وزیراعظم منموہن سنگھ کی آندھرااور رائلسیما کانگریس قائدین سے بات چیت
حیدرآباد۔ 19 جولائی (سیاست نیوز) وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے تلنگانہ کو ایک سنجیدہ مسئلہ قرار دیتے ہوئے صبر و تحمل سے کام لینے کا کانگریس قائدین کو مشورہ دیا اور سیما۔ آندھرا کانگریس قائدین کے جذبات کو کانگریس کور کمیٹی کو واقف کرانے کا تیقن دیا۔ انہوں نے آج سیما۔ آندھرا کی نمائندگی کرنے والے کانگریس قائدین کے وفد سے دہلی میں ملاقات کرتے ہوئے اپنے ان احساسات سے واقف کرایا۔ متحدہ آندھرا پردیش کی تائید میں دہلی پہونچنے والا سیما۔ آندھرا کے کانگریس قائدین کا ایک وفد صبح میں وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ سے ملاقات کرنے کے بعد مرکزی وزیر دفاع مسٹر اے کے انتونی، مرکزی وزیر داخلہ مسٹر پی چدمبرم سے بھی ملاقات کی۔ ذرائع نے بتایا کہ تینوں قائدین نے سیما ۔ آندھرا کے کانگریس قائدین کو مشورہ دیا کہ وہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں۔ پارٹی ہائی کمان مسئلہ کی مستقل یکسوئی کی طرف قدم بڑھا رہی ہے۔ ایسے میں ہائی کمان کو تینوں علاقوں کی نمائندگی کرنے والے قائدین بالخصوص کانگریس قائدین کے تعاون کی ضرورت ہے۔ وہ تلنگانہ کے مسئلہ سے بخوبی واقف ہے۔ مذاکرات سے کوئی فیصلہ ہوسکتا ہے۔ کانگریس قائدین تعاون کریں۔ آندھرا پردیش میں پارٹی کو مستحکم کرنے کی کوشش کریں۔ مرکزی وزیر داخلہ پی چدمبرم نے بھی سیما ۔ آندھرا کے کانگریس قائدین کو یہی تاکید کی۔ آندھرا پردیش کی ہائی کمان کے پاس بہت زیادہ اہمیت ہے اور وہ تلنگانہ کے مسئلہ پر دونوں علاقوں کے عوام کیلئے قابل قبول حل ڈھونڈ رہی ہے۔ قائدین کے تعاون کے بغیر مسئلہ حل ہونا ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے 100 سے زیادہ ارکان اسمبلی کے استعفوں کے بعد صورتحال سے بھی واقفیت حاصل کی۔ ذرائع نے بتایا کہ کانگریس کے قائدین، ٹی آر ایس کے بچھائے ہوئے جال میں پھنس گئے ہیں۔ اجلاس کے بعد ریاستی وزیر پرائمری ایجوکیشن مسٹر شیلجہ ناتھ نے بتایا کہ ریاست کو تقسیم کرنے کی صورت میں ہونے والے نقصانات اور متحد رکھنے کی صورت میں ہونے والے قائدین سے وزیراعظم ، مرکزی وزیر داخلہ اور مرکزی وزیر دفاع کو بتاتے ہوئے تفصیلی رپورٹس پیش کرچکے ہیں۔ ریاست کو متحد رکھنے کیلئے سری کرشنا کمیٹی کی چھٹویں تجویز پر عمل کرنے کا مطالبہ کرچکے ہیں۔ وزیراعظم وشال آندھرا کی تحریک سے بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ ریاستی وزیر پرائمری ایجوکیشن نے بتایا کہ کل رات غلام نبی آزاد سے بھی ملاقات اطمینان بخش رہی ہے۔ انہوں نے تینوں علاقوں کے 5 تا 10 قائدین پر مشتمل وفد سے بات چیت کرنے کا تیقن دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ علاقہ آندھرا کے 90 فیصد، رائلسیما کے 90 فیصد اور تلنگانہ کے 45 فیصد عوام متحدہ آندھراپردیش کے حق میں ہے۔ مختلف سروے سے اس کا انکشاف ہوا ہے۔ فیصلہ کرنے میں مزید تاخیر کرنے سے ریاست کی ترقی متاثر ہوسکتی ہے۔ سابق ریاستی وزیر مسٹر جی وینکٹ ریڈی نے کہا کہ ریاست کو متحد رکھتے ہوئے ہم نے تلنگانہ قائدین کی شکایتوں کو دُور کرنے کی ہائی کمان سے نمائندگی کی ہے۔ مسئلہ کی یکسوئی کیلئے سری کرشنا کمیٹی کی چھٹویں تجویز پر عمل کرنا واحد حل ہے۔ انہوں نے کہا کہ استعفے ابھی منظور نہیں ہوئے اور نہ ہی آندھرا پردیش میں نظم و نسق مفلوج ہوا ہے۔ چیف منسٹر کو اختیارات ہے۔ وہ کسی بھی محکمہ کی فائیل مانگ کر دستخط کرسکتے ہیں۔