تلنگانہ: جذبات نہیں مفادات کے حق میں ووٹ کریں

ظفر آغا

حالیہ اسمبلی چناؤ محض حکومت سازی کا ایک کھیل نہیں ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ چناؤ قسمت سازی اور بالخصوص اقلیتوں کی قسمت سازی کا ایک موقع ہے۔ اگر ان چناؤ میں بھارتیہ جنتا پارٹی ہار گئی تو پھر مئی 2019 میں ہونے والے لوگ سبھا چناؤ میں نریندر مودی کا دوبارہ وزیر اعظم بن پانا تقریباً ناممکن ہو جائیگا۔ اگر حالیہ اسمبلی چناؤ میں بی جے پی کامیاب ہوگی تو ظاہر ہے کہ مودی پھر واپس اور اگر مودی واپس تو کم از کم اقلیتوں کی قسمت پر جو تالا پڑے گا اس کو کھول پانا کم از کم سو برسوں تک نا ممکن ہا جائے گا۔ وہ کیوں اور کیسے!
ایک بات اب طے ہے کہ نریندر مودی کوئی معمولی سیاست داں نہیں ہیں۔ وہ ہندوتوا نظریہ میں ڈوبے آزاد ہندوستان کے پہلے ایسے سیاستداں ہیں جن کی سیاست کا مقصد ہندوستان کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنا ہے۔ وہ اس ملک کی تاریخ میں خود کو آزاد ہندوستان کا سب سے بڑا ہندو لیڈر ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ اپنی گجرا ت کی دور حکومت میں وہ اپنے کو ہندو ہردے سمراٹ یوں ہی نہیں کہلواتے تھے۔ اب وہ خود کو پرے ہندوسماج کا ہندو ہردے سمراٹ ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ جب وہ گجرات کے ہندو ہردے سمراٹ تھے تو اس وقت جو مسلم نسل کشی ہوئی اس کی مثال ڈھونڈنا مشکل ہے۔ تین ہزار سے زیادہ مسلم افراد کا قتل کیا گیا اور نا جانے کتنی ناموس بے آبرو ہوئیں۔ جب مودی سے ایک صحافی نے سوال کیا کہ ان کو گجرات فسادات کا افسوس ہے کہ نہیں تو شاید آپ ان کا جواب بھول گئے ہوں لیکن مجھ کو وہ جواب آج بھی بخوبی یادہے۔ مودی نے اس سوال کا جواب دیا، ہاں مجھے اتنا ہی افسوس ہے جتنا ایک کتے کے پلے کا کار کے نیچے کچل کر مر جانے کا افسوس ہو سکتا ہے۔ یعنی نریندر مودی کے لئے ہندستانی مسلمان کی حیثیت ’کتے کے پلوں‘ سے زیادہ نہیں ہے۔ تبھی تو جب سے اس ملک میں وہ وزیر اعظم بنے تب سے مسلم اقلیت کی موب لنچنگ کا چلن ہو گیا۔ اور فیض آباد ہو یا الہ آباد یا پھر مغل سرائے تمام مسلم ناموں کے ساتھ جڑے شہروں کا نام بدل دیا گیا۔ یعنی مسلمان کا نام تایخ سے بھی مٹا دینے کا پروجیکٹ شروع ہو گیا۔ جو وزیر اعظم تاریخ سے مسلم وجود ختم کر دینا چاہتا ہو وہ بھلا پورے ملک میں مسلم وجود کیسے برداشت کرے گا۔ اور یہ موب لنچنگ اور تاریخ کو توڑنا مروڑنا تو تب ہے جب وہ ایک ’سیکولر‘ ہندوستان کے وزیر اعظم ہیں۔ کیوں کہ آج بھی ہندوستانی آئین میں لفظ سیکولر موجود ہے۔ جب ہندوستان باقائدہ ہندو راشٹر بن جائے گا تو مودی حقیقتاً مسلم اقلیت کو کتے کے پلوں کی حیثیت کو پہنچا دیں گے۔

یہ کوئی لیڈروں کی لفاظی نہیں بلکہ آج کے ہندوستان کی تلخ سیاسی حقیقت ہے۔ اس لئے حرف مسلم اقلت ہی نہیں بلکہ اس ملک کی تمام سیکولر آبادی کے لئے نریندر مودی کو اگلی حکومت کا وزیر اعظم بننے سے روکنا ضروری ہے اور یہ کام فی الحال تلنگانہ، راجستھان اور دیگر اسمبلیوں میں جو چناؤ ہو رہے ہیں وہاں سے شروع کرنا ضروری ہے۔ کیوں کہ جیسا کہ عرض کیا کہ اگر ان سمبلیوں میں بی جے پی یا ان کے کھلے یا چھپے حلیف ہار گئے تو پھر بی جے پی مخالف فضا جو بنے گی وہ چند ماہ بعد ہونے والے لوک سبھا چناؤ میں نریندر مودی کو اکھاڑ پھینکے گی۔ یاد رکھئے کہ ان اسمبلی چناؤ میں بھی اقلیتو ں کا رول بہت اہم ہوگا۔ اگر اقلیتیں سیکولر ہندو ووٹر کے ساتھ ہاتھ ملا کر ووٹ ڈالیں تو واضح ہے کہ بی جے پی اور بی جے پی کے کھلے اور خفیہ حلیف دونون کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ اس سلسلے میں ریاست تلنگانہ کا چناؤ بہت اہم ہوتا جا رہا ہے۔ اب یہ بات منظر عام پر آ چکی ہے کہ تلنگانہ کے موجودہ وزیر اعلی کے سی آر صاحب کے بی جے پی کے ساتھ اندرونی مراسم ہو چکے ہیں۔ تلنگانہ بی جے پی اور کے سی آر کے درمیان ایک سیاسی نورا کشتی بھی ہو رہی ہے، لیکن اس کا مقصد یہ ہے کہ مسلم ووٹر کو بھرم میں ڈال کر اس ووٹ کو باٹ دیا جائے۔ اگر تلنگانہ کا مسلم ووٹ بٹ جائے تو بس پھر بی جے پی کا کام بن جائے گا۔ اس لئے تلنگانہ اقلیتی ووٹر کے سامنے یہ سوال ہے کہ وہ کرے تو کیا کرے۔ کیوں کہ کے سی آر کے ساتھ اسد الدین اویسی صاحب کی ایم آئی ایم پارٹی بھی ہے۔ تلنگانہ میں قلیتوں کے سامنے ایک بڑا جذباتی مسئلہ ہے کہ وہ کے سی آر اور ایم آئی ایم کا ساتھ کیوں چھوڑیں!
جی ہاں، یہ ایک انتہائی نازک مگر جذباتی مسئلہ ہے۔ لیکن سیاست جذبات پر نہیں مفادات پر مبنی ہوتی ہے۔ جو قوم سیاست کو جذبات کا کھیل سمجھتی ہے اس کو ہمیشہ سیاست کی بازی میں ہار ہوتی ہے۔ لیکن جو قوم مفادات کے زیر نظر سیاسی فیصلے کرتی ہے وہی سیاست میں کامیاب ہوتی ہے۔ جذبات سے پرے تلنگانہ ہی نہیں اس وقت ہندوستان کے کونے کونے میں اقلیتوں کا مفاد یہی ہے کہ کسی طرح نریندر مودی اور اس کے ساتھیوں کو اگلے لوک سبھا چناؤ میں بر سر اقتدار آنے سے روکا جائے۔ اس نکتہ نگاہ سے تلنگانہ کی اقلیتوں کے مفاد میں یہی ہوگا کہ اس وقت وہاں کانگریس کی حکومت قائم ہو۔
یعنی تلنگانہ میں اقلیتوں کا مفاد اسی بات میں ہے کہ وہ جذبات سے نہیں بلکہ سوجھ بوجھ سے کام لیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایم آئی ایم پارٹی کا مفاد اسی بات میں ہے کہ وہ ٹی آر ایس کے ساتھ مل کر تلنگانہ میں پھر برسر اقتدار آ جائے۔ لیکن صرف تلنگانہ نہیں بلکہ پورے ہندوستان کی اقلیت کے حق میں یہی بہتر ہے کہ اس بار وہاں کانگریس کی حکومت بنے۔ اس لئے اس وقت تلنگانہ کا اسمبلی چناؤ پورے ہندوستان کی سیاست میں ایک اہم مقام کا حامل ہو چکا ہے۔ اگر تلنگانہ میں اس وقت کانگریس حکومت قائم ہوتی ہے تو تلگانہ ہندوستان کو ہندو راشٹر بننے سے روک سکتا ہے۔ اگر ایس نہیں ہوتا تو پھر 2019 میں نریندر مودی پورے ملک کے ہندو ہردے سمراٹ ہوں گے اور اسی کے ساتھ پورا ہندوستان دوسرا گجرات ہوگا۔ بس پھر مودی کے ہندو راشٹر میں اقلیتوں کی کیا حیثیت ہوگی اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔ اس لئے تلنگانہ ہی نہیں بلکہ پورے ہندوستان کے حق میں یہی ہے کہ وہ جذبات سے پرے، جذباتی لیڈروں سے پرے اپنے مفادات میں فیصلہ کریں اور مسلم اقلیت کو دوسرے درجے کا شہری بنانے سے بچائیں۔