے سر پر کانٹوں کا تاج سجایا ہے ۔ تلنگانہ حکومت کا ہر لیڈر گنہگار بنا بیٹھا ہے تو عوام کو پارسائی کا ہنر سکھانے کی ضرورت نہیں ۔ حکومت کی نادانیوں اور وعدہ خلافیوں سے اگر عوام کے حق میں پریشانی اور مسائل برحق ہیں تو پھر اس حکومت کا جنازہ اُٹھانے میں عوام کو دیر نہیں کرنی چاہئے ۔ عوام اگر چاہتے تو حکومت کی جانب سے دئیے گئے زخموں کی لذت خود اسے چکھا سکتے ہیں ۔ اپنی مطلب کے لیے جب انہوں نے فرقہ پرستوں کو گلے لگالیا ہے تو ان پر آن پڑنے والی مشکل کو وہ نظر انداز نہیں کرسکیں گے ۔ خود فریبی کی انہیں عادت سی شاید پڑ گئی ہے ۔
ہر نئے رہزن کو سینے سے لگالے رہے ہیں ۔ اس سارے منظر سے تلنگانہ کے عوام واقف ہوتے جارہے ہیں تو وہ یہ دیکھ کر بھی حیران ہیں کہ ان کا حکمراں بجلیاں خود اپنے گلشن پر گرالینے میں پیش پیش نظر آرہا ہے ۔ سابق میں یہی کیفیت تلگو دیشم سربراہ کی تھی چندرا بابو نائیڈو نے اپنے سسر کے بعد جس طرح سیکولر رائے دہندوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر بی جے پی سے ہاتھ ملا لیا تھا تو بعد کے دنوں میں عوام نے تلگو دیشم کا ہی صفایا کردیا تھا ۔ اب اسی خطوط پر کے سی آر نے بی جے پی قیادت سے قربت بڑھالی ہے تو انہیں اپنے سیاسی حشر کی خیر نہیں ہے ۔ حکومت کی رخصتی کی رسم کے لیے 2 ستمبر یعنی آج ٹی آر ایس کا جو جلسہ منعقد ہورہا ہے اسے اب تک منعقد ہونے والے ٹی آر ایس کے جلسوں میں سب سے بڑا جلسہ قرار دیا جارہا ہے ۔ جس کے لیے سرکاری مشنری کو پوری طرح جھونک دیا گیا ہے ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ اس جلسہ عام کے ذریعہ اپنی پارٹی کو سیاسی سیڑھی سے گرانے کا از خود بندوبست کرنے والے ہیں جب کہ انہوں نے مرکز کی چھت میں شگاف کرنے کا عزم کرلیا تھا ۔ کل تک مرکز میں سیاسی طاقت حاصل کر کے موجودہ حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا اعلان کرنے والے کے سی آر نے مرکزی قیادت کے سامنے بھیگی بلی بن کر وفاداری میں کمال کا مظاہرہ کیا ہے ۔ انہوں نے عوام کے حق میں کوئی خاص کام تو انجام نہیں دئیے مگر انتخابات سے قبل مندروں کے پجاریوں ، مساجد کے آئمہ کرام اور موذنین کو خوش کرنے مشاہیرہ کا اعلان کیا ۔ مگر اس میں بھی امتیازات برتے جائیں گے ۔ مندروں کے پجاریوں کو سرکاری ملازمین کے خطوط پر تنخواہیں ملیں گی لیکن مساجد کے آئمہ کرام اور موذنین کو صرف فی کس 5000 روپئے ہی دئیے جائیں گے ۔ حکومت یہ اقدامات کرتے ہوئے کسی حد تک اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنا چاہتی ہے ۔ اس سلسلہ کی کڑی کے حصہ کے طور پر یہ جلسہ عام منعقد کیا جارہا ہے جس میں حکمراں طبقہ کے تمام لوگ گذشتہ چار سال کی کارکردگی کو نہایت ہی خوشنما بنا کر پیش کریں گے ۔ جلسہ گاہ تک 25 لاکھ افراد کو لانے کے لیے جس من مانی طور پر سرکاری مشنری کا استعمال کیا جارہا ہے وہ جلسہ گاہ کے انتظامات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے ۔ بظاہر حکومت کے نمائندوں نے جلسہ گاہ میں شریک ہونے والوں کو کسی قسم کی تکالیف نہ ہونے کا خاص خیال رکھا ہے ۔ جلسہ گاہ میں جب حکومت اپنی چار سال کی کارکردگی کی پروگریس رپورٹ جاری کرے گی تو ان کے چاہنے والے خوشی سے اچھل پڑیں گے لیکن عوام کو کیا حاصل ہوا ہے یہ غور طلب ہے ۔ 2000 ایکڑ پر منعقد ہونے والے جلسہ گاہ میں 25 لاکھ افراد کے لیے جو سہولتیں دی جارہی ہیں وہ مثالی ہیں بلکہ سارے ملک میں اس طرح کا جلسہ کہیں نہیں منعقد ہوا ہوگا ۔ ’’ پرگتی نیودتا ‘‘ کو ٹی آر ایس کے اب تک کے جلسہ عام کی ماں قرار دیا جارہا ہے تو اس کے لیے خرچ بھی ’’باپ رے باپ ‘‘ہوا ہے ۔ حکمراں پارٹی کے پاس اس اخراجات کے لیے بے دریغ رقومات خرچ کرنے کا اختیار ہے مگر اس نے جو وعدے کئے تھے انہیں پورا کرنے کا جذبہ نہیں ہے ۔ غریب عوام کو 3 ایکڑ اراضی دینے کا وعدہ پورا نہیں ہوا ۔ مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات نہیں ملے ۔ ہر گھر کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کا عزم کہیں دکھائی نہیں دیتا ۔ بے گھروں کو گھر کا وعدہ بھی معلق ہے ۔ جو ڈبل بیڈروم کے مکانات تعمیر کئے گئے ہیں ۔ ان کا معیار ناقص ہے ۔ یہ تمام خرابیاں اپوزیشن کانگریس کے لیے انتخابی موضوع ہوسکتے ہیں ۔ مگر کانگریس ، اب تک حکومت کی ناکامیوں کے خلاف عوام کے سامنے ایک مضبوط اپوزیشن کے طور پر پیش کرنے سے قاصر رہی ہے ۔ کانگریس والے تو لٹ گئے مفت میں تری حکومت مرا ووٹ کہتے کہتے ۔ جب کانگریس کا لیڈر ناخواندہ نہیں ہے تو پھر اس نے حکومت کی پیشانی کیوں نہیں پڑھی ۔ سکریٹریٹ کی دیوار پر لکھی ہوئی تحریریں پڑھنے کے لیے چیف منسٹر نے اس عمارت کا رخ ہی نہیں کیا لیکن وہ اپنے پرگتی بھون سے ہی تلنگانہ عوام کی آنکھوں میں سنہرے تلنگانہ کے خواب سجاتے رہے اور ریت پر چاند کی تصویر بناتے رہے ۔۔
kbaig92@gmail.com