تعلیمی تحریک کے ٹیپو سلطان ڈاکٹر محمد ممتاز خاں

محمد ریاض احمد
ہندوستان میں آزادی سے قبل سرسید احمد خاں نے مسلمانوں میں تعلیمی شعور بیدار کرنے کیلئے جو تحریک شروع کی تھی ابتداء میں اس کی شدید مخالفت کی گئی لیکن سرسید احمد خان نے اپنے مشن کے تئیں غیرمعمولی سنجیدگی، حصول مقصد کے ہمالیائی جذبہ اور مشالی عزم و حوصلہ کے ذریعہ تمام مخالفتوں کا رخ موڑ دیا نتیجہ میں سرزمین ہند پر علیگڑھ مسلم یونیورسٹی جیسا مقدس معیاری تعلیمی ادارہ وجود میں آیا اور آج بلاشبہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کو ہندوستانی مسلمانوں کی عظمت و وقار کی علامت قرار دیا جاسکتا ہے ۔ کسی بھی تحریک کو کامیاب بنانے کیلئے جنون کی ضرورت ہوتی ہے اور جب تک جذبہ و شوق جنون کی شکل اختیار نہیں کرجاتا تب تک کسی بھی تحریک ، مشن یا ویژن کا کامیابی سے ہمکنار ہونا ناممکن ہوتا ہے ۔ ملک کی آزادی کے 68 سال بعد اگر مسلمانوں کی تعلیمی حالت کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں مایوسی ہی ہوگی۔ کم از کم 80 کے دہے تک تو ہندوستانی مسلمانوں میں ایک قسم کا تعلیمی جمود تھا ۔ شمالی ہند کے مسلمانوں نے سرسید احمد خاں کی شروع کردہ تحریک کو آگے بڑھانے میں ایک طرح سے غفلت برتی لیکن جنوبی ہند کے مسلمانوں نے اس تحریک کو آگے بڑھانے کا عزم کیا اور اﷲ عزوجل نے ان کے پختہ ارادوں کو کامیابی بھی عطا کی چنانچہ ملک میں مسلمانوں کے جتنے تعلیمی ادارے پھیلے ہوئے ہیں ا

ن کی زیادہ تر تعداد جنوبی ہند کی ریاستوں میں ہے اور یہ ادارے ہندوستان بھر کے مسلم نوجوانوں کو زیور تعلیم سے آراستہ و پیراستہ کرنے میں اہم رول ادا کررہے ہیں۔ جہاں تک جنوبی ہند کے مسلمانوں میں تعلیمی انقلاب کا سوال ہے اس معاملہ میں کرناٹک اور آندھراپردیش سب سے آگے ہیں۔ جبکہ اس علاقہ کی خوبی یہ ہے کہ یہاں ایسی شخصیتوں نے جنم لیا ہے جنھوں نے اپنی زندگیوں کو ہر لحاظ سے پسماندہ مسلمانوں کی تعلیمی، معاشی و سماجی ترقی کیلئے وقف کردیا ۔ ان شخصیتوں نے مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرکے انھیں جھنجھوڑتے ہوئے بتایا کہ تم اُن پیارے نبی صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کے اُمتی ہو جن پر قرآن مجید کی جو آیت نازل ہوئی اس میں اﷲ تعالیٰ نے پڑھنے کا حکم دیا ہے اور ایسی اُمت بھلا تعلیم سے کیسے محروم ہوسکتی ہے ۔ ان ہی شخصیتوں نے مسلمانوں سے چیخ چیخ کر مخاطب ہوتے ہوئے انھیں ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ و سلم کا وہ ارشاد مبارک یاد دلایا جس میں آپ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا ’’علم حاصل کرنے کیلئے اگر تمہیں چین بھی جانا پڑے تو جاؤ ‘‘ ۔

ملت کیلئے اپنے دلوں میں تڑپ رکھنے والی ان عبقری شخصیتوں نے مسلمانوں کو ان کی تعلیمی ، معاشی ، سماجی ، سیاسی ، غرض ہر قسم کی پسماندگی کا احساس دلاتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ اس ملک میں ہماری قدر اسی وقت ہوسکتی ہے جب تمہاری نئی نسل تعلیمی شعبہ میں دیگر آبنائے وطن کے ساتھ شانہ بشانہ آگے بڑھے ۔ اس ملک میں تم اپنی موجودگی و اہمیت کا احساس اسی وقت دلاسکتے ہو جب تمہارے بچے تعلیمی میدان میں کامیابی و کامرانی کے جھنڈے گاڑیں۔ سائنسی اداروں میں تمہارے نوجوان نظر آئیں۔ اسپتالوں میں مسلم لڑکے لڑکیاں مریضوں کا علاج کرتے دکھائی دیں۔ ملک کے اہم تعمیری پراجکٹ میں اپنے صلاحیتوں کالوہا منواتے ہوئے دنیا کو یہ بتائیں کہ علم ہماری میراث ہے۔ بہرحال جنوبی ہند میں سرسید احمد خاں کی تحریک کو ایک نئی جہت نیا پن اور نیا رنگ دینے والی عظیم شخصیتوں میں بنگلور کے ڈاکٹر ممتاز احمد خاں بھی شامل ہیں جن میں سرسید احمد خان کا جذبہ ، مولانا ابوالکلام آزاد کا حوصلہ ، شاعر مشرق علامہ اقبال کی فکر ، مولانا محمد علی جوہر کی فرض شناسی ، بابائے میزائیل ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کی جدت پسندی اور ان سب سے بڑھ کر شیر میسور ٹیپو سلطان شہیدؒ کا جذبہ حب الوطنی کوٹ کوٹ کر بھرا ہے ۔ 1966 ء میں جب ان کی عمر صرف 31 برس تھی مدراس یونیورسٹی سے ایم بی بی ایس کرنے والے ڈاکٹر ممتاز احمد خاں نے جنوبی ہند کے مسلمانوں میں تعلیمی انقلاب برپا کرنے کا ارادہ کیا اور ایک تحریک شروع کی ۔ اپنے ایک دوست کے مشورہ پر انہوں نے اس تحریک کو حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کے لقب مبارک الامین سے موسوم کیا اور اسی اسم مبارک کی برکت ہے کہ الامین تحریک سارے ملک میں پھیل گئی ۔ 6 ستمبر 1935 ء کو پیدا ہوئے ڈاکٹر ممتاز احمد خاں نے الامین تحریک اور الامین ایجوکیشنل سوسائٹی قائم کرتے ہوئے ہندوستان بالخصوص کرناٹک کے مسلمانوں پر احسان کیا ہے ۔

آج ان کی اس سوسائٹی کے ذریعہ درجنوں تعلیمی ادارے چلائے جارہے ہیں۔ اس طرح مسلم نوجوان لڑکے لڑکیاں پیشہ ورانہ عصری تعلیم حاصل کرتے ہوئے اپنے ملک و ملت کا نام روشن کررہے ہیں۔ الامین ایجوکیشنل سوسائٹی کے تحت کام کرنے والے اداروں میں الامین میڈیکل کالج ، بیجاپور، الامین انجینئرنگ کالج ، الامین کالج آف فارمیسی ، الامین کالج آف لاء ، الامین کالج آف آرٹس ، سائنس اینڈ کامرس ، الامین کالج آف ایجوکیشن ، الامین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ ، الامین انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن سائنس ، الامین پری یونیورسٹی کالج ، الامین فارمیسی اینڈ ہائی اسکول وغیرہ شامل ہیں۔ ڈاکٹر ممتاز احمد خاں اپنی عمر کے 80 برس مکمل کرچکے ہیں لیکن ان کے جوش و جذبہ پر عمر کا کوئی اثر نہیں پڑا بلکہ بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ ان کا ملی جذبہ مزید جوان و توانا ہوتا جارہاہے ۔ ویسے بھی اﷲ تعالیٰ اُن انسانو ںکی عمر و اقبال میں برکت عطا کرتے ہیں جو دوسروں کی بھلائی کی فکر کرتے ہیں، لوگو ںپر رحم کرتے ہیں اور انسانیت سے محبت جن کا وطیرہ ہوتا ہے ۔ 6 ستمبر کو بنگلور کے الامین ٹاور کیمپس میں ڈاکٹر ممتاز احمد خاں کی 80 ویں سالگرہ کی مناسبت سے ’’یوم بانیان‘‘ کا انعقاد عمل میں آیا جس میں ملک بھر کی ان عظیم شخصیتوں نے شرکت کی جنھوں نے ملت کی تعلیمی ترقی کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیا ہے

جنھیں ہر وقت ہندوستانی مسلمانوں کی ترقی و خوشحالی کی فکردامن گیر رہتی ہے۔ ان میں ایسے ہمدردانہ ملت بھی تھے جو محکمہ پولیس سے لے کر دیگر سرکاری محکمہ جات میں مسلم نوجوانوں کی بھرتیوں کو یقینی بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ایسے لوگ بھی شامل تھے جنھوں نے قوم کے بچوں کے ہاتھوں میں قلم تھمانے کی مہم شروع کررکھی ہے ۔ اس تقریب کے شرکاء میں ملت کے ایسے محسن بھی شامل تھے جنھوں نے مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کے خاتمہ اور ان کیلئے تعلیمی ادارے قائم کرنے کی خاطر اپنی جائیدادیں فروخت کردی ہیں۔ اس پراثر تقریب میں وہ غیرمعمولی شخصیتیں بھی دیکھیں گئیں جنھوں نے ملت کی تعلیمی ترقی کیلئے خود کو بھلادیا ہے ۔ انھیں بس ملت اور اس کی تعلیمی ترقی کی فکر لاحق رہتی ہے۔ اس محفل میں جو ملت کے ایک عظیم محسن کے اعزاز میں سجائی گئی تھی ملک میں مسلمانوں کے ہمدرد اور مسلم کاز کیلئے ہمیشہ مدد کیلئے تیار رہنے والے ایڈیٹر سیاست جناب زاہد علی خاں نے بھی بحیثیت مہمان خصوصی شرکت کی اور ڈاکٹر ممتاز احمد خاں کو ان کے ہاتھوں سپاسنامہ پیش کیا گیا ۔ کوچی کیرالا کے سالسٹر جنرل جناب ٹی ایم ابراہیم خاں نے صدارت کی جبکہ الامین ایجوکیشنل سوسائٹی کے نائب صدر و کرناٹک کے وزیر حج و اطلاعات و انفراسٹرکچر جناب آر روشن بیگ اس محفل کے روح رواں تھے ۔ جناب زاہد علی خاں نے تعلیمی میدان میں ڈاکٹر ممتاز احمد خاں کی خدمات کی ستائش کرتے ہوئے پرزور انداز میں کہا کہ ڈاکٹر ممتاز نے جو علمی تحریک شروع کی وہ کرناٹک کی سرحدوں کو عبور کرتے ہوئے سارے ملک میں پھیل گئی ہے ۔ اس تحریک نے مسلمانوں میں حصول علم کا جذبہ پیدا کیا ۔ 5 دہوں سے ڈاکٹر ممتاز ملک و ملت کی جس انداز سے خدمت انجام دے رہے ہیں اس کی جتنی ستائش کی جائے کم ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے کبھی ستائش کی تمنا کی نہ صلہ کی پروا ۔ جناب زاہد علی خاں کے مطابق ہندوستان میں مسلمانوں نے 800 سے زائد برسوں تک حکمرانی کی لیکن آزادی کے بعد مسلمانوں کو کیا حاصل ہوا اس نکتہ پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ ملک میں حصول علم کے بناء کچھ نہیں کیا جاسکتا ۔ حکومتوں پر تکیہ کرنے کی بجائے خود ہم میں احساس ذمہ داری پیدا ہونی چاہئے اگر ہمارے بچے حصول علم کی جانب راغب ہوں گے تو ترقی کی راہیں خودبخود کھل جائیں گی ۔ خوشحالی عزت و وقار ہمارے دروازوں پر دستک دیں گی ۔ ہندوستان بھر میں تعلیمی تحریک کے ساتھ ساتھ تحفظ اردو کی مہم میں پیش پیش رہنے والے جناب زاہد علی خاں نے شرکاء کو یقین دلایا کہ اردو کی چاشنی اس کی شائستگی کا دوسری زبانیں مقابلہ نہیں کرسکتی ۔ اردو کو مٹانے کی لاکھ کوشش کی جارہی ہیں لیکن یہ زبان مٹنے والی نہیں۔ جنگ آزادی سے لے کر آج تک قوم کو ایک نئی توانائی عطا کرنے والا نعرہ انقلاب زندہ باد کا دینے والی یہ زبان ، غزل کی شکل میں عشق و محبت کی باتیں کرنے والی یہ بولی ، ترانوں کی شکل میں حب الوطنی کا پیام دینے والی اردو مٹنے والی نہیں ۔ گزشتہ سو برسوں کے دوران متعدد زبانیں اپنا وجود کھوچکی ہیں لیکن کشمیر سے لیکر کنیا کماری ، پنجاب سے لیکر بنگال تک اردو اسی آن و شان سے کھڑی ہے ۔ ڈاکٹر ممتاز احمد خاں کی 80 ویں سالگرہ کے موقع پر منائے گئے فاؤنڈرس ڈے کے موقع پر تعلیمی میدان میں نمایاں خدمات انجام دینے والی شخصیتوں کو بابائے تعلیم ڈاکٹر ممتاز احمد خاں ایوارڈس عطا کئے گئے ۔ الامین اسپتال بنگلور کے ماہر امراض اطفال ڈاکٹر اسلم احمد ، جناب مشتاق احمد ٹمکور ، جناب بابل علی ، مولانا محمد ادریس عمری ، ڈاکٹر انیتا نائر اور ڈاکٹر شاملا ایم ایس یہ باوقار ایوارڈس حاصل کرنے والوں میں قابل ذکر ہیں۔ ڈاکٹر اسلم احمد کو اس بات کا اعزاز حاصل ہے کہ وہ الامین کالج کے فارغ التحصیل ہیں ۔ گوہاٹی سے تعلق رکھنے والے جناب بابل علی نے اپنی جائیداد فروحت کرتے ہوئے آسامی مسلمانوں کیلئے نرسنگ اسکول قائم کیا ۔ ریاست آسام میں مسلمانوں کی 40 فیصد آبادی کے باوجود وہاں کے مسلمان تعلیمی لحاظ سے کافی پسماندہ ہیں۔ تقریب میں شرکت کرنے والی ممتاز شخصیتوں میں پروفیسر وائی عزیز احمد ، جناب ہمایوں شریف ، جناب آر روشن بیگ ، جناب اے شیخ داؤد اور جناب شفیع اﷲ شامل ہیں۔

بعد ازاں جناب زاہد علی خاں نے اپنی اہلیہ محترمہ کے ہمراہ سری رنگاپٹنم پہنچ کر شیر میسور ٹیپوسلطان شہید کی مزار پر حاضری دی اور گلہائے عقیدت پیش کئے ۔ آج بھی ان کے مقبرہ پر وہی جاہ و جلال دیکھا جاسکتا ہے جو انگریز سامراج کے خلاف لڑائی میں اس نیک دل بادشاہ کے چہرہ پر نمایاں ہوتا تھا ۔شیر میسور حضرت ٹیپوسلطان شہیدؒ کی مزار پر نظر پڑتے ہی کانوں میں ان کا وہ قول گونجنے لگتا ہے جس میں انھوں نے کہا تھا
’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈر کی سو سال کی زندگی سے بہتر ہے ‘‘
ٹیپوسلطان صرف انگریزوں کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہونے والے پہلے ہندوستانی حکمراں یا راکٹ سازی کے موجد ہی نہیں تھے بلکہ انھیں علم سے بھی غیرمعمولی لگاؤ تھا ۔ ان کے شوق مطالعہ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے ذاتی کتب خانہ میں ایک نہیں دو نہیں بلکہ 2000 سے زائد کتابیں تھیں ۔ حضرت ٹیپوسلطان شہید کی مزار پر حاضری دینے کے دوران شاعر مشرق علامہ اقبال کے وہ الفاظ ضرور یاد آتے ہیں جو انھوں نے 1929 ء میں شیر میسور کی مزار پر حاضری کے موقع پر ادا کئے تھے ۔ انھوں نے کہا تھا ’’ ٹیپو کی عظمت کو تاریخ کبھی فراموش نہ کرسکے گی وہ مذہب ملت اور آزادی کیلئے آخری دم تک لڑتے رہے اور اسی مقصد کی راہ میں شہید ہوگئے‘‘ ۔ ٹیپوسلطان کی حب الوطنی پر شک کرنے والے بدقماش عناصر کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ برطانوی فوج کے نیشنل آرمی میوزیم نے تاج برطانیہ کے 10 خطرناک دشمنوں کی جو فہرست تیار کی گئی ہے اس میں ٹیپوسلطان کا نام سرفہرست ہے اور انہیں بطور احترام ’’عظم دشمن‘‘ کہا گیا۔
mriyaz2002@yahoo.com