تعارف انجمن ریختہ گویان

(یہ مضمون ’’انجمن ریختہ گویان‘‘ کی افتتاحی تقریب میں پڑھا گیا)

سعید حسین
’’اللہ جمیل یحب الجمال‘‘  خدا خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ یہاں خوبصورتی کا مطلب دلوں کی خوبصورتی ہے، نیتوں کی خوبصورتی ہے ،ارادوں کی خوبصورتی ہے اور اسی خوبصورت ارادوں کے مقصد سے ’’آپ اور ہم ‘‘آج یہاں جمع ہوئے ہیں۔وہ تمام حضرات جو تہذیب کے محافظ ہیں، اد ب کے علمبردار ہیں، انسانیت کے پرَستارہیں، اُن تمام کی خدمت میں اس ناچیز کی جانب سے پُرخلوص سلام، میں ایک بے زبان آدمی ہوں، لیکن اردو کا عقیدت مند ہوں۔
سکونِ دل کیلئے کچھ تو اہتمام کروں
مجھ تو ہوش نہیں، آپ مشورہ دیجئے
جاوید کمال صاحب نے یہ جو کہکشاں سجائی ہے۔ اس کہکشاں میں تشریف لائے ہوئے تمام سامعین ،شرکاء اور مہمانان کا دل کی گرائیوں سے استقبال کرتا ہوں اور انہیں خوش آمدید کہتا ہوں۔آج ’’انجمن ریختہ گویان‘‘ کی افتتاحی تقریب ہے اور اس انجمن کے روح رواں ڈاکٹر جاوید کمال صاحب کی مسلسل محنت اور انتھک کوششوں اورسرپرست اعلیٰ جناب پروفیسر ایس اے شکور صاحب، مشیر اعلیٰ جناب رحیم خان صاحب، نائب سرپرست پروفیسر شوکت حیات خان صاحب کی خصوصی دلچسپی اور سرپرستی کی وجہ سے یہ انجمن سجائی گئی ہے۔ میں جناب رحیم خان صاحب ،معتمد انجمن ترقی اردو، آندھرا و تلنگانہ، سابقہ پرنسپل، ادب دوست اور دنیائے ادب کے رہنما کے لئے یہ اشعار کہنا چاہوں گا…   ؎
یہ الگ بات ہے خاموش کھڑے رہتے ہیں
ایسے ولیوں سے تو ملتا ہے ہمارا شجرہ
پروفیسر ایس اے شکور صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں ، رات دن خدمت خلق میں لگے رہتے ہیں۔ میں جب بھی ان کے آفس جاتا ہوں تو مجھے جناب قادر علی خاں صاحب آئی اے ایس ڈائریکٹر آف انڈسٹریز کا دربار یاد آتا ہے، جن کے آفس کا دروازہ ہمیشہ ضرورت مندوں کے لئے کھلا رہتا تھا۔ شکور صاحب کے لئے میں یہ شعر کہنا مناسب سمجھوں گا   ؎
میں ایک قطرہ ہوں، مجھے ایسی صفت دے مولا
جناب محمد قمر الدین صاحب سابقہ چیف انجینئر ٹرائبل ویلفیئر ڈپارٹمنٹ حکومت آندھرا پردیش، اردو ادب کے پرستار ادبی انجمنوں کے سرپرست اور مخیر انسان ہیں اور ہمیشہ سچ کے لئے سینہ سپر رہتے ہیں۔ ان کی خدمت میں یہ شعر پیش کرنا چاہوں گا۔
اصولوں پر اگر آنچ آئے تو ٹکرانا ضروری ہے
پروفیسر شوکت حیات خان صاحب صدر شعبہ امبیڈکر اوپن یونیورسٹی سابقہ کوارڈینیٹر اردو میڈیم پروگرامس، پروفیسر اینڈ ہیڈ ڈپارٹمنٹ آف اردو، فعال اور ہمہ جہت شخصیت اور ہمیشہ طلباء برادری کی بھلائی کے لئے کام کرتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالی ان کی ہمت کو تقویت دے۔ جناب کے لئے یہ شعر پیش کرتا ہوں۔
دعا کرو کہ سلامت رہے میری ہمت
ریختہ :  زبان اردو کا پرانا نا م ہے۔ حضرت امیر خسرو نے پہلے اسے ہندوی کہا، پھر اسے ’’ریختہ‘‘ کہا جانے لگا اور وہی ’’ریختہ‘‘ اردو زبان کی حیثیت سے ساری اردو دنیا میں لکھی، پڑھی اور بولی جارہی ہے۔ بقول گوپی چند نارنگ کے اردو کبھی بھی ختم نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ رابطہ کی زبان ہے۔ شاعری کی زبان ہے۔ دنیا کے کسی بھی حصے میں آپ چلے جائیں۔ آپ کو اردو بولنے والے مل جائیں گے، ہاں …لیکن اردو اسکرپٹ کو نقصان پہنچنے کے امکانات ہیں، اس کو محفوظ کرنے کے لئے بڑا ٹھوس کام کرنا چاہئے۔ چنانچہ اسی مقصد کے لئے اس انجمن کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے۔جناب شمس الرحمن فاروقی صاحب نے بڑی ایمانداری سے اس بات کا جشن ریختہ کے پروگرام میں اعتراف کیا ہے کہ غزل کی ابتدائی نشونما دلی سے نہیں بلکہ حیدرآباد سے ہوئی جو قلی قطب شاہ کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔بہرحال جناب فاروقی صاحب نے اس غلط فہمی کو دور کردیا کہ غزل کی ابتدائی نشونما دلی یا لکھنؤ سے نہیں بلکہ دکن سے ہوئی تھی۔ اس انجمن کے ذریعہ ہم کوشش یہ کریں گے کہ اردو کو اس کی اصل حالت میں برقرار رکھنے کے لئے کیا کرنا چاہئے؟ اردو کے قاری کس طرح پیدا کرنے چاہئے۔ اس سلسلہ میں ہماری پہلی میٹنگ میں یہ طئے کیا گیا کہ مندرجہ ذیل نکات پر غور و فکر کریں اور اس کو فروغ دینے کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں۔ ہر مہینہ پابندی سے ایک تین گھنٹے کا پروگرام پیش کریں، جس میں مقابلہ بیت بازی، لطیفہ گوئی، مزاحیہ مضامین، افسانہ، افسانچہ، داستاں گوئی، ڈرامہ پیش کئے جائیں۔ گلوکار حضرات سے رابطہ کرکے فن اور فنکار ایک پروگرام پیش کیا جائے۔ڈھولک کے گیت بھی پیش کئے جائیں گے۔اساتذہ کا کلام پڑھا جائے اور اس کے معنی و مفہوم اساتذہ کی نگرانی میں سمجھے جائیں۔ اسکول اور کالج کے طلباء میں مقابلہ بیت بازی کروائی جائے اور ان کو ترغینی انعامات دیئے جائیں۔ پرانے ادیب اور شعراء کی کتابوں کو جس میں نثر اور نظم دونوں شامل ہوں، شائع کی جائیں۔جنوری 2013میں دہلی میں ایک انجمن کا قیام عمل میں آیا جو ریختہ فاؤنڈیشن کے نام سے کام کررہا ہے جس کے روح رواں فاؤنڈر ڈائریکٹر جناب سنجیو صراف ہیں جنہیں حال ہی میں مولانا آزاد یونیورسٹی کی جانب سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا گیا ہے۔
سن 2011ء میں انہوں نے اردو سیکھنا شروع کیا اور 2 سال کی مختصر مدت میں اردو زبان پر عبور حاصل کیا جوں جوں اردو شاعری سننے اور پڑھنے سے واسطہ پڑا تو انہوں نے یہ محسوس کیاکہ زبان اردو کی کس طرح خدمت کی جائے تاکہ یہ زبان ہر غیر اردو داں کے لئے سیکھنے کا سبب بنے۔ مختلف احباب اساتذہ اور ادیب و شاعر حضرات سے مشورہ کے بعد انہوں نے ریختہ فاؤنڈیشن کا اپنے ذاتی اخراجات پر قیام عمل میں لایا۔ریختہ فاؤنڈیشن نے اپنی ایک و یب سائٹ قائم کی۔ اس کے وزیٹرس کی تعداد تقریباً 50 لاکھ ہے۔ تقریباً 250 شعرائے کرام کی 20,000 غزلیات کو ریکارڈ کروایا گیا۔ سنجیو کہتے ہیں کہ ریختہ فاؤنڈیشن کا قیام اردو ادب کے شہر میں داخل ہونے کا ایک دروازہ ہے۔ اس سائٹ کی خصوصیت یہ ہے کہ ایک کلک میں آپ کو ساری تفصیلات حاصل ہوسکتی ہیں۔ مشہور شاعر گلزار نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ امیر خسرو کے بعد ہمیں سنجیو صراف کا شکر گذار ہونا چاہئے جنہوں نے اپنے ذاتی خرچ پر اس فاؤنڈیشن کا قیام عمل میں لایا۔E-Book کے ذریعہ ابتک تقریباً 23,000 اردو ادب کی مشہور کتابیں محفوظ کی گئی ہیں۔ ریختہ فاؤنڈیشن نے آن لائن اردو اسکرپٹ سکھانے والا اپلیکیشن ’’آموزش‘‘ کے نام سے شروع کیا ہے۔دلی کا ایک غیر مسلم صحافی پردیب شرما خسرو جو اردو اور امیر خسرو کا شیدائی ہے۔ کسی محفل میں امیر خسرو کا کلام ساز پر سن رہے تھے۔ پروگرام کے ختم ہونے کے بعد گلوکار سے دریافت کیا کہ آپ نے جو غزل اب سنائی ہے مجھے اس شاعر کی ساری تفصیلات چاہئے۔ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کی شاعری کے ذریعہ میری روح کو سکون نصیب ہوا ہے۔ اس کے بعد میں نے امیر خسرو پر تحقیق شروع کی مختلف ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں سے رابطہ قائم کیا۔ تو مجھے مایوسی ہوئی کہ کہیں پر اس عظیم شاعر کے تعلق سے خاطر خواہ تفصیلات نہیں ملی۔ آگے وہ لکھتے ہیں کہ میں پیشے سے ایک صحافی ہوں اکثر صوفی ازم اور اردو شاعری پر لکھتا رہا ہوں۔ میری اس تلاش کے دوران مجھے ظ۔ا انصاری صاحب کی ایک انگریزی کتاب ’’امیر خسرو دہلوی‘‘ جو نیشنل امیر خسرو سوسائٹی نے 1975ء میں شائع کی تھی، ملی۔ اس کے بعد میں نے ’’امیر خسرو‘‘ پر کام کرنا شروع کیا۔ آج میرے پاس خسرو پر 200 سے زیادہ کتابیں موجود ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں امیر خسرو کا سارا کلام فارسی سے اردو، ہندی اور انگریزی میں ترجمہ کرواکر شائع کروں گا تاکہ دوسری زبان کے پڑھنے والے بھی امیر خسرو کی شاعری اور شخصیت سے واقف ہوں۔ اس وقت پردیب شرما ’’امیر خسرو‘‘ کی مشہور کتاب ’’مثنوی نہہ سپہر‘‘کا اردو میں ترجمہ ڈاکٹر تنویر احمد علوی صاحب سے کروا رہے ہیں ۔ جو کام بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں نہیں ہورہا ہے وہ ایک ایسا شخص کررہا ہے جو فارسی نہیں جانتا جس کا نام پردیب شرما خسرو ہے۔اسی طرح رامو جی راؤ صاحب ہیں جو اردو کی خدمت کررہے ہیں۔ ای ٹی وی اردو کا قیام رامو جی راؤ صاحب کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ اس طرح کے کئی لوگ اردو کی خدمت کررہے ہیں۔ اس انجمن کے قیام کا مقصد بھی یہی ہے کہ اردو زبان و ادب کی خدمت کریں، اس سرمائے کو محفوظ کریں، خاص طور پر اردو اسکرپٹ کو۔بقول شاعر کے…   ؎
جن کے ہونٹوں پہ ہنسی، پاؤں میں چھالے ہوں گے
ہاں وہی لوگ تیرے چاہنے والے ہوں گے
جب شوق جنون کی حدوں میں شگاف لگاتاہے تو سنجیو صراف یا پردیپ شرما یا رامو جی راؤ جیسے لوگ پیدا ہوتے ہیں۔
آخر میں … میں آپ سے یہ کہوں گا۔ اس انجمن میں آپ کو آنا ہے بار بار … دیوار و در کو آپ پہچان لیجئے۔     شکریہ