تلنگانہ حکومت کی اکسائز پالیسی

دام میں کون پھنسا ؟ جان سے کون اپنی گیا؟
زلف ان کی جو سنور جائے تو کیا فکر انہیں
تلنگانہ حکومت کی اکسائز پالیسی
تلنگانہ تاریخ میں زندہ رہنے والوں میں کے چندر شیکھر راؤ کا نام بھی نمایاں ہونے کے امکانات قوی تھے مگر جب سے انہوں نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی ہے، تلنگانہ کی تاریخ ان سے مایوس ہوتے دکھائی دے رہی ہے۔ غریب تلنگانہ کے غریب عوام کو سستی شراب پلانے کے بہانے انہوں نے ہر گھر میں موت کا کنواں کھودنے کا انتظام کرنا چاہا ہے تو اس کے بھیانک نتائج برآمد ہوں گے۔ سستی شراب کو عام اور سستا بنانے کی اکسائز پالیسی میں تبدیلی کی ہر گوشے سے مخالفت ہوتی ہے تو چیف منسٹر کو اپنی اس سستی شراب پالیسی کو غریب عوام کے حق میں موخر کرنا چاہئے۔ اگر انہیں تلنگانہ کی تاریخ میں زندہ رہنے کا شوق ہے تو کچھے اچھے اور فلاحی کام کرنے ہوں گے، بجائے اس کہ عوام نے محسوس کرنا شروع کیا ہے کہ وہ ریاستی مسائل کو بالائے طاق رکھ کر اپنے حواریوں، حاشیہ نشینوں اور جی حضوریوں کی بات سن کر فیصلے کرنا چاہتے ہیں۔ یوں تو تلنگانہ کے زیرسماں ہزارہا موضوعات ایسے ہیں جن پر توجہ نہیں دی جاتی، مگر سستی شراب فروخت کرنے میں دلچسپی دکھانے والی ٹی آر ایس حکومت عوام کے ووٹوں کو یوں ضائع کرنے کی کوشش نہ کرے۔ یقیناً صاحبان اقتدار اپنا کام ادھورا چھوڑنے کے عادی نہیں ہوتے۔ چیف منسٹر کی حیثیت سے کے سی آر نے بھی سستی شراب فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو آگے چل کر اس کے مضر نتائج پیدا ہوں گے اور پھر انہیں اپنی غلطیوں کا ازالہ کرنے کا بھی وقت نہیں ملے گا۔ تلنگانہ میں عوامی مسائل، حکومت کے عزم اور ارادوں کے تابع ہیں۔ دیہی علاقوں میں رہنے والے عوام یا شہری سلم علاقوں میں مقیم غریبوں کو جن بنیادی سہولتوں کی ضرورت ہے، اس میں صاف پینے کا پانی، راشن، ایندھن اور روزگار شامل ہیں، مگر حکومت کو اپنے عوام تک سستی شراب سربراہ کرنے کا شوق ہے تو یہ گڑمبہ پی کر موت کو دعوت دینے والی حرکتیں حکومت کی ذمہ داریوں کا حصہ نہیں ہوسکتیں۔ حکومت کی خام خیالی ہے کہ اگر سستی شراب دستیاب ہو تو عوام گڑمبہ پینے سے گریز کریں گے۔ حکومت کا منصوبہ ہے کہ سستی شراب فروخت کرنے عوام کی صحت کا خیال رکھا جائے کیونکہ گڑمبہ کے عادی افراد کی صحت ابتر ہوئی ہے۔ بعض اوقات اس میں آمیزش کی وجہ سے موت بھی واقع ہوئی ہے۔ گڑمبہ بنانے والوں کے خلاف کارروائی کرنے اور اس کی حوصلہ شکنی کے لئے سستی شراب کو عام کرنے کی کوشش کسی بھی صورت ناپسندیدہ ہے۔ ماضی میں 1994ء میں تلگو دیشم نے سستی شراب پر پابندی عائد کی تھی جس کو عرف عام میں ’’دیسی دارو‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یکم اکتوبر سے نافذ ہونے والی حکومت تلنگانہ کی اکسائز پالیسی کے ذریعہ ایک طرف غریب آدمی کو گڑمبہ سے چھٹکارہ دلانا چاہتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ دیسی ساختہ بیرونی شراب (IMFL) پر 20 فیصد اکسائز اضافہ کرنا چاہتی ہے تاکہ سال 2015-16ء کے دوران 14,000 کروڑ روپئے اکسائز ریوینیو حاصل کی جاسکے۔ مہاراشٹرا حکومت کی طرز پر تلنگانہ حکومت بھی دیسی دارو کی شکل میں سستی شراب فروخت کرنا چاہتی ہے جس کی قیمت 180 ایم ایل کے لئے 35 روپئے اور 90 ایم ایل کے لئے 17 روپئے ہوگی، لیکن یہ حکومت اپنی نئی اکسائز پالیسی کے باوجود گڑمبہ مافیا پر قابو پانے میں کامیاب ہوگی یہ مشکل ہے۔ پرانے شہر کے دھول پیٹ کے اطراف گڑمبہ مافیا غریبوں میں مقبول ہے۔ اسی طرح تلنگانہ کے مختلف اضلاع میں بھی گڑمبہ مافیا سرگرم ہے۔ نشہ بندی کی حمایت کرنے والی تنظیموں سے تلنگانہ حکومت کی اس پالیسی کی شدید مخالفت کی ہے۔ سابق میں این ٹی راما راؤ کے دور میں 1985ء میں حکومت نے زہریلی شراب سے عوام کو چھٹکارہ دلانے شراب سازی کے لئے سابق آندھرا پردیش کے تمام 23 اضلاع میں باٹلنگ پلانٹس قائم کئے تھے لیکن اس پالیسی کو بعدازاں چندرا بابو نائیڈو نے برخاست کردیا تھا۔ اب تلنگانہ حکومت اپنے ’’ٹی برانڈ‘‘ کے ساتھ سستی شراب عوام تک پہونچانا چاہتی ہے تو اس کی یہ حرکت پڑوسی ریاستوں ٹاملناڈو اور کیرالا میں جاری مخالف شراب احتجاج کے برعکس ہوگی۔ تلنگانہ کے عوام کو بھی پڑوسی ریاستوں کے عوام کی طرح حکومت کی من مانی پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھانا چاہئے تاکہ سستی شراب کے نام پر غریب عوام کی زندگیاں تباہ ہونے سے بچ سکیں۔